ایک تھی اوما دیوی

رئیس فاطمہ  جمعـء 9 دسمبر 2022
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

افسانہ لکھ رہی ہوں ، دلِ بے قرار کا

آنکھوں میں رنگ بھر کے تیرے انتظار کا

فلم: درد (پرانی)

ملتے ہی آنکھیں دل ہوا دیوانہ کسی کا

افسانہ میرا بن گیا افسانہ کسی کا

فلم: بابل (پرانی)

بے تاب ہے دل درد محبت کے اثر سے

ٹکرا گئی یہ کس کی نظر میری نظر سے

فلم: درد (پرانی)

کسی کے دل میں رہنا تھا تو میرے دل میں کیوں آئے

بسائی تھی کوئی محفل تو اس محفل میں کیوں آئے

فلم: بابل (پرانی)

جی ہاں! ایک تھی اوما دیوی جسے لوگ ٹن ٹن کے نام سے جانتے ہیں۔ برصغیر کی سب سے پہلی فی میل کامیڈین۔ جن لوگوں کو پرانی انڈین فلمیں اور پرانے گیت یاد ہیں تو انھیں مندرجہ بالا سپرہٹ گانے بھی یاد ہوں گے۔ ایک عجیب کشش تھی اوما کی آواز میں۔

وہ متھرا کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئی تھیں۔ گانے کا شوق بچپن سے تھا۔ اوما کی پیدائش کا زمانہ وہ تھا جب گاؤں کے لوگ لڑکیوں کو پڑھاتے نہیں تھے۔ اوما نے بھی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ اس کی ایک سہیلی تھی جس کے بمبئی فلم انڈسٹری میں کافی کنکشن تھے وہ پڑھی لکھی تھی۔

اس نے اوما کا شوق دیکھتے ہوئے ان پروڈیوسروں کو کئی خط لکھے۔ جب جواب آیا تو اس نے اوما کو بتایا، اوما ریڈیو بہت سنتی تھی اور جب گانا ختم ہوتا تو گلوکاروں ، گلوکاراؤں اور میوزک ڈائریکٹرز کا نام بڑے شوق سے سنتی۔ وہ ان کی جگہ خود کو دیکھتی، وہ اس حد تک گیت سنگیت سے جڑی تھی کہ اسکول تو جانا نہیں ہوتا تھا، لہٰذا وہ دن بھر گاتی ناچتی رہتی تھی۔

اس کے ماں اور باپ دونوں گزر گئے تھے، چچا نے پرورش کی۔ جب اوما کی سہیلی نے اوما کو بتایا کہ بمبئی سے جواب آیا ہے تو 1946 میں صرف تیرہ سال کی عمر میں وہ سہیلی کے ساتھ بمبئی چلی گئی۔ اوما کی پیدائش 11 جولائی 1923 کو ہوئی تھی۔

یہ وہ زمانہ تھا جب ہر کام میرٹ پر ہوتا تھا، انگریز کی حکومت نے جہاں اور بہت سے اچھے کام کیے وہیں میرٹ کو بھی آگے رکھا۔ بمبئی کی فلم نگری میں بھی جو اداکار اور گلوکار آئے وہ سب میرٹ پر سامنے آئے۔ آج کی طرح نہیں کہ اداکاروں کے بیٹے بیٹیاں ہی سامنے آتے ہیں یا پھر انڈر ورلڈ کا کوئی گاڈ فادر ان کے پیچھے ہو۔ اب تو بڑے بڑے ڈان اپنی پسندیدہ اداکاراؤں کو ہیروئن کا کام دلواتے ہیں اور جو ڈائریکٹر منع کر دے، وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

ماضی میں وہاں کئی واقعات ہوئے ہیں۔ انڈر ورلڈ کے لوگ پوری دنیا میں دندناتے پھرتے ہیں، لیکن انڈیا میں ممبئی میں ان کا اثر و رسوخ بے پناہ ہے، لیکن جس زمانے کی بات ہم کر رہے ہیں، اس وقت ایسا کچھ نہ تھا۔ فلمی لوگ نئے ٹیلنٹ کی تلاش میں سرگرداں رہتے تھے۔

ہمارے ہاں گلوکارہ ریشماں کی مثال موجود ہے جو بالکل ان پڑھ تھی، شوقیہ گاتی تھی۔ ایک دن ریڈیو پاکستان کراچی کے پروڈیوسر سلیم گیلانی کسی ہوٹل میں بیٹھے تھے کہ ان کے کان میں ایک سریلی اور صحرائی آواز گونجی۔ وہ تھی ریشماں کی۔ انھوں نے ٹیلنٹ کو پہچانا، کچھ گرومنگ کی اور پھر ریشماں نغمہ صحرا بن گئی۔

غیر منقسم ہندوستان میں جوتیکا رائے کی مثال بھی موجود ہے جو شوقیہ گایا کرتی تھی ایک دن اس دبلی پتلی تیرہ سالہ بنگالی لڑکی کو کسی جوہر شناس نے سنا اور پھر HMV گراموفون کمپنی نے اس کے ریکارڈ بنائے۔ ریشماں کے لیے بھی بھارت کی فلم انڈسٹری کے دروازے کھل گئے۔

اوما جب اپنی سہیلی کے ساتھ بمبئی (اب ممبئی) پہنچی تو سیدھی مایہ ناز موسیقار نوشاد علی کے گھر پہنچ گئی اور ان سے کہا کہ ’’اگر انھوں نے اسے گانے کا موقعہ نہ دیا تو وہ ان کے بنگلے کے سامنے سمندر میں کود کر جان دے دے گی۔‘‘ نوشاد صاحب مسکرائے اور کہا ’’گاؤ‘‘ جب اوما گا چکی تو نوشاد صاحب نے پوچھا ’’یہ کون سا سُر تھا؟‘‘ اوما کو سُر تال کا کیا پتا، وہ تو یوں ہی شوقیہ گایا کرتی تھی۔

لیکن کسی نے سچ کہا ہے کہ ’’قسمت آگے چلتی ہے‘‘ تو اوما کی قسمت چمک اٹھی اور نوشاد صاحب نے اسے کاردار پکچرز میں کام دلوایا۔ پہلے اداکار، گلوکار اور موسیقار فلم کمپنیوں میں مستقل ملازم رکھے جاتے تھے انھیں ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔

یہ سفر ہے اس وقت کا جب اوما ابھی ٹن ٹن نہیں بنی تھی۔ اوما کا فلمی سفر بڑھتا جا رہا تھا اور اس کے گیت بہت مقبول ہو رہے تھے۔ ایک دن نوشاد صاحب سے کہا کہ ’’اوما فلمی دنیا میں نئی نئی گائیکائیں آتی جا رہی ہیں، مقابلہ بڑھتا جا رہا ہے، اب تم ایسا کرو کہ فلموں میں بھی کام شروع کردو۔‘‘ اوما نے شرط رکھی کہ اگر وہ کام کرے گی تو دلیپ کمار کے ساتھ۔ سو یہ معاملہ بھی طے ہو گیا۔

دلیپ کمار نے کھلے دل سے اس کو خوش آمدید کہا اور پھر فلم بابل میں اوما کو پہلا کام ملا۔ دلیپ صاحب کے ایک سین میں مزاحیہ اداکاری کرنے پر دلیپ صاحب نے اوما کو ٹن ٹن کا نام دیا اور پھر اوما نام صرف HMV کے گراموفون ریکارڈ پر تو نظر آیا لیکن وہ فلم بینوں میں ٹن ٹن کے نام سے ایسی مقبول ہوئی کہ فلم میں اداکاروں کے نام کے ساتھ آخر میں لکھا جاتا تھا اور ’’ٹن ٹن‘‘ جو اوما کی مقبولیت کی دلیل تھی۔

اوما کی شادی بھی بڑے فلمی انداز میں ہوئی۔ جب اوما کا گیت ’’افسانہ لکھ رہی ہوں، دلِ بے قرار کا، آنکھوں میں رنگ بھر کے ترے انتظار کا‘‘ تو ایک صاحب ان کے عشق میں مبتلا ہوگئے اور دلی سے بمبئی آ کر مقیم ہوگئے اور پھر شادی کرلی۔ اوما کے چار بچے ہیں، دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ان کے شوہر کا نام موہن تھا جو اوما کو دل و جان سے چاہتے تھے۔

1992 میں ان کا انتقال ہو گیا، اوما کے لیے یہ صدمہ بہت بڑا تھا اور 2003 میں ممبئی کے ایک اسپتال میں 24 نومبر کو دار فانی سے کوچ کر گئیں اور اپنے چاہنے والوں کو اداس کر گئیں۔ جہاں تک فنی سفر کا تعلق ہے تو اوما نے جس فلم میں بھی کام کیا اپنے کردار سے پورا پورا انصاف کیا۔ کردار کیسا ہی ہو اوما نے بڑی سنجیدگی سے نبھایا، حالات کے حوالے سے اوما بڑی بدقسمت رہی بچپن ہی میں ماں اور باپ کا انتقال ہو گیا۔

اوما کو یاد بھی نہیں تھا کہ وہ کیسے تھے، پھر بھائی کا قتل ہو گیا، اب اوما گھر گھر برتن مانجتی تھی اور کام کرتی تھی۔ پھر قسمت نے ہاتھ پکڑا اور وہ بھارت کی پہلی فی میل کامیڈین اور اداکارہ بن گئی۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اگر کہیں سے کوئی موٹی عورت آ رہی ہوتو لوگ کہتے تھے ’’دیکھو وہ آ رہی ہے ٹن ٹن۔‘‘

ایک عجیب یکسانیت اور اتفاق نظر آتا ہے چند گلوکاراؤں میں کہ یہ گانے والیاں موٹی تھیں۔ آشا بھونسلے، لتا جی، نسیم بیگم اور ترنم۔ چاروں کی آواز غضب کی اور ٹن ٹن کی طرح موٹی۔ لیکن ان ساری آوازوں کو ہم بھول نہیں سکتے۔

بہرحال ٹن ٹن کا مقام بہت بڑا ہے کہ گھروں میں کام کرنے والی بے سہارا بچی شوقیہ گاتی پھرتی تھی اور پلے بیک سنگر بننا چاہتی تھی۔ قدرت خود کبھی کبھی ہاتھ پکڑ لیتی ہے جیسے اوما کی سہیلی جو دلی آتی جاتی رہتی تھی اور وہ اوما کو بمبئی لے گئی۔

قدرت نے اسے عظیم موسیقار اعظم نوشاد علی خاں کے پاس پہنچا دیا اور وہ اسٹار بن گئی لیکن اب یہ ناممکن ہے کسی بھی شعبے میں سفارش اور گاڈ فادر کا ہونا ضروری ہے۔ ورنہ لوگ جوتیاں چٹخاتے رہ جاتے ہیں چہ جائیکہ قدرت مہربان نہ ہو جائے۔ جیسے نواز الدین صدیقی کا ہاتھ قسمت نے پکڑا اور وہ ایک ہی فلم سے اسٹار بن گیا۔ ورنہ اداکاروں کے بیٹوں کے ہجوم میں اس کی دال کہاں گلتی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔