- ملکی معیشت میں بہتری کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات کرنے جارہے ہیں، وزیراعظم
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر بڑھ گئی
- کراچی میں گرمی کی لہر برقرار، منگل کو پارہ 40 تک جانے کا امکان
- سعودی عرب میں لڑکی کو ہراساں کرنے پر بھارتی شہری گرفتار
- رجب طیب اردوان پاکستان کے سچے اور مخلص دوست ہیں، صدر مملکت
- کراچی: او اور اے لیول امتحانات میں بدترین بد انتظامی سے ہزاروں طلبہ اذیت کا شکار
- عجیب و غریب ڈیزائن کی حامل گاڑیاں
- سرجری سے انکاری معمر افراد کیلئے انتباہ
- صوتی آلودگی کے پرندوں پر مرتب ہونے والے سنگین اثرات
- شہباز شریف اور بلاول حکومت پی ٹی آئی کے حوالے کردیں، فضل الرحمان
- بھارتی وزیر خارجہ امیت شاہ ہیلی کاپٹر حادثے میں بال بال بچ گئے
- مانیٹری پالیسی جاری، شرح سود بائیس فیصد کی سطح پر برقرار
- خیبر پختون خوا میں بارشوں سے تین روز کے دوران 10 افراد جاں بحق
- انوکھا انداز؛ نیوزی لینڈ ٹی-20 ٹیم کا اعلان 2 بچوں نے کیا
- علی رضا عابدی کے قتل میں ملوث چار مجرموں کو عمر قید کا حکم
- تحریک انصاف کے بیک ڈور کسی سے مذاکرات نہیں ہورہے، بیرسٹر گوہر
- سکھوں کے حقوق اور آزادی کیلیے آواز بلند کرتے رہیں گے؛ کینیڈین وزیراعظم
- پنجاب سے گزشتہ سال ڈھائی ہزار بچے اغوا، 891 جنسی زیادتی کا نشانہ بنے
- اسکاٹ لینڈ کے پہلے مسلم پاکستانی نژاد وزیراعظم نے استعفی دیدیا
- عالمی اور مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں معمولی کمی
لاہور میں چیلوں کی بڑھتی تعداد کے باعث چھوٹے پرندوں کی نسل معدوم ہونے کا خطرہ
لاہور: پنجاب کے دارالحکومت لاہورکی مختلف شاہراؤں پر بکنے والے چیل گوشت سے ناصرف شہر میں چیلوں کی بہتات ہوتی جارہی ہے بلکہ صدقے کے گوشت نے ان شکاری پرندوں کو خطرناک بھی بنادیا ہے اور گوشت کے حصول کے لئے یہ راہ چلتے انسانوں پر بھی جھپٹ پڑتی ہیں، چیلوں کی بڑھتی تعدادکی وجہ سے کئی چھوٹے پرندوں کی نسلیں بھی معدوم ہوتی جارہی ہیں۔
لاہورکینال،لاہوررنگ روڈ محمود بوٹی اور راوی پل پرسفرکریں توچیلوں کی غول دکھائی دیتے ہیں۔ یہ چیلیں یہاں پھینکے جانیوالے صدقے کے گوشت جسے ’’چیل گوشت‘‘ بھی کہا جاتا ہے اس کے حصول کے لئے یہاں جمع رہتی ہیں۔ صبح کے اوقات میں کینال روڈ پر جلو اور ہربنس پورہ کے درمیانی علاقے میں درجنوں افراد چیل گوشت بیچتے نظرآتے ہیں۔ صبح کے اوقات میں گھروں سے دفاتراورکام کاج کے لئے جانیوالے چیل گوشت کا صدقہ دیتے ہیں اور گوشت بیچنے والے یہ گوشت نہر میں پھینک دیتے ہیں جنہیں کھانے کے لئے چیلیں جھپٹتی اورآپس میں لڑتی ہیں،بعض اوقات راہ چلتے شہریوں اورموٹرسائیکل سواروں پربھی جھپٹ پڑتی اورگاڑیوں کے شیشوں سے ٹکڑاجاتی ہیں۔
ضلعی حکومت اورٹریفک پولیس کی طرف سے شہرکے اندرچیل گوشت بیچنے والوں کیخلاف کارروائیوں کے بعد ان لوگوں نے شہر سے باہر جلو،ہربنس پورہ،مناواں،راوی پل پرڈیرے لگارکھے ہیں۔ اس گوشت کی وجہ سے سینکڑوں چیلیں یہاں جمع رہتی ہیں اورلاہورکی فضاؤں میں ان کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
ڈبلیوڈبلیوایف پاکستان کے ڈائریکٹرجنرل حماد نقی نے بتایا کہ چیل ایک شکاری پرندہ ہے، پہلے ان کی جگہ ویرانوں اور بیابانوں میں ہوا کرتی تھی مگر جب شہروں میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگنا شروع ہوئے توانہوں نے آہستہ آہستہ شہروں کا رخ کرنا شروع کردیا۔ جہاں انہیں محنت کئے بغیر صدقے کا گوشت کھانے کومل جاتا ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ جانور کی نفسیات میں یہ شامل ہے کہ جہاں انھیں چیزیں آسانی مل جاتی ہیں وہ وہیں کا رخ کرتے ہیں۔ لاہورمیں محمود بوٹی کے قریب سالڈاینڈویسٹ مینمجنٹ کی ڈپمنگ سائٹ ان کا سب سے بڑامسکن ہے جہاں ہزاروں چیلیں دیکھی جاسکتی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ لاہورمیں چیلوں کی تعدادبڑھنے سے کئی چھوٹے پرندوں پرمنفی اثرپڑا ہے، چیل چھوٹے پرندوں کو گھونسلہ نہیں بنانے دیتی جبکہ ان کے انڈے بھی کھاجاتی ہیں۔ اگروہ زیادہ بھوکی ہوں توکئی چھوٹے پرندوں کو شکاربھی کرلیتی ہیں۔ چیلوں کی تعداد کا بڑھنا ناصرف ماحول کے لئے خطرناک ہے بلکہ ان کی تعداد بڑھنے سے چڑیا، طوطے، مینا،لالیاں، کوئل، ہد ہد اور دوسرے نازک پرندے نایاب ہوتے جارہے ہیں۔
پنجاب وائلدلائف کے ڈپٹی ڈائریکٹر چوہدری شفقت علی نے ایکسپریس کوبتایا کہ بغیرشکار، آسانی سے ملنے والے صدقے کے گوشت نے چیلوں کے مزاج کوبدل دیاہے اوران میں جارحیت پیدا ہوگئی ہے۔ ان کی طبیعت میں غصیلاپن پیداہوگیا ہے جس کی وجہ سے وہ اکثر شہریوں پرحملے بھی کرتی ہیں۔
؎انسانوں نے صدقے کے نام پر گوشت ڈال کر ان چیلوں کو خوراک کے حصول کے قدرتی طریقہ کار سے دور کر دیا ہے۔ اس لیے اب یہ خود خوراک تلاش کرنے کی بجائے انسانوں کی پھینکی گئی خوراک کھانا زیادہ پسند کرتی ہیں۔ لاہورمیں جن مقامات پرصدقے کا گوشت فروخت ہوتا ہے وہاں یہ چیلیں جمع رہتی ہیں۔ جیسے ہی کوئی موٹر سائیکل یا گاڑی گوشت پھینکنے کے لیے رکتی ہے، چیلیں اڑتی ہوئی اس کی جانب لپکتی ہیں اور پھر فضا میں پھینکے جانے والے گوشت کو اچکنا شروع کر دیتی ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔