خود پسندی اور قول و فعل کا تضاد

محمد اطیب اسلم  جمعرات 16 مئ 2019
'میں' کی دنیا سے باہر نکلیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

'میں' کی دنیا سے باہر نکلیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

خودپسندی کو اگر انتہائی سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو اس سے مراد ہے کہ انسان اپنے آپ سے، اپنے وجود سے اس قدر محبت میں مبتلا ہوجائے کہ اسے اپنا آپ سب سے الگ تھلگ، منفرد اور تمام خامیوں سے پاک لگنے لگے۔ گویا اس طرح سے انسان مغرور اور اپنی ذات سے عشق کے فتور میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

آج کل دیکھا گیا ہے کہ یہ بیماری وبا کی طرح معاشرے میں پھیلتی جارہی ہے، خصوصاً سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال کرنے والے لوگ، جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے، اس کا زیادہ شکار ہیں۔ اگر میں اسے ایک عام سی مثال سے واضح کروں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ لوگ سوشل میڈیا پر تو صبر، وفا اور تقویٰ کے پیکر بنے نظر آتے ہیں جبکہ گھر، معاشرے، دفتر میں یہی لوگ کسی کے سکون کے غارت ہونے کی وجہ ہوتے ہیں، کسی کے عیبوں کو اچھالنے میں پیش پیش ہوتے ہیں اور کسی کے زخموں پر نمک چھڑکنے میں بے مثال ہوتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر خود کو سب سے معصوم ظاہر کرنے والے یہ لوگ دراصل معاشرے کا ناسور ہوتے ہیں۔ بغل میں چھری منہ میں رام رام کی زندہ مثال سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر پھیلے ہوئے وہ لبرلز ہیں جنہیں لنڈے کے دانشوروں اور انگریز رائٹرز کے اقوال تو فر فر یاد ہیں، لیکن معاشرتی اقدار اور حقوق العباد سے بے بہرہ ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ ہماری ڈیجیٹل جنریشن بڑی بڑی باتیں بنانے اور جگت بازی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروفِ عمل ہے اور یوں یہ سرزمین گفتار کے غازیوں سے بھرتی جارہی ہے۔ بقول علامہ محمد اقبالؒ:

اقبال بڑا اپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا

سوال یہ ہے کہ یہ خودپسندی کا علت کہاں سے ہمارے اندر در آئی ہے؟ راقم کے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارا اینٹی سوشل رویہ ہے، جو کہ ڈیجیٹل آلات کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے بڑھتا جارہا ہے۔ پہلے پہل لوگ اپنے بچوں کو بولنے کی تمیز سکھایا کرتے تھے۔ اسکول اس لیے بھیجا جاتا تھا کہ کچھ اخلاقیات سیکھ لے گا۔ لیکن ہائے زمانے کی ستم ظریفی کہ مادیت پرستی اور دولت کی ہوس نے ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے۔ ہم وہ اندھے، بہرے، گونگے ہیں، جنہیں اپنی نسلیں برباد ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہیں۔ ہم اخلاقیات کی پستی میں گرتے چلے جارہے ہیں اور خودپسندی اور تکبر کی بلندیوں پر چڑھتے جارہے ہیں۔

اپنی ذات سے پیار ہر شخص کو ہوتا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اپنی ذات سے پیار تو ہے لیکن اپنے اندر جھانک کر اپنی خامیوں کا سامنا کرنے اور انہیں درست کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔

خدارا خود کو سنبھالیے! اپنی ‘میں’ کی دنیا سے باہر نکلیے۔ دنیا کا مشاہدہ کیجیے، اپنی خامیوں کو درست کیجیے، معاشرے کے ہمدرد بنیے، اپنی اور خود سے وابستہ لوگوں کی زندگیاں جہنم بنانا بند کیجیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد اطیب اسلم

محمد اطیب اسلم

بلاگر انفارمیشن ٹیکنالوجی میں گریجویٹ ہیں۔ ملکی و سماجی مسائل پر لکھنے کا شوق رکھتے ہیں۔ آج کل تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں جبکہ اردو ادب سے خصوصی لگاؤ رکھتے ہیں۔ رابطے کےلیے ان کی فیس بک آئی ڈی teeeb01 جبکہ ٹوئٹر آئی ڈی @foolishlearner ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔