بڑھتی ہوئی سیاسی محاذ آرائی اور افواہیں کیا رنگ لائیں گی؟

ارشاد انصاری  بدھ 16 مئ 2018
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے ممبئی حملوں سے متعلق متنازعہ بیان سے پیدا ہونے والی سیاسی کشیدگی میں کمی کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے فوٹو : فائل

سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے ممبئی حملوں سے متعلق متنازعہ بیان سے پیدا ہونے والی سیاسی کشیدگی میں کمی کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے فوٹو : فائل

 اسلام آباد:  سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے ممبئی حملوں سے متعلق متنازعہ بیان سے پیدا ہونے والی سیاسی کشیدگی میں کمی کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے اس اہم مرحلے پرجب  پندرہ روز بعد موجودہ  حکومت  اپنی مدت پوری کرنے جا رہی ہے اور نگران حکومت کا قیام عمل میں آنے کو ہے ، نگران وزیراعظم کے ناموں پر بھی وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت مکمل ہوچکی ہے اور صرف اعلان ہونا باقی رہ گیا ہے تو ایسے میں حالات کا اس قدر سنگین ہونا کسی طور بھی جمہوریت وجمہوری نظام کی صحت کے حق میں نہیں ہے۔

بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اگر حالات مزید خرابی کی طرف بڑھتے ہیں تو آئندہ انتخابات  سوالیہ نشان  بن جائیں گے۔ پہلے صفائی پھر انتخابات کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ شاید تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سمیت بعض دیگر سیاسی رہنما اسی تناظر میں انتخابات میں کچھ تاخیر کی باتیں  کر رہے ہیں لیکن کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اگر انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تو پھر تین ماہ یا چھ ماہ نہیں بلکہ جو سیٹ اپ آئے گا وہ تین سال کیلئے ہوگا۔

دوسری جانب حکمران جماعت انتخابات میں ایک دن کی بھی تاخیر کی مخالف ہے اور ن لیگ کے قائد نوازشریف دوٹوک  الفاظ میں کہہ چکے ہیں انتخابات میں ایک دن کی بھی تاخیر ہوئی تو عوام سڑکوں پر ہونگے مگر سیاسی عدم استحکام اور آئندہ انتخابات بارے خدشات کے باوجود مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سمیت تمام بڑی سیاسی جماعتیں نہ صرف آئندہ انتخابات  کی تیاری کیلئے عملی طور پر میدان میں اتری ہیں بلکہ آئندہ انتخابات کیلئے اپنے امیدواروں سے پارٹی ٹکٹوں کیلئے درخواستیں بھی طلب کر رکھی ہیں اورٹکٹوں کی تقسیم کے معاملہ پر بھی جماعتیں خوفزدہ دکھائی دیتی ہیں۔

کہیں کوئی جماعت متوقع سیاسی ٹوٹ پھوٹ سے خوفزدہ ہے تو کوئی قیادت پراعتماد کے حوالے سے خوفزدہ دکھائی دیتی ہے، جس کا اظہار ان جماعتوں کے اپنے امیدواروں سے پارٹی ٹکٹ کیلئے درخواستوں کے ساتھ عائد کی جانے والی شرائط سے واضح ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف نے پارٹی ٹکٹ کیلئے درخواستوں کے ہمراہ حلف نامے جمع کروانے کا کہا اور اب  مسلم لیگ (ن) نے آئندہ عام انتخابات  کے لیے پارٹی ٹکٹ کیلیے درخواستیں طلب کرتے ہوئے امیدواروں سے نواز شریف اور شہباز شریف پر اعتماد کا حلف نامہ بھی مانگ لیا ہے جو پارٹی ٹکٹ فارم میں شامل ہے۔ اسکے علاوہ فارم میں امیدواروں سے بحالی جمہوریت کیلئے جدوجہد کے حوالے سے بھی تفصیلات مانگی گئی ہیں۔

الیکشن کمیشن نے عام انتخابات 2018  کیلئے بیلٹ پیپرز کے نمونوں کو فائنل کرلیا ہے۔ قومی اسمبلی کے بیلٹ پیپرکا رنگ سبز اور صوبائی اسمبلی کے بیلٹ پیپر کا رنگ سفید ہوگا۔ بیلٹ پیپر میں تمام امیدواروں کو مسترد کرنے کاآپشن اس بار بھی نہیں ہوگا ۔ الیکشن کمیشن نے عام انتخابات 2018 کے لئے بیلٹ پیپر کا وہی نمونہ فائنل کیا ہے جو 2013کے انتخابات میں تھا۔ بیلٹ پیپر پر امیدوار کا نام اورانتخابی نشان ہوگا جس کے لئے صرف ایک خانہ رکھا گیا ہے جن پر ووٹرز نوخانوں والی مہر ثبت کریں گے، بیلٹ پیپرز پر امیدواروں کے نام حروف تہجی کے مطابق چھاپے جائیں گے، امیدوار کے شناختی کارڈ پر جو نام درج ہوگا اسی کے مطابق ان کا نام لکھا جائے گا۔

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ(ن)کی حکومت کی جانب سے دیا جانیوالا چھٹا وفاقی بجٹ پارلیمنٹ سے منظوری کے آخری مراحل میں ہے اور توقع ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود حکومت آئندہ چند روز میں پارلیمنٹ سے بجٹ منظور کروانے میں کامیاب ہو جائے گی، منگل کو بھی  اپوزیشن کی طرف سے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی تقریر رکوانے کی کوشش ناکام ہو گئی  ہے۔

البتہ  قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں میاں نوازشریف کی جانب سے ممبئی حملوں سے متعلق متنازعہ بیان کا معاملہ چھایا رہا جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی رہنماوں نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے سابق وزیراعظم سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ، تاہم تحریک انصاف نے تو نوازشریف کے معافی نہ مانگنے کی صورت میں غداری کا مقدمہ درج کرکے سزا دینے کا مطالبہ کردیا ہے۔

البتہ وزیراعظم  شاہد خاقان عباسی  اپنے  قائد میاں نوازشریف  کے خلاف کی جانیوالی اپوزیشن رہنماوں کی دھواں دار تقریروں اور زہر آلودہ جملوں کے سامنے ڈٹ گئے اور میاں نوازشریف کا بھرپور انداز میں دفاع کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ نواز شریف کو کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی کسی کو حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دینے کا اختیار ہے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی  نے اپنی پریس کانفرنس کے الفاظ کو پھر سے دہراتے ہوئے کہا کہ اپنی سرزمین کوکسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اس تاثرکو مسترد کیا گیا کہ حملہ آوروں کو پاکستان سے بھیجا گیا، جو باتیں کی جا رہی ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور نوازشریف نے یہ نہیں کہا کہ ممبئی حملہ کرنے والوں کو پاکستان سے بھیجا گیا، وزیراعظم کا کہنا تھا کہ  اس حوالے سے مس رپورٹنگ ہوئی، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، یہ تاثر بھارت نے قائم کیا اور سیاسی مقاصد کے لئے یہاں پھیلایا جا رہا ہے، ایوان میں دھواں دھار تقریریں کی گئیں، یقین سے کہتا ہوں ان لوگوں نے خبر نہیں پڑھی ہے۔

وزیراعظم شاہد خاقان نے مزید کہا کہ کوئی کمیشن اور کوئی غداری کا مقدمہ درج کرانے کا کہتا ہے، پارٹی لیڈرزکو حقائق پر مبنی باتیں کرنی چاہئیں، نواز شریف کو کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں، اس معاملے پر پارلیمنٹ کمیشن بنائے ، ماضی میں جانا ہے تو پارلیمنٹ کمیشن  قائم کردے۔ اس سے پہلے منگل کو  قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن نے شدید احتجاج اور نعرے بازی کرتے ہوئے وزیراعظم کے ریمارکس پر ایوان سے واک آوٹ کر دیا اور کورم کی نشاندہی کے ذریعے وزیر خزانہ کی تقریر رکوانے کی کوشش بھی کی گئی جو ناکام ہو گئی ۔

پیپلز پارٹی  کے رہنماوں کی جانب سے کی جانیوالی تنقید کے جواب میں حکمران جماعت کے رہنماوں نے تو اپنے قائد کا بھرپور دفاع کیا ہی مگر جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ نے نوازشریف کے ساتھ ساتھ ماضی کے حکمرانوںکو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ  اگرنوازشریف صفائی نہیں دیتے تو ملکی سالمیت کی خلاف وزری پر کارروائی کی جائے لیکن 1988میں جس وزیراعظم نے سکھوں کی لسٹ انڈیا کو دی اس نے بھی غداری کی ہے اس پر کاروائی ہونی چاہئیے۔

افغانستان میں جاری گریٹ گیم کے تناظر میں پاکستان کے سکیورٹی اداروں پر نان اسٹیٹ ایکٹرکی حمایت کا الزام  دراصل ملک دشمنی ہے، پاکستانی سکیورٹی اداروں  نے تنہا بھارتی اور امریکی نان اسٹیٹ ایکٹر کی مسلط کردہ خوفناک جنگ لڑی، بلوچستان میں بھی مالاکنڈ ڈویژن سوات وغیرہ میں بھی قبائلی علاقہ جات میں بھی اور ملک کے طول و عرض میں بھی ہزاروں خود کش حملوں کا سامنا کیا ،ایک لاکھ سے زیادہ معصوم پاکستانی اس جنگ میں شہید ہوئے لیکن آئی ایس آئی یہ جنگ جیت چکی ہے ۔

جو کچھ پاکستان پر مسلط کیا گیا تھا اس کا سامنا اب خود افغانستان کی سرزمین کو ہے جہاں بنائے گئے لانچنگ پیڈ سے نان اسٹیٹ ایکٹر پاکستان بھیجے جاتے تھے، پاکستان کو افغانستان میں بھارتی اور امریکی شکست کے ردعمل سے بچنے کیلئے ملک میں جاری سیاسی افراتفری بے چینی کے عمل کو ختم کرنا ہوگا اور قومی یکجہتی کو فروغ دینا ہوگا۔ سب سے اہم بات یہ کہ آئندہ ماہ پاکستان کو دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کرنے کے الزام میں بلیک لسٹ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں کیونکہ فروری میں جو تین ماہ کی مہلت ملی تھی ۔

وہ جون میں ختم ہو نے جا رہی ہے اور بین الاقوامی حالات یہ ہیں کہ سعودی عرب نے جنرل راحیل شریف کو اسلامی افواج کا سربراہ تو بنا یا مگر ٹاسک فورس کے اجلاس کے دوسرے اور فیصلہ کن مرحلہ میں پاکستان کا ساتھ نہیں دیا ، ہمیں سوچنا ہوگا کہ  غلط کہاں ہو رہا ہے کیونکہ ہمارا  پرانا دوست ملک چین بھی اضطراب کا شکار دکھائی دے رہا ہے جسکا اظہار امریکی قراداد کو ویٹو کرنے سے انکار کرنے کی صورت کیا۔ اب آئندہ ماہ اگر خدانخواستہ پاکستان کو باضابطہ طور پر دہشت گردوں کی معاونت کے حوالہ سے بلیک لسٹ کردیا جاتا ہے تو اسکے  بہت بھیانک اثرات ہونگے، لہٰذا ہماری سیاسی و غیر سیاسی قیادت کو دانشمندی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔