جنرل کیانی سرخرو ٹھہرے ( 4)

اسد اللہ غالب  جمعـء 8 فروری 2013
ghalib1947@gmail.com

[email protected]

یہ ایک الف لیلی کی داستان ہے جس کی نہ ابتدا ہے نہ انتہا۔مارشل لا بہت بڑی بدی ہے، آئین سے انحراف ہے مگر ہمارے ہاں یہ سکہ رائج الوقت رہا ہے اور ماضی کی عدلیہ سے لے کر سیاستدانوں تک نے اس کی چوکھٹ پر سر جھکایا ہے۔موجودہ عدلیہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ آیندہ کسی مارشل لا کو سند جواز نہیں بخشے گی اور نہ کوئی جج پی سی او کے تحت حلف لے گا مگر اس سے بھی پہلے موجودہ آرمی چیف کہہ چکے ہیں کہ ان کی زیر قیادت فوج کوئی سیاسی یا حکومتی مہم جوئی نہیں کرے گی، اس واضح اعلان اور پچھلے پانچ برس میں اس پر مکمل عمل در آمد کے باوجود فوج کے خلاف بلیم گیم جاری رہنا اور نادیدہ قوتوں، انٹیلی جنس اداروں یا خفیہ سازشوں کی اصطلاح میں فوج کو رگڑا دینے میں کوئی منطق نہیں ہے سوائے اس کے ہم اپنے دشمنوں کا یہ ایجنڈہ پورا کر رہے ہیں کہ اپنی اس فوج کو کمزور کریں جو پچھلے پینسٹھ برس سے بھارتی بالا دستی کے عزائم کو چکنا چور کر رہی ہے ، جو بھارت کی بلیو واٹر نیوی کے ان عزائم کی تکمیل کی راہ میں حائل ہے کہ عالم عرب کی خلیج فارس کے دہانے سے بر اعظم افریقہ کی راس کماری تک کے پانیوں پر بھارت کا پھریرا لہرائے۔

جس فوج نے لارڈ کرشنا کے دور کے مہا بھارت کے جغرافیے کے احیاء میں رکاوٹ کھڑی کی ہے۔اس فوج کے ناقابل شکست ہونے کے تصور کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں سرنڈر کی ایک تقریب کے ذریعے گہنانے کی کوشش ضرور کی گئی مگر سیاچن اور کارگل میں اسی فوج نے بھارت کا غرور خاک میں ملایا، ہم کارگل پر جتنی مرضی سیاست کرتے رہیں ، مگر بھارت اس کو اپنی بدتریں شکست مانتا ہے اور اس نے کئی تحقیقاتی کمیشن بنا کر اس شکست کے ذمے داروں کو کڑی سزائیں دی ہیں۔سیاچن میں اس نے جس قائد پوسٹ پر چوروں کی طرح قبضہ جما لیا تھا، پچھلے اٹھائیس برسوں میںاس سے آگے ایک قدم بھی نہیں بڑھا سکا حالانکہ وہ بلندی پر بیٹھا ہے اور جب پاکستان نے کارگل کی بلندیوں پر قبضہ جمایا تھا تو بھارت کو امریکی صدر کلنٹن کی مداخلت سے ان کا قبضہ واپس مل پایا تھا۔پاکستان کی اس مایہ ناز فوج کا لوہا پوری دنیا مانتی ہے، وار آن ٹیرر میں جو نتائج اس فوج نے حاصل کیے، وہ امریکی اور اس کی اتحادی ناٹو افواج کے درجنوں ممالک کی افواج مل کر بھی حاصل نہیں کر سکیں اور آخر بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے کی تصویر بنے، وہ واپسی کے محفوظ راستے کی بھیک مانگ رہی ہیں۔

اپنے ذہن پر زور دیجیے، اس فوج کا ڈنگ کیسے ختم کیا جاسکتا ہے، صرف اور صرف اسے سویلین دلدل میں دھکیل کر۔کیا پچھلے پانچ سال میں اس کے لیے ہزارہا کوششیں نہیں ہوئیں ، کس نے کب اور کہاں حالات خراب کرنے کی جان بوجھ کر کوشش نہیں کی تاکہ فوج بیرکوں سے نکلے اور ایوان حکومت پر قابض ہو جائے اور پھر اسے عوام سے دو بدو مقابلے میں سرنڈر کرنے پر مجبور کر دیا جائے۔مشرف کے آخری دنوں میں اس فوج کو کیا کیا طعنے نہیں ملے، میں وہ سب کچھ یہاں نقل کرنے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتا۔اور دور کیوں جائیں ایبٹ آباد سانحے پر جس کسی کے منہ میں جو آیا، کیا وہ سب کچھ نہیں کہا گیا۔کون سا طعنہ ہے جو فوج کو نہیں ملا۔ پہلا سوال یہ اٹھایا گیا کہ کاکول جیسے حساس علاقے میں ایک اجنبی کیسے چھپ کر رہ سکتا ہے اور وہ بھی عالمی سطح کا ٹارگٹ۔اس الزام کا مطلب واضح تھا۔

اس کو بار بار دہرایا گیا تو جنرل پاشا نے ٹوپی اتارکر پارلیمنٹ میں اپنا استعفی پیش کر دیا تھا۔ مگر جنونی طبقے استعفے پر کب راضی ہونے والے تھے،وہ تو صرف اس فوج کو دنیا کی نظروں میں ذلیل اور رسوا کرنا چاہتے ہیں۔یہ وہ ایجنڈہ ہے جو بھارتی خفیہ ادارے را کا دیا ہوا ہے ، یہ وہ مشن ہے جسے اسرائیلی موساد نے انھیں سونپا ہے اور امریکی سی آئی اے ان سب کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ڈالروں کی جھنکار پر یہ اپنی افواج کو بے توقیر کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ایسا صرف پاکستان میں ہو سکتا ہے ورنہ بھارتی عوام اور ان کا میڈیا اپنی افواج کے پیچھے کھڑا ہے اور امریکی عوام اور ان کا میڈیا اپنی افواج کی ہلہ شیری میں مصروف ہے، امریکا نے نائن الیون کے سانحے کے پانچ منٹ بعد یہ کہہ دیا تھا کہ یہ اسامہ بن لادن کا کیا دھرا ہے تو ہر امریکی ایرے غیرے نے یہی ڈفلی بجانا شروع کر دی تھی۔

مگر پاکستانی فوج جو موقف اختیار کرتی ہے ، اس کے برعکس جانا ہمارا قومی وطیرہ بن گیا ہے۔میں اپنی فوج کے دشمنوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ انھیں آخر تو اپنی حفاظت کے لیے کوئی فوج چاہیے ، اپنی نہیں تو غیروں کی فوج آ جائے گی۔اور ہم میں سے ہرکوئی اسی کوشش میں مصروف ہے کہ اپنی فوج کا بستر بوریا گول کرو ، استعماری افواج کے چھاتہ برداروں کے گلے میں ہار ڈالو۔یہی وہ ذہنیت ہے جو جنرل کیانی کے خلاف کارفرما ہے اور انھیں ہر کوئی بلا وجہ مارشل لا نہ لگانے کے طعنے دے رہا ہے۔جنرل کیانی تو شریف انسان ہے، نجیب آدمی ہے،اپنے قول پر پورا اترنے والا ہے، صادق اسی کو کہتے ہیں۔وہ امین بھی ہے، اس نے اپنے منصب کا بار امانت ذمے داری سے اٹھا رکھا ہے، اس میں خیانت کا مرتکب نہیں ہوا،وہ کریز سے باہر نہیں نکلا ، اس نے حد پار نہیں کی، تو پھر اس کو روز کس بات کے طعنے، وہ اگر نادرا کے دفتر میں چیف الیکشن کمشنر سے اتفاقیہ ملا یا طے شدہ پروگرام کے تحت ملا تو اس ملاقات کی بات کا بتنگڑ کیوں بناتے ہو۔اس کی چسکے دار رپورٹنگ کی کیا ضرورت !یہ تو جنرل کیانی کے فرائض کا حصہ ہے کہ انتخابات پر امن ہوں۔کیا پر امن انتخابات کی یقین دہانی کرانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جمہوری سورمائوں کے سامنے کوئی کمزوری دکھا رہا ہے۔

اور اگر ڈاکٹر طاہرا لقادری کہتے ہیں کہ وہ دھرنا ختم نہ کرتے تو پانچ منٹ میں مارشل لا لگ جاتا تو اس پر ڈاکٹرقادری اور ممکنہ یا مبینہ مارشل لا لگانے والوں پر طنز کے تیر کیوں چلائے جا رہے ہیں۔یاد رکھیئے مارشل لا لگانے کے لیے کسی ریہرسل کی ضرورت نہیں ہوتی ، کوئی ڈیوٹی چارٹ تیار کرنا بھی نہیں پڑتا، یہ سب کچھ کتابوں میں لکھا موجود ہے۔ یہ دنیا جہان کی فوجی کتابوں میں لکھا موجود ہے ، بھارت میں بھی چند ماہ پہلے انھی کتابوں میں لکھی ہدایات کے مطابق فوج حرکت میں آ گئی تھی۔جنرل اسلم بیگ اور جنرل کاکڑ نے مارشل لا نہیں لگایا تو یہ ان کی کمزوری نہیں ، شرافت تھی۔ جنرل مشرف سے کسی کو توقع نہ تھی کہ وہ مارشل لگا سکتا ہے، اسے تو فضائوں میں ریٹائر کر دیا گیا تھا اور لنڈے بازار سے فیتے منگوا کر اس کی جگہ نیا آرمی چیف متعین کردیا گیا تھا مگر انہونی کو کون روک سکتا تھا ، جب نیا آرمی چیف حالات سے خود بے بہرہ تھا جو آئی ایس آئی کا سربراہ ہونے کے باوجود آج بھی یہ کہتا ہے کہ مشرف نے وزیر اعظم کو کارگل سے بے خبر رکھا تو جناب ! آپ کس مرض کی دوا تھے ۔

اور آخر میں یاد رکھئے۔ پاکستان میں کسی مارشل لا کو آج تک غیر آئینی قرار نہیں دیا گیا، ہر مرتبہ عزیز ہم وطنو! کی دھن پر عوام نے رقص کیا ، مٹھائیاں بانٹیں، حلوے کھائے، آتش بازی کی اور غاصبوں کی نرسریوں میں پرورش پائی۔اور اب ہمی کو میائوں کر رہے ہیں، بڑے جمہوریت پسند بنتے ہیں ، جمہوریت پسند تو جنرل کیانی نکلا جس نے ہر موقع پانے اور ہر اختیار رکھنے کے باوجود جمہوریت کو پنپنے کا موقع فراہم کیا ۔اس نے اپنا نام جمہوریت پسندی کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھوا لیا۔اس کے شاہنامے تحریر کیے جائیں گے ، وہ رزم ناموں کا ہیرو ہو گا ، کوئی قاآنی، کوئی فردوسی، یہ رزم نامے اور یہ قصیدے لکھے گا اور جنرل کیانی کو تاریخ سلام پیش کرے گی۔لیکن جمہوریت جب بھی پٹری سے اترے گی تو کسی جنرل کیانی کی وجہ سے نہیں ، بلکہ جمہوریت کے ٹھیکیداروں کی وجہ سے جو فاشزم کی علامت بن گئے ہیں ، عوام کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ بھی چوسنے پر تلے ہوئے ہیں، یہ نئے دور کے ظل الہی ہیں۔ان کی جمہوری آمریت کو عوام کب تک برداشت کر سکیں گے، یہ ملین ڈالر کا سوال نہیں ، سامنے کی حقیقت ہے، دیوار پر لکھی ہوئی ایک واضح تحریر ہے، آئینے میں نظر آنے والا عکس ہے جسے دیکھ کر ہم منہ دوسری طرف کر رہے ہیں۔مگر آئینے کے اندر سے بلا نکل کر رہے گی بد بو دار جمہوری نظام کو ہڑپ کرنے کے لیے۔

(ختم شد)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔