جنرل کیانی سرخرو ٹھہرے (3)

اسد اللہ غالب  بدھ 6 فروری 2013
ghalib1947@gmail.com

[email protected]

عدلیہ کے سابقہ فیصلوں کے مطابق پاکستان کا کوئی مارشل لا غیر آئینی نہیں تھا، تو پھر آیندہ کے کسی مارشل لا سے چڑ کاہے کو۔ ابتدا میں قائد اعظم کی بہن اور مادر ملت فاطمہ جناح نے ایوب خان کے مارشل لا کی تائید کی تھی ۔ بعدمیں محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خاں کے مقابل صدارتی الیکشن بھی لڑا۔ جن سیاسی اور بزعم خویش جمہوری قوتوں نے محترمہ کو الیکشن میں کھڑا کیا اور ان کی انتخابی مہم چلائی ، انھوں نے ایوب خاں کے اقتدار کو بالواسطہ طور پر قبول کیا۔ایوب خان کے مارشل لا کو غلط ثابت کرنے کے لیے آج تک کوئی تحقیق اور تفصیل سامنے نہیں آئی۔

چینی چور کے نعرے کے ساتھ لاہور کی مال روڈ پر سوٹڈ بوٹڈ بچوں سے جلوس نکلوا کر ایوب خاں کے اقتدار کا جلوس نکال دیا گیا، کیا کسی مارشل لا ڈکٹیٹر کو تخت سے اتارنا اتنا ہی آسان ہوتا ہے، جی ہاں ،صرف اس وقت ، جب اگلا آرمی چیف خود اقتدار سنبھالنا چاہتا ہو۔ایوب خاں کی جگہ یحی خاں نے لے لی،اسی کے منعقد کردہ انتخابات میں ان دونوں عوامی سیاسی پارٹیوں نے حصہ لیا جنھیں مشرقی اور مغربی پاکستان سے اکثریت حاصل ہوئی۔بھٹو اور شیخ مجیب یحیٰ خاں کو غاصب سمجھ رہے ہوتے تو الیکشن میں کیوں جاتے۔یہی حال شوکت اسلام والوں کا ہے جنھیں شکست فاش ہوئی مگر انھوں نے بھی الیکشن میں حصہ لیا۔یحیٰ خاں پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس کے مارشل لا نے پاکستان دو لخت کیا لیکن اس حوالے سے جمہوریت نواز سیاستدانوں کا کردار سب کے سامنے ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی نہیں، بھارتی فوج نے جارحانہ یلغار کر کے ڈھاکہ پر قبضہ جمایا تھا۔ایک لمحے کے لیے سوچئے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کی باہمی سر پھٹول میں بھارتی فوج کا کیا کام تھا۔بھائی، یہ سارا کام تو بھارت ہی کا تھا جس نے قیام پاکستان کے ساتھ ہی دعویٰ کر دیا تھا کہ نئی اسلامی مملکت زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی،سرنڈر کے بعد کس نے کہا تھا کہ نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا گیا ہے، اگر یہ قول تاج الدین یا شیخ مجیب کا نہیں ، اندرا گاندھی کا تھا تو ساری بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔ پاکستان کو دو لخت کرنا بنگالیوں کا نہیں ، بھارت کا منصوبہ تھا جس میں وہ کامیاب رہا اور بھارت کے منصوبوں میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں آئی۔آج اندرا گاندھی کی بہو سونیا گاندھی کہہ چکی ہیں کہ پاکستان کو ثقافتی یلغار میں ڈھیر کر دیا گیا ہے۔

یہ بات کسی بلوچ لیڈر یا سندھو دیش کے لیڈر نے نہیں کی۔بھارتی کانگریس کی صدر نے کی ہے۔تو پاکستان کے بارے میں مذموم عزائم کس کے ہیں۔اور ان کے ثبوت میں مزید دلائل لانے کی ضرورت کیا ہے۔ستم ظریفی یہ ہوئی ہے کہ بھارت کے ساتھ اب امریکا بھی کھل کر پاکستام کے مقابل آن کھڑا ہے، رچرڈ ہالبروک مر گئے، اس کی روح نہیں مری، اس کے افکار نہیں مرے ،ملکوں کے حصے بخرے کی پی ایچ ڈی اس کے ساتھ قبر میں نہیں اتری۔ستمبر دو ہزار دو میں ری پبلکن امریکی صدر بش نے نئی صلیبی جنگ کے آغاز کا بگل بجایا تھا،یہ صلیبی جنگ دو مرتبہ صدارتی الیکشن جیتنے والے سیاہ فام امریکی صدر اوبامہ کی زیر کمان بھی جاری ہے، اس جنگ میں اصل مد مقابل پاک فوج ہے، اس کی ایٹمی قوت ہے، اس کا جذبہ ایمانی ہے، اس کے ایثار کی لا زوال تاریخ ہے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جو پاکستانی فوج پہلے دن سے وار آن ٹیرر میں امریکا کے ساتھ ہے، وہ مد مقابل کیسے ہو گئی۔امریکا بڑا ہوشیا ر ہے۔اس کی فوج افغانستان میں اتری ، عراق میں اتری، اس کہ شہہ پر نیٹو افواج نے لیبیا کے مرد آہن قذافی کا دھڑن تختہ کیا، تیونس میں صدر زین العابدین کو چلتا کیا ، مصر میںحسنی مبارک کا بولو رام ہو گیا اور اب شام کے بشار الاسد مہمان اداکار کے طور پر دمشق کے تخت پر بیٹھے ہیں۔ امریکا کہ یہ نقل وحرکت کیمو فلاج اور دھوکے کی ذیل میں آتی ہیں، اس نے اعلان کر دیا کہ وہ افغانستان خالی کر جائے گا،اور ہم نے اس پر یقین کر کے بغلیں بجانا شروع کردیں ، شادا ں وفرحاں دکھائی دینے لگیں،مگر آگے ایک پل صراط ہے جس پر پاکستان کو لٹکنا ہے۔یہ پل صراط اصل میں پاک فوج کے لیے ٹکٹکی ہے۔

پاک فوج اس پل صراط کو اسی صورت پار کر پائے گی جب عوام اس کی پشت پر کھڑے ہوں گے اور عوام ا ور فوج کے درمیان فاصلے پیدا کرنا ہی امریکا کی اصل کامیابی ہو گی۔اگر ہمارے ہاں پتہ بھی ہلنے لگے اور ہم اپنی فوج کو اس کا ذمے دار ٹھہرائیں تو قوم اور فوج کے مابین اعتماد کے رشتے کمزور ہوتے چلے جائیں گے۔عمران خان کی نئی انگڑائی سے جنرل پاشا کا کیا لینا دینا،ڈاکٹر طاہر القادری کی اچانک آمد سے پاک فوج کا کیا تعلق مگر ہم نے اس مفروضے پر واویلا مچانا شروع کر دیا۔اصل میں تو ہم چاہتے یہ ہیں کہ ملک میںاسٹیٹس کو قائم رہے، جاگیر دار، وڈیرے، کرپٹ اورخونی بلائیں ہماری گردنوں میںنوکیلے دانت گاڑ کر ہمیں مردار میں تبدیل کر دیں اور پھر ہماری ہڈیاں بھی نوچ ڈالیں اور کوئی تیسری سیاسی قوت اس اسٹیٹس کو، کے لیے چیلنج نہ بن سکے۔اسی لیے ہم بڑی آسانی سے تیسری قوت کے ظہور پر شیر آیا، شیر آیا کے نعروں کی طرز پر فوج آئی، فوج آئی کے نعرے لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ہم اسٹیس کو کے جبر کو مسلط رکھنے کے لیے مارشل لا کا ہوا کھڑا کر دیتے ہیں۔

اور کس قدر ستم کی بات ہے کہ ماضی میں جب بھی فوج آئی تو یہی اسٹیٹس کو ،کے علم بردار اچھل کر فوج کی گود میں بھی بیٹھ گئے۔ دادے، پردادے، پوتے اور نواسے، بھتیجے اور بھانجے ، ظل الہی اور ان کی اولادیں۔ہر مارشل لا کے ساتھ تھے اور ہر جمہوری تماشے میں بھی ڈگڈگی انھی کے ہاتھ میں تھی، عوام تو اس تماشے میںصرف ناچنے کے لیے تھے۔ان دنوں کارگل کی رام کہانی دہرائی جا رہی ہے، اس کا کیا مقصد ہے، صرف یہ کہ فوج کو ٹھاپ لگائی جا سکے۔اسی فوج کو عالمی اخبارات میں شایع کیے گئے اشتہارات میں روگ آرمی کہا گیا تھا۔ کوئی کہتا ہے کہ جب بھی فوجی حکومت ہوتی ہے تو بھارت کے ساتھ جنگ چھڑ جاتی ہے، پینسٹھ میں جنگ چھڑی، اکہتر میں جنگ چھڑی،چوراسی میں سیاچن کی جنگ چھڑی مگر کارگل کی جنگ کس دور میں چھڑی، ایک جمہوری حکومت کے دور میں نا!۔اس جمہوری حکومت کا دعویٰ تھا کہ اسے جنگ کی اطلاع نہیں دی گئی ، چار کے ایک جرنیلی ٹولے نے ہاتھ دکھایا۔

پہلی افغان جنگ چھڑی ، وہ بھی فوجی حکومت کے دور میں ، دوسری افغان جنگ چھڑی، وہ بھی فوجی حکومت کے دور میں۔یہ سب کچھ عام آدمی کے علم میں ہے تو جنرل کیانی کے علم میں بھی ہے۔کیا وہ مارشل لا لگا کر اگلی کسی جنگ کا دوش لینے کے لیے تیار ہو گا، اس کاجواب نفی میں ہے۔تو پھر ہر کوئی مارشل لا، مارشل لا کی دہائی کیوں دے رہا ہے، اپنے گھر کو درست کرنے کے بجائے دوسرے کو گھر کی خرابیوں کے لیے مورد الزام کیوں ٹھہرایا جارہا ہے۔سن لیجیے ، مارشل لا نہ آرہا ہے ، نہ آئے گا مگر یہ بھی نہیں ہو پائے گا کہ مارشل لائوں کے پروردہ یہی مگر مچھ اور نہنگ اپنے جبڑوں میں سادہ لوح عوام کو دبوچے رکھیں۔اس نظام کا بوریا بستر اب گول ہونا ہے، کیسے گول ہو گا، اس کے لیے پردہ غیب کے اٹھنے کا انتظار کیجیے۔

( اس موضوع پر بس ایک قسط اور)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔