رپورٹ اور فیصلہ

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 12 جولائی 2017
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

رپورٹ متنازعہ بن چکی اور ایک فریق نے مسترد کردی ہے، آنے والے فیصلے کو مگر متنازعہ نہیں بننا چاہیے۔ عدلیہ کے فیصلے کو ہر صورت قبول کیا جانا چاہیے۔ چند روز قبل کھانے پر کچھ پرانے کالج فیلوز اکٹھے ہوئے، اس میں تینوں آرمڈ فورسز کے ریٹائرڈ افسران بھی تھے اور کچھ سویلین بھی۔

کھانا تناول کرتے وقت کسی نے جملہ کسا’’سول اور ملٹری ایک صفحے پر ہو نہ ہو، ایک میز پر تو اکٹھی ہے‘‘  وہاں بھی پانامہ کیس پر بات چلی تو جرنیل صاحبان کی اکثریت نے سیاستدانوں کی کرپشن اور بری گورننس کو نشانہ بنایا مگر جب محفل کے کچھ شرکاء نے پوچھا کہ ’’آرمی کے موجودہ چیف تو جمہوری نظام کا تسلسل اور ملک میں استحکام چاہتے ہیں تو پھر آخر کیا وجہ ہے کہ سازش اور کٹھ پتلیوں کی بات ہوتی ہے اورآرمی کے کچھ لوگوں کی طرف اُنگلیاں بھی اٹھتی ہیں شائد اس لیے کہ ماضی کے دھرنوں میں کچھ تلخ حقائق سامنے  آچکے ہیں، اصل حقیقت کیا ہے؟‘‘۔

محفل میں موجود ریٹائرڈ جنرل صاحبان کی اکثریّت نے سازش کی تھیوری سے اتفاق نہ کیا مگر تینوں فورسز کے افسران کی اکثریّت نے اِس تجزیئے سے اتفاق کیا کہ ’’جنرل باجوہ تو چاہتے ہیں کہ آرمی  اپنے پیشہ ورانہ امور تک محدود رہے مگر پرویز مشرّف کی باقیات ابھی موجود ہیں جو سویلین بالادستی کو دل سے ماننے کے لیے تیّار نہیں ہیں، انھیں کرپشن سے نفرت نہیں ہے، نواز شریف سے اختلاف کی وجہ بھی کرپشن نہیں ہے، زرداری صاحب کرپشن کے دیوتا تھے مگر چونکہ تَھلّے لگے رہے تھے اس لیے وہ قابلِ قبول رہے۔

کسی ایک پارٹی کی دوتہائی اکثریت اور کسی ایک لیڈر کی بہت زیادہ مقبولیت انھیں کھٹکتی ہے اس لیے وہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے اور نیچے لگائے رکھنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ جنرل راحیل کی legacyبرقرار رکھنے کا بھی دباؤ موجود ہے، Rejectedوالی ٹویٹ اُسی کا شاخسانہ تھی‘‘۔ اس پر ایک صاحب نے پوچھاکہ ’’کسی جمہوری ملک میںیا ملائیشیا، انڈونیشیا، ترکی، سری لنکا ، بھارت، بنگلہ دیش یا ایران میں سے کہیں بھی حکومت کے فیصلے کے بارے میں فوج کیطرف سے ایسا ٹویٹ کیا جاسکتا ہے کہ ’’ ہم حکومت کا موقّف مسترد کرتے ہیں‘‘۔

اس موقع پر راقم نے کہا ’’جہاں تک سیاستدانوں پرکرپشن ، بری گورننس اور بھارت کے ساتھ نرم روئیے کا الزام لگایاجاتا ہے، یہ بات میرے ذاتی علم میں ہے کہ1999میں مشرّف کے مارشل لاء میں لاہور میں ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاسوں کی صدارت کرتے ہوئے جرنیل صاحبان شہباز شریف کی گورننس کی مثالیں دیا کرتے تھے(بلاشبہ 1997-99تک ان کی گورننس بہت اعلی تھی)۔کرپشن کی سرپرستی میں بھی سب سے بڑا ریکارڈ ایک فوجی جرنیل یعنی پرویز مشرفّ نے قائم کیا جس نے این آر او کے تحت کرپشن کے تمام مقدمات ختم کرکے کرپشن کو جائز ہونے کا سرٹیفیکیٹ دے دیا۔

انڈیا کے تھلّے لگنے کا بدترین مظاہرہ بھی کسی سویلین لیڈر نے نہیں، جنرل مشرّف نے کیا تھا۔ اُسی نے کشمیر کے سب سے قابلِ احترام لیڈر سیّد علی گیلانی کے ساتھ بدزبانی کی جس پر انھوں نے یہ کہہ کر اس سے ملنے سے انکار کردیا کہ’’ مشرّف صاحب! آپ کشمیر کا سودا کرنا چاہتے ہیں ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے‘‘۔ ایک صاحب نے کہا ’’عمران خان کو یہ کریڈٹ تو جاتا ہے کہ اس نے کرپشن کا اِشُو زندہ رکھّا‘‘ ایک سابق ائر مارشل نے لقمہ دیا ’’جی ہاں نہ صرف کرپشن کے اِشّو کو بلکہ کرپشن میں ملوّث بدنام سیاستدانوں کو بھی زندہ رکھّا ہے، عمران اپنے دروازے نہ کھولتا تو بہت سے کرپٹ سیاستدان سیاسی موت کے گھاٹ اتر جاتے‘‘۔

مجموعی طور پر جنرل صاحبان کی رائے منقسم تھی کچھ کا زور سیاستدانوں کی کرپشن کو اجاگر کرنے پر رہا مگر کچھ نے اس سے اتفاق کیا کہ ’’عسکری قیادت کو ادارے کی بڑائی اور بالادستی قائم کرنے کے بجائے ملک کا مفاد پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ جنرل باجوہ کو جنرل راحیل شریف کی پالیسی پر چلتے ہوئے صحافیوں سے ملاقاتیں نہیں کرنی چاہئیں اور آئی ایس پی آر کو صرف پیشہ ورانہ سرگرمیوں تک محدود رہنا چاہیے اور فوج کو متوازی حکومت کے طور پر پیش کرنے یا ادارے کو ملک سے بھی زیادہ مقدّس ثابت کرنے پر وسائل اور توانائیاں خرچ نہیں کرنی چاہئیں‘‘۔

محفل کے تمام شرکاء اس پر متفق تھے کہ ’’پاکستان کی بہترین پروفیشنل آرمی کئی عالمی طاقتوں کی نظروں میں کھٹکتی ہے اسے کمزور اور متنازعہ بنانا ان کی پرانی خواہش ہے وہ چاہتے ہیں کہ آرمی اور پاکستانی عوام کا آپس میں تصادم ہو، ہمیں ایسی صورت ہرگز پیدا نہیں ہونے دینی چاہیے اس سلسلے میں میڈیا کو فوج کے بارے میں تبصروں سے روکنا چاہیے، سیاسی اور عسکری قیادت کو صرف اور صرف پاکستان کے امن اور خوشحالی کے لیے جدوجہدکرنی چاہیے اور ایک دوسرے کو کمزور کرنے یا نیچا دکھانے کی ہرگز کوشش نہیں کرنی چاہئیں‘‘۔

ملک کے مختلف حصّوں سے کئی ڈاکٹرز، انجینئرز، پروفیسرز اور پروفیشنلز کے فون آرہے ہیں جسکا خلاصہ یہ ہے کہ ’’ایک خاندان کی تفتیش توہوگئی ہے اب باقی لیڈروں اور پھر ججوں اور جرنیلوں کی تفتیش بھی ہونی چاہیے۔Living Beyond Means کا اطلاق تو ہر بڑے آدمی پر ہوتا ہے۔ ہر بڑے عہدیدار کے بارے میں بتایا جائے کہ وہ صادق اور امین ہے یا نہیں!‘‘۔

قطر سے ڈاکٹر خالد حبیب صاحب نے لکھا ہے ’’جے آئی ٹی کے لوگ دبئی تک آسکتے تھے تو قطر کیوں نہیں آئے جہاں سابق وزیرِاعظم اُن کی میزبانی کے لیے تیار تھے، یہ بات آپ لوگوں کو ذہن میں رکھنی چاہیے کہ پرنس حامد بن جاسم شاہی خاندان کے اہم فرد اور سابق وزیرِ اعظم ہیں۔ یہ کئی دھائیوں سے حکمران ہیں اس لیے سرکاری اہلکاروں کے سامنے پیش ہونے کے عادی نہیں ہیں نہ ہی شاہی خاندان میں اسطرح کا کوئی کلچر ہے لہٰذا پاکستان سے جے آئی ٹی کے ممبران کو یہاں آکر ان کا بیان لینا چاہیے تھا۔ اس کے بغیر رپورٹ نامکمّل سمجھی جائے گی‘‘۔

قانونی حلقے اس بات کی بجا طور پر توقّع رکھتے تھے کہ عدالتِ عظمیٰ کرپشن کے خاتمے کے ذمّے دار دونوں اداروں یعنی نیب اور ایف آئی اے کے سربراہوں کی تقرّری کا طریقۂ کار ضرور تبدیل کردیگی اور تقررّی کا اختیار حکومت کے بجائے سرچ کمیٹی یا عدالتِ عظمیٰ کو دے دیا جائیگا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ لگتا ہے توجّہ کرپشن کے خاتمے کی جانب نہیں نوازشریف اور ان کے خاندان کی طرف رہی ہے۔

بہرحال ہماری دعا ہے کہ خدائے بزرگ وبرتر عدالتِ عظمیٰ کے فاضل جج صاحبان کوذاتی پسند و ناپسند سے بالاتر ہو کر قانون اور انصاف کے مطابق فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ ہمیں امید ہے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ (جسکی بالادستی قائم کرنے کے لیے بڑی جدوجہد ہوئی اور بشمول اس ناچیز کے ملک کے لاکھوں شہریوں نے حصّہ ڈالا) اب نظریۂ ضرورت کے مُردے میں جان ڈالنے کی ہر کوشش کو ناکام بنادے گی۔

آخر میں محترم چیف جسٹس آف پاکستان سے گزارش ہے کہ احتساب صرف ایک شخص یا خاندان تک محدود رہیگا تو اسے انتقام یا سازش کا نام دیا جائیگا۔ انصاف کا تقاضا بھی ہے اور قوم کی خواہش بھی یہی ہے کہ پارلیمنٹ میں موجود تمام پارٹیوں کا احتساب ہو، مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی اسوقت بالترتیب پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخواہ میں برسرِ اقتدار ہیں، پچھلے دور میں اقتدار ق لیگ، اے این پی، ایم کیوایم کے پاس رہا ہے۔ جے یو آئی اور جماعتِ اسلامی  اِسوقت بھی اقتدار میں حصّے دار ہیں۔

اب فوری طور پر ان تمام پارٹیوں کے صفِ اوّل کے پانچ پانچ رہنماؤں کا احتساب شروع کرادیاجائے۔ اس کے بعد بیوروکریٹس اور مشکوک شہرت والے جرنیلوں اور ججوں کا احتساب کیا جائے اس کے لیے آپ خود جے آئی ٹی کی تشکیل کریں اور اس کی تفصیلی رپورٹ آنے والے الیکشن سے پہلے پبلک کردی جائے تاکہ اس کی روشنی میں عوام اپنا فیصلہ دے سکیں۔

ملک کی مسلحّ افواج کے سپہ سالار سے بھی یہی کہنا ہے کہ حکومتیں بنانے اور ختم کرنے کا اختیار پاکستان کے بیس کروڑ عوام کا ہے۔ جنرل باجوہ صاحب ! آپ سے پوری توقع ہے کہ آپ عوام کا حقِّ حکمرانی چھیننے کی ہر کوشش یا سازش کو ناکام بنادیں گے۔

آخر میں وزیرِ اعظم صاحب سے گزارش ہے کہ عدالتِ عظمیٰ سے جو بھی فیصلہ آئے اسے قبول کرلیں،اگر جے آئی ٹی کی رپورٹ متنازعہ ہونے کے باوجود آپ قوم سے خطاب کرکے استعفیٰ دے دیتے ہیں تو عوام میں آپ کے لیے ہمدردی کی لہر پیدا ہوگی۔ آپ اپنی جگہ بیگم کلثوم نواز کو (جو ایک مدبّر اور بہادر خاتون ہیں اور اسلامی تہذیب اور اقدار کی علمبردار بھی ہیں) نامزد کردیں اور عدلیہ کے خلاف احتجاج کا راستہ اختیار نہ کریں اور اپنی پارٹی کے لیے نیا مینڈیٹ لینے کے لیے عوام سے رجوع کریں تومیرا خیال ہے اکثریّت آپ کے ساتھ ہوگی۔

ہر آزمائش اور بحران سے انسان سبق سیکھتا ہے آپ اس بحران کے بعد فیصلہ کرلیں کہ اگلے الیکشن میں کسی کرپٹ، بدنام اور کمیشن خور کو ٹکٹ نہیں دیں گے۔ نیز مشکوک کردار کے سیاستدانوں اور افسروں کو دور رکھیں اور صرف دیانتدار سیاستدانوں اور افسروں کو عزّت دیں۔

ہمارا ملک ایک اکائی نہیں بلکہ پانچ صوبوں پر مشتمل ایک کنفیڈریٹنگ یونٹ ہے جسکی بقاء صرف جمہورکی حکمرانی سے وابستہ ہے، اگر سیاسی منظر نامے سے نواز شریف اور عمران خان جیسے مقبول لیڈروں کو ہٹادیا جائیگا تو جمہوریت اور سویلین ٹیم کمزور ہوجائے گی ۔ جو ملک کے مفاد کے منافی ہوگا۔ خدائے بزرگ و برتر اس ملک کو تاقیامت قائم ودائم، مضبوط ، پرامن اور خوشحال رکھّیں۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔