کوچۂ سخن

عارف عزیز  پير 25 نومبر 2019
بس اک تیری کمی مجھ میں مسلسل سانس لیتی ہے
 فوٹو: فائل

بس اک تیری کمی مجھ میں مسلسل سانس لیتی ہے فوٹو: فائل

غزل


بس اک تیری کمی مجھ میں مسلسل سانس لیتی ہے
ادھوری زندگی مجھ میں مسلسل سانس لیتی ہے
وہ چھت جس پر تمہارے حسن کی بارش برستی تھی
اسی چھت کی نمی مجھ میں مسلسل سانس لیتی ہے
تم آئے، پاس بیٹھے اور رخصت بھی ہوئے لیکن
تمہاری خامشی مجھ میں مسلسل سانس لیتی ہے
یہ کیسے پیاس کا خاموش دریا مجھ میں بہتا ہے
یہ کیسی تشنگی مجھ میں مسلسل سانس لیتی ہے
پرائی روشنی ٹہری ہوئی ہے میری آنکھوں میں
پرائی تیرگی مجھ میں مسلسل سانس لیتی ہے
یہ کس کے شعر مجھ پر رات دن الہام ہوتے ہیں
یہ کس کی شاعری مجھ میں مسلسل سانس لیتی ہے
میں کلیوں اور پھولوں میں جسے تقسیم کرتا تھا
تمہاری وہ ہنسی مجھ میں مسلسل سانس لیتی ہے
(یاسین ضمیر۔ کوئٹہ، بلوچستان)


غزل


خزاں کی رُت میں بہاروں کی آرزو لے کر
کہاں چلی ہے مجھے تیری جستجو لے کر
نہ منزلوں کی خبر ہے نہ رہ گزر کا پتہ
میں آگیا ہوں کہاں تیری آرزو لی کر
ہمارے سینے میں دل ہی نہیں ملے گا حضور
ہمارا دل تو گیا کوئی خوبرو لے کر
سخن تراش کے سب لائے تیری محفل میں
میں آ گیا ترا انداز گفتگو لے کر
فقیہہِ شہر کی ہمسائیگی ملی جب سے
میں پھر رہا ہوں ہتھیلی پہ آبرو لے کر
امیرِ شہر کا برتاؤ خود ہی بدلے گا
چلیں جو ہم بھی ان آنکھوں میں کچھ لہو لے کر
یہاں تو چاک گریباں ہیں خود رفو گر بھی
میں آگیا ہوں کہاں حاجت رفو لے کر!
میں اپنی آنکھیں بچھادوں گا اس کی راہوں میں
کوئی جو آئے ثمر اس کا ہو بہو لے کر
(ثمریاب ثمر۔ سہارنپور، اترپردیش، انڈیا)


غزل
عجیب لڑکا ہے اپنی ضد پر اڑا رہے گا
میں جب تلک ہاں نہیں کہوں گی کھڑا رہے گا
ہمارے قد پر نہ جائیو، ہے اگرچہ چھوٹا
ہمارا کردار ہے جو صدیوں بڑا رہے گا
ہمارے دل کے یہ قفل تجھ پر کھلے رہیں گے
ہمارا یہ ہاتھ تیری جانب بڑھا رہے گا
کسی نے پاکٹ منی بچا کر جو لے دیا تھا
ہماری نتھ میں وہی نگینہ جڑا رہے گا
کسی کی آنکھیں تمام قصہ عیاں کریں گی
کسی کے چہرے پہ اور چہرہ چڑھا رہے گا
ہمارے جسموں کے زخم جلدی بھریں گے لوگو
ہمارے دل پر شگاف لیکن پڑا رہے گا
(ماہ رو ندا احمد۔ فیصل آباد)


غزل


کیا آپ نے کرنا تھا جفاؤں کا گلہ بھی؟
لیکن یہ بتائیں کہ وہ دلدار ملا بھی؟
فرمائیں گے پھر کاتبِ تقدیر تبسّم
بے چین صداؤں سے اگر عرش ہلا بھی
دنیائے غمِ زیست میں آئی تھی محبت
صحرائے دلِ زار میں اک پھول کِھلا بھی
وہ ناخنِ خوں رنگ ہی منظورِ نظر ہے
پرسش سے اگر زخمِ دل آزار سِلا بھی
مقتل میں مرے درد کا دارو بھی ملے گا
مل جائے گا ناکام سی کاوش کا صلہ بھی
اشعار بھی لائے گی، مئے درد کی بارش
قندیلِ غمِ یار کو بخشے گی جِلا بھی
تاثیر بس اب نوکِ قلم دل میں ڈبو لے
یہ زہر ہے شیریں اسے پیاسے کو پِلا بھی
(تاثیر خان ۔ سوات)


غزل


روتے روتے جو کُھلا بھوک مٹانے کا خیال
ماں کو پھر آگیا بچوں کو سلانے کا خیال
کون آئے گا جو گرتوں کو سہارا دے گا
یوں تو ہر شخص کو ہے ہنسنے ہنسانے کا خیال
وہ انا زادی لیے پھرتی ہے کب سے دل میں
مجھے اقرار کے دو بول سنانے کا خیال
میں کہ انگاروں پہ چلتا رہا تیری خاطر
اور تو کرتا رہا، ہائے، زمانے کا خیال
ہم ستم زاد قبیلہ ہیں سو ہم رکھتے ہیں
دل میں آنگن کا گھنا پیڑ گرانے کا خیال
خواب اس شوخ کے ہیں لذت و دلداری کے
کس لیے آئے گا پھر خود کو جگانے کا خیال
دشت گلزار سماں، شہر لگے ویرانہ
جیسے عاشق کی نظر جیسے دیوانے کا خیال
ابر آلود مری آنکھ ہوئی ہے انجم
آج جاگا ہے اسی روگ پرانے کا خیال
(عظیم انجم ہانبی۔ کوئٹہ، بلوچستان)


غزل


دل کے فرسودہ خیالات بدل سکتا ہوں
میں محبت کی روایات بدل سکتا ہوں
تُو فقط مجھ کو فقیرِ رہِ دنیا نہ سمجھ
میں ترے شہر کے حالات بدل سکتا ہوں
جانے کیوں مجھ میں تصرف نہیں کرتی وہ مہک
پھول سے میں ہی تو وہ ہاتھ بدل سکتا ہوں
میں اکیلے نہیں کر سکتا گزر دنیا میں
میں زمانے کو ترے ساتھ بدل سکتا ہوں
حسن گر خود سے مکرنے پہ مصر ہے تو پھر
عشق ہوں اپنی کرامات بدل سکتا ہوں
کون سنتا ہے یہاں رام کہانی میری
یعنی میں اپنے بیانات بدل سکتا ہوں
کوئی لمحہ ہے اسد میرے تعاقب میں مگر
وقت ہوں، وقت پہ اوقات بدل سکتا ہوں
(اسد کمال۔ سعودی عرب)


غزل
پہلے مجھ پر بہت فدا ہونا
اس کی چاہت کا پھر فنا ہونا
کس سہولت سے زندگی کاٹی
مجھ کو آیا نہ پارسا ہونا
خود کو محرومِ روشنی رکھ کر
کتنا مشکل ہے اک دیا ہونا
یہ بھی بخیے ادھیڑ دیتی ہے
اس کو ہلکا نہ لے ہوا ہونا
آگہی وقت کی ضرورت ہے
پر اذیت ہے آشنا ہونا
میری ترتیب سے رہی نالاں
زیست کو آ گیا خفا ہونا
اس کے جیون میں آگیا کوئی
کھا گیا مجھ کو دوسرا ہونا
(انعمتا علی۔ جہلم)


غزل


جتنے بھی خوف ہیں انہیں خود سے جدا کروں گا میں
میرے بھی کچھ سوال ہیں پیشِ خدا کروں گا میں
وعدہ رہا، یقین کر، لکھ لے، ہوس کے باب میں
جس سے بھی رابطہ ہوا اس سے وفا کروں گا میں
عشقِ فریب کار پر لعنت ہزار بار ہو
ایسے غذابِ جاں سے بھی خود کو رہا کروں گا میں
جس کو غرض نہ ہو کوئی، مال و زر و زمین سے
ایسے کسی امیر کی دل سے ثنا کروں گا میں
توڑوں گا رسم خوف کی، گاؤں گا دل کی حمد میں
دل کی ہر ایک رسم کو پھر سے روا کروں گا میں
جس میں بجز وصال کے کوئی غرض نہ ہو چھپی
ایسے کسی جمال کی دل سے دعا کروں گا میں
(اشکر فاروقی۔ جام پور)


غزل


میں تو زندہ ہوں مری ذات کہاں ہے مجھ میں
رنج وآلام کا انبوہِ گِراں ہے مجھ میں
ادھ جلے خواب، کہیں جھلسی ہوئی تعبیریں
حسرت و یاس ہے، وحشت ہے، دھواں ہے مجھ میں
تو مجھے توڑ کر اے دوست بکھر جائے گا
میں اکیلا تو نہیں ہوں تُو نہاں ہے مجھ میں
میرے ماتھے کی لکیروں کی تھکن بولتی ہے
کتنی صدیوں کا چھپا کرب عیاں ہے مجھ میں
دو کناروں میں ہے تقسیم متاعِ ہستی
شدّتِ درد کا اک سیلِ رواں ہے مجھ میں
خامشی چیخ رہی ہے مرے دروازے پر
اندروں بارِ دگر آہ و فغاں ہے مجھ میں
(محمد عثمان ناظر۔ اٹک)

.;..
غزل
درد کی دیوار پر ٹانکی ہوئی تصویر ہے
زندگی روزِ ازل سے موت کی جاگیر ہے
شہرِ دل میں سر اٹھاتی خواہشوں کے درمیاں
ہر قدم پر آدمی کے سامنے تقدیر ہے
دن ہیں مایوں کے خزائیں لائی ہیں ابٹن ابھی
فصلِ گل کی رونمائی میں ذرا تاخیر ہے
انتشارِ زندگی میں ایک لمحے کا سکوں
جاگتی آنکھوں سے دیکھے خواب کی تعبیر ہے
کر لیا تسخیر جس کو عشق نے وہ آدمی
اس جہاں کے واسطے ناقابلِ تسخیر ہے
آگہی کا لطف دیتا ہے سدا انسان کو
ہجر کے اندر اگرچہ موت کی تاثیر ہے
(کنزہ سید منزہ۔ ساہیوال)


غزل
ٹوٹے دل کی دوا ہو گیا
غم مرا حوصلہ ہو گیا
اس نے آواز جب دی مجھے
سارا منظر ہرا ہو گیا
آپ اِس سے نہیں ہو سکے
پر یہ دل آپ سا ہو گیا
شاعری ہی تو کی ہے شروع
ایسا ویسا بھی کیا ہو گیا
لمحہ لمحہ مرے ساتھ ہے
کیسے کہہ دوں جدا ہو گیا
ہم کہ عزلت نشیں تھے کبھی
ان سے پھر سامنا ہو گی
آئنہ ہی دکھایا تھا نا
بے سبب تُو خفا ہو گیا
(صائمہ جاوید۔ کہوٹہ)


غزل

ہم جو مل بیٹھتے ہیں فون کی اسکرینوں میں
پھول کھِل بیٹھتے ہیں فون کی اسکرینوں میں
میسجز بجھتے چلے جاتے ہیں مانندِ چراغ
اور دل بیٹھتے ہیں فون کی اسکرینوں میں
اپنے ہر ایک تعلق کے لبوں پر اب ہم
رکھ کے سِل، بیٹھتے ہیں فون کی اسکرینوں میں
شامِ ہجراں ترے لفظوں سے مخاطب ہونے
مستقل بیٹھتے ہیں فون کی اسکرینوں میں
ایک مصنوعی محبت کے سہارے ذیشاں
متصل بیٹھتے ہیں فون کی اسکرینوں میں
(ذیشان ساجد۔ تلہ گنگ)


غزل
بہت ارماں مچلتے تھے دلِ معصوم کے اندر
مگر وہ لٹ گئے سارے دھڑا دھڑ دھوم کے اندر
کھلا رکھا ہمیشہ سے ہی دروازہ محبت کا
کہ ہوسکتا ہے آجائے کہیں سے گھوم کے اندر
بناتا ہے محل اپنے غریبوں کی کمائی سے
یہی تو جنگ ہے اس حاکم ومحکوم کے اندر
پلٹ دے گا بساطِ جنگ یقینا دیکھنا اک دن
جوغیرت جاگ اٹھے گی ذرا مظلوم کے اندر
میں ان بے کیف لمحوں میں سنادوں کیا غزل تجھ کو
میر اشعار لرزیدہ ہیں سب مفہوم کے اندر
اب اہلِ فن ہی سمجھیںگے میرے اشعار کو عارف
کہ ہیں کچھ بولتی غزلیں میرے منظوم کے اندر
(محمد حسین عارف۔ جھنگ)


غزل


زلف سَر ہوتے ہوتے جو سَر ہو گئی
زندگی خوب سے خوب تَر ہو گئی
ظلمتِ شب کے بادل سبھی چھٹ گئے
اشکِ غم سے منور سحر ہو گئی
اٹھتے اٹھتے جو لیں اس نے انگڑائیاں
ساری دنیا کو جیسے خبر ہو گئی
جو گئی رخ پہ تیرے اچانک نظر
زندگی کِھل کے رشکِ قمر ہو گئی
گُل کِھلے تو وہ زینتِ گلشن ہوئے
شاخ لچکی تو تیری کمر ہو گئی
ہے یہ اپنے گناہوں کی اخترؔ سزا
جب بھی مانگی دعا بے اثر ہو گئی
(محمد اختر سعید۔ جھنگ)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔