- گندم درآمد اسکینڈل، تحقیقاتی کمیٹی کی انوارالحق کاکڑ یا محسن نقوی کو طلب کرنے کی تردید
- فیصل کریم کنڈی نے گورنر کے پی کا حلف اٹھا لیا، وزیراعلیٰ کی تقریب میں عدم شرکت
- پاکستانی نژاد صادق خان ریکارڈ تیسری مرتبہ لندن کے میئر منتخب
- وفاقی حکومت 1.8 ملین میٹرک ٹن گندم خریدے گی، وزیراعظم
- باپ نے غیرت کے نام پر بیٹی اور پڑوسی کے لڑکے کو قتل کردیا
- شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی، 6 دہشت گرد ہلاک
- فواد چوہدری 9 مئی سے جڑے 8 مقدمات میں شامل تفتیش
- آڈیو لیکس کیس میں آئی بی، ایف آئی اے اور پی ٹی اے سربراہ کو توہین عدالت کے نوٹس جاری، جرمانہ عائد
- ملازمت کے امیدوار کا آجر کو سی وی دینے کا انوکھا طریقہ
- اے آئی ٹیکنالوجی ایمرجنسی صورتحال میں مفید نہیں، ماہرین
- ایف بی آر میں کرپٹ عناصر کو برداشت نہیں کیا جائے گا، وزیراعظم
- باکسر عامر خان کو پاک فوج نے اعزازی کیپٹن کے رینکس سے نواز دیا
- ایپل کی آئی فون صارفین کو مشکل سے نکالنے کے لیے کوشش جاری
- پی ٹی اے کا نان فائلرز کی سم بلاک کرنے سے انکار
- عالمی عدالت انصاف امریکا و اسرائیل کی دھمکیوں پر برہم، انصاف میں مداخلت قرار دے دیا
- صدر نے تین صوبوں کے گورنرز تعینات کرنے کی منظوری دیدی
- سی ایس ایس نتائج کا اعلان، کامیابی کی شرح 2.96 فیصد رہی
- چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع شرمناک ہوگی، ترجمان پی ٹی آئی
- خاتون سے موبائل چھیننے والے کی بائیک پھسل گئی، شہریوں نے پکڑلیا
- چئیرمین پی اے سی کا انتخاب، پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں نے شیر افضل کی مخالفت کردی
10 سال کی عمر تک سکھادینے والے 10 اہم سبق
بچوں کی تربیت کے لیے ماؤں پر ایک بہت اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے، یوں تو سب ہی چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے قابل، دیانت دار، ہم درد اور بہادر بنیں، لیکن اس کے لیے کرنا کیا ہے، اس سے واقفیت ذرا کم ماؤں کو ہی ہوتی ہے۔
ہمارے سماج میں عام طور پر خواتین کی اکثریت شادی کے بعد گھر سنبھالتی ہے اور مرد اپنے روزگار میں مصروف رہتے ہیں، اس لیے بچے کی تربیت اور نگہداشت کی بڑی ذمہ داری ماں کے کندھوں پر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچے کے حوالے سے ہونے والی معمولی سی لغزش پر بھی ماں کو قصور وار ٹھیرایا جاتا ہے۔ ہمارے پدرسری سماج میں ایک ماں کو 10 سال کی عمر تک بچے کی پرورش میں کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے، کچھ ان کا جائزہ لیتے ہیں۔
1عزت دینا سکھائیں
اپنے بچے کو احترام انسانیت کا درس دیں، اسے سکھائیے کہ یہ زندگی میں اس کی اولین ترجیح ہونا چاہیے، خواہ وہ کوئی بھی صنف ہو لڑکا یا لڑکی یا ’تیسری جنس‘ سب کے بنیادی انسانی حقوق ادا کرنا لازم ہیں۔ اس سے یہ ہوگا کہ بچہ جب بڑا ہوکر معاشرے میں اپنا فعال کردار ادا کرے، تو وہ ہمیشہ صنفی امتیاز سے بالاتر ہوکر سوچے۔
2 غلطی ہونے پر گھبرانا نہیں چاہیے
انسان تو ہے ہی خطا کا پتلا اور جب بات بچے کی ہو تو اس سے بھی بہت سی غلطیاں سرزد ہو سکتی ہیں، ایک ماں کے ذہن میں ہمیشہ یہ بات رہنا چاہیے، لہٰذا غلطی ہو جانے پر بچے کو حوصلہ دیں اور پریشان ہونے سے بچائیں۔ انہیں بتائیں کہ غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے اور یہ غلطی ہی ہے جو ہمیں زندگی میں آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔ ایسی راہ نمائی ملنے پر بچے کو پتا ہو گا کہ غلطی بھی زندگی کا ایک رخ ہے، غلطی ہونے سے زندگی ختم نہیں ہوتی، بلکہ کوئی نہ کوئی سبق دیتی ہے۔ جب وہ یہ بات سمجھ لے گا تو وہ کھل کر نئے کام کر سکے گا۔
3 قابلیت ’گریڈ‘ سے زیادہ اہم ہے!
بعض اوقات والدین کم گریڈ آنے پر بچے پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں، کیوں کہ انہیں لگتا ہے کہ بچہ ان کی توقعات پر پورا نہیں اترا، لیکن یہاں ماں اور باپ دونوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ بہت اچھے گریڈ ضروری نہیں ہے کہ بہت اعلیٰ قابلیت کی ہی علامت ہوں، ہمارے امتحانات کے نتائج بعض اوقات ذہین طالب علموں کے بہ جائے تیز حافظے والے بچوں کو آگے کردیتے ہیں، اس لیے یہ یقین دلائیے کہ گریڈ کی اونچ نیچ بھی زندگی کا حصہ ہے۔
4 اپنے بچوں کا دوست بننا
ایک ماں کے لیے اپنے بچے کا دوست بننا ضروری ہے۔ اگر بچے کے ارد گرد دوست موجود ہیں، تو اس کے دوستوں میں آپ کو اپنی جگہ آسانی سے نہیں ملے گی، لہٰذا آپ ان پر اپنی نگرانی مسلط نہ کریں، بلکہ انہیں یہ احساس دلائیں کہ ان کے پیچھے آپ کی حمایت ہے اور وہ ہر معاملے میں آپ پر اعتماد اور بھروسا کر سکتے ہیں، سو آپ ان کے مشکل جذباتی لمحوں میں ایک بہترین دوست بن کر دکھائیں۔
5 بچے کو کھل کر بولنے دیں
کچھ والدین اپنے بچے کی بہ جائے دوسرے بچے کی بات کو زیادہ فوقیت دیتے ہیں یا اپنے بچے کے سامنے دوسرے بچے پر زیادہ اعتبار دکھاتے ہیں، اسی وجہ سے وہ چپ کر جاتا ہے اور والدین سمجھتے ہیں کہ ان کا بچہ ہی غلط ہے۔ یہ رویہ بچے کے مستقبل میں عدم تحفظ کو بڑھاتا ہے، اسے پتا ہے کہ میرے والدین میرے ساتھ نہیں، سو وہ مستقل پریشان رہنے لگتا ہے، یہاں والدین بھی اپنی خامی دور کریں اور بچے کی بات مکمل ہونے سے پہلے اسے خاموش نہ کروائیں ۔ اسے بتائیں کہ تمیز اور تہذیب کے دائرے میں بڑوں کے سامنے اپنی بات کس طرح کی جاتی ہے، اگر آپ سچے ہیں تو آپ ضرور بتائیں۔
6 دوسروں کے دیکھا دیکھی
کچھ نہ کریں
اپنے بچوں میں یہ عادت پیدا کریں کہ وہ لاشعوری طور پر وہ کام نہ کرتے چلے جائیں، جس میں ان کی اپنی پسند شامل نہ ہو،
عموماً بچہ یہ سوچتا ہے کہ دوستوں میں مقبولیت بہت اہم ہے اور اسے حاصل کرنے کی کوشش میں وہ اس حد تک چلے جاتے ہیں جہاں انہیں نقصان ہو سکتا ہے یا وہ پھر خوش نہیں رہ سکتے۔ یہاں بچوں کو سکھائیں کہ دوستوں کے ہر غلط یا خود کے لیے نامناسب فیصلے کو صرف اُن کے ساتھ رہنے کے لیے کبھی قبول نہ کریں، بلکہ دوستوں میں اپنا مسئلہ اور نکتہ نظر ضرور بتائیں، اگر وہ دوست ہوں گے تو آپ کی بات ضرور سمجھیں گے، پھر آپ اپنے لیے بہتر راستے کی طرف بھی گام زن رہیں گے۔ کسی کے ساتھ دینے کے چکر میں خود کا ساتھ نہ چھوڑیں، اپنی خودی کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔
7 سوال کرنے میں حرج نہیں ہے
سوالات پوچھنا غلط عمل نہیں سوال کرنا بچے کا حق ہے، بہ جائے اس کے، کہ آپ کی ڈانٹ کے ڈر سے بچہ دکھاوا کرتا رہے کہ وہ سب کچھ سمجھ گیا ہے، لہٰذا بچوں کے پے در پے سوالات پر ردعمل دکھانے کی بہ جائے پرسکون طریقے سے جواب دینے کی کوشش کریں اور سوال جواب کے اس عمل کو آسان بنائیں ۔
8 ’جان ہے تو جہان ہے‘ کی تعلیم دیں
بچے کو یہ بات بتائیں کہ اگر آپ کی طبیعت اچھی نہیں تو کلاس میں کھڑے ہو کر اپنی ٹیچر کو اپنی کیفیت ضرور بتائیں، اسے بتائیں کہ کلاس اور تعلیم بہت ضروری ہے، لیکن صحت کا خیال رکھنا اس سے بھی پہلے ضروری ہے۔
9 بچوں کو انکار کرنا بھی سکھائیں
انکار کی ایک کیفیت خود سری کی ہوتی ہے، لیکن اس میں توازن ضروری ہے، فرماں برداری کی وہ انتہا بھی غیر مناسب ہوتی ہے، جہاں بچہ انکار کرنا چھوڑ دے اور ایک ’ربورٹ‘ بن کر رہ جائے، جس سے اس کی شخصیت مسخ ہو کر رہ جائے گی۔ اس لیے بچوں کو سمجھائیں کہ اگر وہ کسی چیز کے ساتھ مطمئن نہیں ہیں، یا کوئی اور مسئلہ درپیش ہے، تو اس چیز کے لیے انکار کرنے سے کترائیں۔
10 غلطی تسلیم کرنا بڑائی ہے
بدقسمتی سے تعلیم یافتہ لوگوں میں بھی بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اتنا ظرف رکھتے ہیں کہ کھلے دل سے اپنی غلطی کو تسلیم کریں، سب کے سامنے اعتراف کریں کہ ہاں ان سے بھول ہوگئی تھی یا وہ غلط سمجھ رہے تھے۔ ایک ماں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اوائل عمری میں بچے کو یہ بتائے کہ اپنی غلطی مان لینے سے کوئی چھوٹا نہیں ہوجاتا، بلکہ یہ بڑے پن کی نشانی ہے، اس لیے زندگی میں کبھی بھی یہ محسوس ہو کہ تم غلط سوچ رہے تھے تو اسے ماننے میں کبھی دیر نہ لگانا۔
یہ بچے کی تربیت کے لیے ملحوظ خاطر رکھنے و الے وہ چھوٹے چھوٹے اصول ہیں، جنہیں اپنا کر ایک ماں اپنے بچے کی اچھی شخصیت کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔