- موٹر وے پولیس اہلکار کو ٹکر مارنے والی خاتون کی درخواست ضمانت خارج
- ہم اپنی آئینی حدود کو بخوبی جانتے ہیں اور دوسروں سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں، آرمی چیف
- دورہ آئرلینڈ و انگلینڈ؛ قومی اسکواڈ کا اعلان ہوگیا
- ملکی تاریخ میں منشیات کی سب سے بڑی کھیپ اسمگل کرنے کی کوشش ناکام
- اسلام آباد میں بچوں کی قابل اعتراض ویڈیوز شیئر کرنے میں ملوث ملزم گرفتار
- آئی ایم ایف کیساتھ 6 تا 8 ارب ڈالر کے نئے پروگرام پر مذاکرات رواں ماہ ہونگے
- بشریٰ بی بی کی اڈیالہ جیل منتقلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
- ٹی20 ورلڈکپ؛ پاکستانی ٹیم کے اعلان میں تاخیر کیوں؟
- سفارتکاری کی آڑ میں عالمی سطح پر کام کرنیوالا بھارتی خفیہ ایجنسی کا نیٹ ورک بے نقاب
- موٹروے پولیس سے تلخ کلامی کا واقعہ، کارسوار خواتین کیخلاف مقدمہ درج
- معدہ کی صحت کو کیسے یقینی بنائیں؟
- ادویات کے مضر اثرات سے بچاؤ کی تدابیر
- ٹی20 ورلڈکپ؛ سابق کرکٹر نے حارث رؤف کو اپنے اسکواڈ سے باہر کردیا
- مسلسل ویپنگ کرنے والوں میں زہریلی دھاتوں کی موجودگی کا انکشاف
- یہ پھول آن لائن خریدنے سے ہوشیار رہیں!
- موسمیاتی تغیر کے خلاف پودوں کو بہتر بنانے کی کوششیں
- سنیما اور ہمارا لڑکپن
- لاہور: ٹکسالی گیٹ کے علاقے میں موٹرسائیکل سوار کی فائرنگ سے پولیس اہلکار شہید
- رواں مالی سال کے 9 ماہ میں مالیاتی خسارہ 4337 ارب سے تجاوز کرگیا
- ترکیے کا عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف نسل کشی کیس میں فریق بننے کا اعلان
خود پسندی اور قول و فعل کا تضاد
خودپسندی کو اگر انتہائی سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو اس سے مراد ہے کہ انسان اپنے آپ سے، اپنے وجود سے اس قدر محبت میں مبتلا ہوجائے کہ اسے اپنا آپ سب سے الگ تھلگ، منفرد اور تمام خامیوں سے پاک لگنے لگے۔ گویا اس طرح سے انسان مغرور اور اپنی ذات سے عشق کے فتور میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
آج کل دیکھا گیا ہے کہ یہ بیماری وبا کی طرح معاشرے میں پھیلتی جارہی ہے، خصوصاً سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال کرنے والے لوگ، جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے، اس کا زیادہ شکار ہیں۔ اگر میں اسے ایک عام سی مثال سے واضح کروں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ لوگ سوشل میڈیا پر تو صبر، وفا اور تقویٰ کے پیکر بنے نظر آتے ہیں جبکہ گھر، معاشرے، دفتر میں یہی لوگ کسی کے سکون کے غارت ہونے کی وجہ ہوتے ہیں، کسی کے عیبوں کو اچھالنے میں پیش پیش ہوتے ہیں اور کسی کے زخموں پر نمک چھڑکنے میں بے مثال ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر خود کو سب سے معصوم ظاہر کرنے والے یہ لوگ دراصل معاشرے کا ناسور ہوتے ہیں۔ بغل میں چھری منہ میں رام رام کی زندہ مثال سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر پھیلے ہوئے وہ لبرلز ہیں جنہیں لنڈے کے دانشوروں اور انگریز رائٹرز کے اقوال تو فر فر یاد ہیں، لیکن معاشرتی اقدار اور حقوق العباد سے بے بہرہ ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ ہماری ڈیجیٹل جنریشن بڑی بڑی باتیں بنانے اور جگت بازی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروفِ عمل ہے اور یوں یہ سرزمین گفتار کے غازیوں سے بھرتی جارہی ہے۔ بقول علامہ محمد اقبالؒ:
اقبال بڑا اپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا
سوال یہ ہے کہ یہ خودپسندی کا علت کہاں سے ہمارے اندر در آئی ہے؟ راقم کے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارا اینٹی سوشل رویہ ہے، جو کہ ڈیجیٹل آلات کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے بڑھتا جارہا ہے۔ پہلے پہل لوگ اپنے بچوں کو بولنے کی تمیز سکھایا کرتے تھے۔ اسکول اس لیے بھیجا جاتا تھا کہ کچھ اخلاقیات سیکھ لے گا۔ لیکن ہائے زمانے کی ستم ظریفی کہ مادیت پرستی اور دولت کی ہوس نے ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے۔ ہم وہ اندھے، بہرے، گونگے ہیں، جنہیں اپنی نسلیں برباد ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہیں۔ ہم اخلاقیات کی پستی میں گرتے چلے جارہے ہیں اور خودپسندی اور تکبر کی بلندیوں پر چڑھتے جارہے ہیں۔
اپنی ذات سے پیار ہر شخص کو ہوتا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اپنی ذات سے پیار تو ہے لیکن اپنے اندر جھانک کر اپنی خامیوں کا سامنا کرنے اور انہیں درست کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔
خدارا خود کو سنبھالیے! اپنی ‘میں’ کی دنیا سے باہر نکلیے۔ دنیا کا مشاہدہ کیجیے، اپنی خامیوں کو درست کیجیے، معاشرے کے ہمدرد بنیے، اپنی اور خود سے وابستہ لوگوں کی زندگیاں جہنم بنانا بند کیجیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔