بینظیر قتل کیس میں سزائے موت کیلیے استغاثہ نے کیلیے ٹھوس شواہد نہیں دیے

قیصر شیرازی  ہفتہ 2 ستمبر 2017
مشرف کی الگ فائل تیاررکھی جائے،گرفتاری یا واپسی پرمقدمہ چلے گا،تفصیلی فیصلہ جاری۔ فوٹو : فائل

مشرف کی الگ فائل تیاررکھی جائے،گرفتاری یا واپسی پرمقدمہ چلے گا،تفصیلی فیصلہ جاری۔ فوٹو : فائل

 راولپنڈی: بینظیر قتل کیس میں استغاثہ گرفتار ملزمان اعتزاز شاہ،شیر زمان، رفاقت، حسنین، رشید ترابی کیخلاف کوئی الزام ثابت نہیں کر سکا۔

انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت کے جج محمد اصغر خان نے سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو قتل کیس کا 46صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا، فاضل جج چھٹی پر ہونے کے باوجود صبح 9 بجے سے شام پونے 7 بجے تک عدالت میں فیصلہ تحریرکراتے رہے، فاضل جج نے فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ بینظیر بھٹوکی باکس سیکیورٹی توڑ کر سی پی او سعود عزیز نے جرم کیا، باکس سیکیورٹی توڑنا،پوسٹ مارٹم نہ کرانا اور سیکیورٹی توڑکر بینظیرکی گاڑی کو تنہا کر دینا مجرمانہ غفلت کے زمرے میں آتا ہے۔

عدالت نے کہا ہے کہ بینظیربھٹوکی باکس سیکیورٹی کے انچارج ایس پی اشفاق انور بہترین ڈیوٹی کر رہے تھے، انہیں غیر ضروری طور پر ہٹایا گیا،کرائم سین دھونا،پوسٹ مارٹم نہ کرانا،باکس سکیورٹی توڑنا مجرمانہ غفلت کے زمرے میں آتا ہے،پولیس افسران نے اپنا فریضہ اور ڈیوٹی سرانجام نہیں دی جبکہ استغاثہ گرفتار ملزمان اعتزاز شاہ،شیر زمان، رفاقت، حسنین، رشید ترابی کیخلاف کوئی الزام ثابت نہیں کر سکا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سخت ترین سزا پھانسی کیلیے شواہدکا بھی اسی طرح ٹھوس ہونا ضروری ہے جو پیش نہیں کیے جا سکے اس لیے ان پانچوں ملزمان کو شک کا فائدہ دیا گیا ہے۔

عدالت نے کہا ہے کہ ملزم پرویز مشرف دانستہ طور پر بیان ریکارڈکرانے کیلیے پیش نہیں ہوئے، انہیں بلایا گیا،وڈیو لنک سے بھی بیان ریکارڈکرانے کی پیشکش کی گئی مگر وہ پھر بھی نہیں آئے جس پر انہیں فوجداری قانون کے تحت باقاعدہ اشتہاری ملزم قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد ضبط اور دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کئے جاتے ہیں ان کا مقدمہ الگ کر کے داخل دفترکیا جارہا ہے اوراستغاثہ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ ملزم پرویز مشرف کی فائل الگ تیار کرکے رکھیں اور ان کی گرفتاری یا واپسی کے بعد ان کیخلاف الگ کیس چلایا جائے گا۔

عدالت نے مزید کہا کہ بینظیر بھٹوکی نعش کا پوسٹ مارٹم نہ کرا کے تفتیش کو خراب کیا گیا، استغاثہ پولیس افسران کیخلاف جرم ثابت کرنے میں کامیاب رہا اس لیے انھیں دانستہ طور پر شواہد مٹانے،باکس سکیورٹی توڑنے، ڈیوٹی سرانجام نہ دینے کے جرم میں مجموعی طور پر دونوں پولیس افسران کو17،17سال قید10،10لاکھ روپے جرمانہ کی سزاسنائی جاتی ہے اور جرمانہ ادا نہ کرنے پر دونوں کو مزید ایک ایک سال قید بھگتنا ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔