- وزیر پیداوار کا سرسبز یوریا کی قیمت میں اضافے کا سخت نوٹس
- وزیرداخلہ کا منشیات گینگز کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن کا حکم
- پنجاب پولیس کی خاتون افسر عالمی ایوارڈ کے لیے منتخب
- لاہور ائرپورٹ؛ تھائی لینڈ سے غیر قانونی درآمد 200 نایاب کچھوے برآمد
- امتحانات میں ناکامی کی عمومی وجوہات
- پختونخوا میں بارشیں جاری، گندم کی فصلیں بری طرح متاثر
- کوچنگ کمیٹی کی سربراہی ’ناتجربہ کار‘ کے سپرد
- PSOکا مالی سال 2024کے9ماہ میں 13.4ارب روپے کا منافع
- وسیم اکرم نے پانڈیا کے ساتھ سلوک کو ’برصغیر‘ کا مسئلہ قرار دے دیا
- فخرزمان میچ فنش نہ کرنے پر کف افسوس ملنے لگے
- ہیڈ کوچ اظہر محمود نے شکست میں بھی مثبت پہلو تلاش کرلیے
- راشد لطیف نے ٹیم کی توجہ منتشر ہونے کا اشارہ دیدیا
- اسرائیلی بمباری میں شہید حاملہ خاتون کی بعد از وفات پیدا ہونے والی بیٹی بھی چل بسی
- تصویر کو شاعری میں بدلنے والا کیمرا ایجاد
- اُلٹی چلنے والی گاڑی سوشل میڈیا پر وائرل
- امریکا میں شرح پیدائش کم ترین سطح پر آگئی
- بے رحم اور بلاتفریق احتساب کا دن قریب ہے، فیصل واوڈا
- پہلا ٹی ٹوئنٹی: ویسٹ انڈیز نے پاکستان ویمن ٹیم کو ایک رن سے شکست دے دی
- خیبر پختونخوا: صوبائی وزراء اور مشیروں کی مراعات میں اضافے کی سمری تیار
- فوج سے جلد مذاکرات ہوں گے، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے بات ہوگی، شہریار آفریدی
طالبان سے مذاکرات میں ناکامی کا علم تھا لیکن وہ راستہ سیاسی دباؤ پر اختیار کیا گیا، وزیر دفاع
اسلام آباد: وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ حکومت کو طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ناکامی کا علم تھا لیکن سیاسی دباؤ کے باعث وہ راستہ اختیار کیا گیا جبکہ جس دوران مذاکرات ہوئے اس وقت آپریشن ہونا چاہئے تھا۔
برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ طالبان کے ساتھ جن چار ماہ میں مذاکرات کیے گئے اس وقت ان کے خلاف فوجی آپریشن کرنا چاہئے تھا لیکن حکومت نے سیاسی دباؤ کے باعث مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جبکہ ہمیں علم تھا کہ یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہوں گے لیکن اس کے باوجود پوری کوششیں کیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ناکامی کے بعد جون میں شمالی وزیرستان میں آپریشن کا آغاز کیا کیونکہ کئی تجربوں سے یہی سیکھا ہے کہ شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوسکتے ان کا حل صرف فوجی آپریشن ہی ہوسکتا ہے اس لیے ہمیں پہلے ان کا خاتمہ کرنا ہوگا جبکہ طالبان کے خلاف کارروائی میں افغان حکومت کی حمایت بھی انتہائی ضروری ہے۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ملک میں جو بھی شدت پسندی کی حمایت کرے وہ پاکستانی نہیں ہے اور یہ ایسے عناصر ہیں جو ہمارے بچوں کےقاتلوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کے مددگار ہیں، ایسے لوگ ہمارے نہیں بلکہ دہشت گردوں کے ساتھی ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ملک میں پہلی بار تمام سیاسی قیادت اور جماعتیں ایک ہی پیج پر ہیں جو بہت نایاب سیاسی اتفاق ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔