غیرت یا بےغیرتی

حمیدہ نور  پير 11 ستمبر 2017
سنبھل جائیے، سوچنے سمجھنے کی عادت ڈالیے اور اِس خونی رسم کے خاتمہ کیلئے سرگرم ہوجائیں۔ فوٹو: فائل

سنبھل جائیے، سوچنے سمجھنے کی عادت ڈالیے اور اِس خونی رسم کے خاتمہ کیلئے سرگرم ہوجائیں۔ فوٹو: فائل

’’اماں یہ لوگ کاری کرکے مجھے مار دیں گے اماں! مجھےبچالو، اماں یہ لوگ کاری کرکے مار دیں گے اماں…

بابا، مجھے بچالو۔ بابا میں نے کچھ نہیں کیا، بابا میں تیری مومل ہوں، بابا جسے تم اپنا بیٹا کہتے تھے، بابا میں تیری وہی مومل ہوں جو تیرا مان تھی، تیرا غرور تھی۔ بابا میں نے تیرا مان و غرور نہیں توڑا، بابا مجھے بچالو۔ اب بھلے اپنے ہاتھوں سے گلا گھونٹ دو۔ بابا مجھے رسوا کرکے نہ مارو، بابا مجھے کاری کرکے نہ مارو، بابا میں کاری نہیں۔‘‘

روتی چیختی مومل اپنے باپ سے ایک ہی فریاد کررہی ہے: مجھے بچالو کاری کرکے نہ مارو۔ ادا میں تو تیری گڑیا ہوں، تو مجھے کیسے مارے گا؟ ادا میں تو تیری دلہن سجانے کے خواب دیکھتی ہوں تو مجھے خون کا لال جوڑا کیسے پہنائے گا؟ ادا میں نے کچھ نہیں کیا، ادا میں کاری نہیں۔

مومل ایک ایک کے آگے دوڑتی رہی، بھاگتی رہی۔ چیختی ہوئی اپنی پاک دامنی کی قسمیں کھاتی رہی۔ ہلکان ہوتی مومل کا دوپٹہ گرگیا، اپنا آپ چھپانے کو پل بھر کے لیے رکی، دوپٹہ اٹھا کر لپیٹا۔ خود کو سمیٹتے، چھپاتے پھر سے ماں کی گود میں چھپنے کی کوشش کی لیکن منہ سے جھاگ اڑاتا، مردانگی کے نشے میں چور اُس کا بھائی پیچھے بھاگا اور کلہاڑی کے پے درپے وار کرنا شروع کردیے۔ مومل کی آنکھیں سوال بن کر باپ پر ٹھہر سی گئیں اور ایک فلم سی اُس کی آنکھوں میں چلنے لگی۔

’’مومل، میری جان تم میں بستی ہے، تم میری دھی ہی نہیں میرا مان و غرور ہو۔ تمہیں دیکھتا ہوں تو میرے اندر جان پڑ جاتی ہے۔‘‘

’’بابا تم سب سے زیادہ کس سے پیار کرتے ہو؟‘‘

’’اپنی دھی رانی سے،‘‘ باپ نے پیار سے مومل کی پیشانی چومتے ہوئے کہا۔

یہ آوازیں چابک بن کر مومل کی سماعت پر پڑ رہی تھیں۔ کلہاڑی کا وار اسی پیشانی پر پڑا جو سر کو چیرتا ہوا مومل کی آخری فریاد  ’بابا میں کاری نہیں‘ کے ساتھ نکل گیا۔

مومل کی کُھلی ہوئی سوالیہ نگاہیں معاشرے سے پوچھ رہی تھیں کہ مرد کی غیرت کیا ہے؟ کیا عورت کا قتل غیرت ہے؟ کیا خاندان و مرد کی عزت کسی کے دیکھنے سے خاک میں مل جاتی ہے؟ یہ کہانی صرف ایک مومل کی نہیں بلکہ سینکڑوں ہزاروں مومل جیسی بیٹیاں غیرت کے نام پر قربان ہوتی آرہی ہیں۔ چاہے وہ نصیرآباد کی تسنیم ہو یا صحبت پور کی فرزانہ یا شہداد پور کی ثمینہ، ڈیرہ مراد جمالی کی خالدہ یا جعفرآباد کی رانی، سب مرد کی انا اور غیرت کی بھینٹ چڑھ گئیں۔

کاروکاری یا نام نہاد غیرت کے نام پر قتل نامردوں کو اپنی مردانگی دکھانے کا آسان اور موثر سماجی طریقہ محسوس ہوتا ہے۔ کسی کے ساتھ دشمنی ہو اور بدلہ لینا آسان نہ ہو تو اپنے گھر کی بیٹی، بیوی، بہو کو غیرت کے نام پر کاری کردیا جاتا ہے، اور مخالف فریق پر کارا ہونے کا الزام لگا کر شکار کرلیا جاتا ہے۔ سماج واہ واہ کرنے لگتا ہے اور غیرت مند ہونے کی سند مل جاتی ہے۔

مردانہ سماج قتل کے اِس جواز کو درست گردانتی ہے۔ بلوچستان اور سندھ کے بعض علاقوں میں یہ قبیح رسم صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ گھر کا کوئی بھی مرد بغیر کسی ثبوت کے عورت کو کاری قرار دے کر قتل کرتا ہے اور عموماً ساتھ میں کسی مرد کو بھی مجرم قرار دے کر قتل کردیا جاتا ہے۔ اور اگر بالفرض مرد کا قتل ممکن نہ ہو تو الزام کے ذریعے اُس کی پوزیشن کو کمزور کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے مذکورہ مرد پر صفائی دینا لازم ہو جاتا ہے۔ پنچایت تک معاملہ پہنچتا ہے اور کاری کی زندگی کا فیصلہ کردیا جاتا ہے۔

مخالف جنس سے لگاؤ ہونا ایک فطری امر ہے، اِس کا ذات پات یا روایات سے کوئی تعلق نہیں۔ گو کہ معاشرے میں اِس فطری جذبے کو ممنوع سمجھا جاتا ہے مگر انسانی فطرت پر قابو ممکن نہیں۔ یہ غیرت کے نام پر قتل نہیں بلکہ بےغیرتی کے سائے میں ایک سنگین و ناقابلِ معافی جرم ہے۔ قانون سازی کے باوجود ایسے واقعات ختم نہیں کئے جاسکے۔ ایسے واقعات کی پشت پناہی یا یوں سمجھ لیجیے کہ بڑھنے کی بنیادی وجہ ریاست کی موجودگی میں قائم وہ نظام ہے جہاں ہر جرم کے فیصلے جرگوں میں ہوتے ہیں۔ جن کا تصفیہ چند لاکھ روپوں میں کردیا جاتا ہے؛ یا ہمارے قانونی نظام کی کمزوری ہے جہاں ریاست فریق نہیں بنتی۔

اب تو سنبھل جائیے! سوچنے سمجھنے کی عادت ڈالیے اور اِس خونی رسم کے خاتمہ کیلئے سرگرم ہوجائیے۔ اِس رسم کو ختم کرنے کے لیے اِس سوچ اور سماج کو بدلنا ہوگا اور جب تک اِس قتل کے ساتھ غیرت کا لاحقہ جڑا ہے، تب تک انسان کا لہو بہتا رہے گا۔ تصورِغیرت کو بدلنا چاہیے۔ اِس جرم کو غیرت کے نام پر قتل کے بجائے بے غیرتی کا نام دیا جائے اور قتل کرنے والے کو بےغیرت کہہ کر پکارا اور لکھا جائے تو کہیں نہ کہیں ان رویوں میں تبدیلی آسکتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

حمیدہ نور

حمیدہ نور

حمیدہ نورعورتوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرتی ہیں، لڑکیو ں کی تعلیم میں بہتری کے ذریعے سماجی تبدیلی کی خواہاں و سرگرداں ہیں ۔ ان کا ٹوٹئر ہنیڈل ہے۔ Twitter: @Hameedanoor4

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔