مظہر کلیم ایم اے کی یاد میں

آصف زیدی  بدھ 30 مئ 2018

زندگی میںبہت سی شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن سے آپ کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی ہوتی لیکن پھر بھی وہ ایک طرح سے آپ کی زندگی میں شامل رہتے ہیں، ان کی باتیں جن کے کام آپ بھول نہیں سکتے۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک نام مظہر کلیم ایم اے کا ہے، ہفتہ 26 مئی کو جب یہ خبریں ملیں کہ مظہر کلیم اب اس دنیا میں نہیں رہے تو دل بوجھل ہوگیا۔ ایسا لگا جیسے کوئی آس پاس رہنے والا ہی نظروں سے دُور ہو گیا ہو۔

میری مظہر کلیم سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی، ایک دوبار مختلف رسائل وجرائد میں ان کا انٹرویو ضرور پڑھا لیکن ان سے بالمشافہ ملاقات نصیب میں نہیں تھی۔ میں بھی اُن لاکھوں لوگوں میں سے ایک ہوں جو مظہر کلیم سے سیکڑوں کلومیٹر دور رہنے کے باوجود اُن کو اپنے بہت قریب ہی سمجھتے تھے۔ ہمارا اور مظہرکلیم کا رشتہ اُن کی لکھی گئی ’’عمران سیریز‘‘ نے مضبوط سے مضبوط تر کیا۔

میرے با با سید محمد اسلم خیال زیدی شاعر ہونے ساتھ ساتھ معیاری مطالعے کے بے حد شوقین تھے۔ اُن کی ہی تربیت کا نتیجہ ہے کہ ہم لوگ بھی کچھ پڑھنے لکھنے کے قابل ہوئے۔ ہماری زندگی کے30,25 سال شریف آباد فیڈرل بی ایریا میں گزرے یہ کہاجائے توغلط نہ ہو گا کہ ہمارا بچپن اور لڑکپن وہیں پروان چڑھا۔ اب بھی ہمارا کراچی میں آبائی گھر، بچپن کے دوست اور بہت سی یادیں اُسی علاقے میں ہیں۔ والد صاحب اخبارات، رسائل، اور کتابوں کے شوقین تھے ۔خوش قسمتی سے شریف آباد میں ہی یوسف بھائی کی لائبریری ہمارے بہت کام آئی، 90ء کا عشرہ اور اس کے بعد اب تک ہم لوگ یوسف بھائی کی ’’نوید لائبریری‘‘ سے مستفید ہو رہے ہیں۔ برسوں پہلے بھائی جان (سرجن اظفر زیدی) اور بابا نے جو لائبریری کارڈ وہاں بنوایا تھا وہ تاحال چل رہا ہے جس کے ذریعے ہم نے بہت کتابیں پڑھیں جن میں سرفہرست مظہر کلیم کی عمران سیریز ہوتی تھی۔

اسکول، کالج، محلے کے دوستوں کے ساتھ کھیل کود کے بعد ہمارے مشاغل میں لائبریری جانا اور وہاں سے من پسند کتابیں لانا بھی شامل تھا۔ ہمیں مظہر کلیم صاحب کی ہر نئی کتاب کا شدت سے انتظار بھی رہتا تھا اور ہم بھائیوں میں یہ کشمکش بھی رہتی تھی کہ پہلے کتاب کون لے؟۔ ہم نے اسی لائبریری سے ابن صفی صاحب کی عمران سریز پر لکھی گئی کتابیں بھی پڑھیں۔ ابن صفی صاحب کی کتابیں اردو لکھنے اور پڑھنے کے شوقین حضرات و خواتین کے لیے بہت نایاب تحفہ ہیں۔ پھر مظہر کلیم صاحب نے عمران سیریز کو جدت دی کہ ان کی کتابوں میں موجود دکردار پڑھنے والوں کو برسوں یاد رہتے ہیں اور یاد ہیں۔

مظہر کلیم صاحب کی کتابوں پر ان کی ایک پرانی تصویر ہوتی تھی، کئی سال بعد ہمیں پتہ چلا کہ یہ تصویر تو بہت پرانی ہے، اب تو مظہر کلیم صاحب کافی تبدیل ہوچکے ہیں۔ ہم کراچی میں تھے اور مظہر کلیم صاحب ملتان میں بھی رہ کر اپنے قلم کی طاقت سے ہم سے مسلسل رابطے میں تھے۔ ان کی کتابیں ہم سارے دوستوں میں زیر بحث بھی رہتی تھیں اور مختلف فقروں اور سچویشنز پر ہم ایک دوسرے سے تبادلہ خیال بھی کیا کرتے تھے۔

مظہر کلیم وکیل بھی تھے اور ریڈیو ملتان کے لیے انھوں نے ایک شو ’’جمہوری آواز‘‘ کی میزبانی بھی کی، اتنی سرگرم زندگی کے ساتھ ساتھ مسلسل سے معیاری جاسوسی ناول تخلیق کرنا ان پر قدرت کی بڑی مہربانی تھی ابن صفی صاحب کی طرح مظہر کلیم صاحب کی نگارشات کی ایک اور خاص بات تھی کہ انھوں نے اپنی کہانیوں ، ناولز میں غیر اخلاقی جملوں کو کبھی استعمال نہیں کیا، ان کی کتابیں گھر کے ہر فرد کے لیے ہوتی تھیں۔ عمران سیریز کا مرکزی کردار علی عمران، ’’ایم ایس سی، ڈی ایس سی، آکسن‘‘ سب کاآئیڈیئل تھا، اس کے علاوہ سرسلطان، سررحمان، ایکس ٹو، سلیمان، صفدر، چوہان، جولیا، جوزف، صالحہ اور دیگر کردار کبھی بھلائے نہیں جا سکتے۔ 500 یا 600 کے قریب جاسوسی ناول لکھنا بہت بڑی بات ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے بچوں کی ہی ہزاروں کہانیاں لکھیں۔

مجھے یاد ہے کہ جب مظہر کلیم کی عمران سیریز کا کوئی نیا ناول آنے والا ہوتا تھا تو ہم سب بہت بے چینی سے اس کا انتظار کرتے تھے۔ لائبریری کُھلنے کے ساتھ ہی ہم چکر لگانا شروع کردیتے تھے اور پھر جس کو سب سے پہلے وہ ناول ملتا تو اس کی خوشی دیدنی ہوتی تھی، ایسا لگتا تھا کہ جیسے اسے کوئی اعزاز مل گیا ہو اور یقینی طور پر مظہر کلیم کی کتابوں کا قاری ہونا بھی ایک اعزاز ہی تو ہے۔ یہ بات طے ہے کہ مظہر کلیم کی کتابوں اور ناولوں کو پڑھ کر ہم نے منفی نہیں مثبت باتیں ہی سیکھیں جو ابھی تک ہمارے کام آرہی ہیں۔

کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوا کہ سب سے پہلے عمران سیریز پڑھنے کے لیے ہم نے لائبریری کا بہت انتظارنہیں کیا اور بازار سے جاکر کتاب خریدلی۔ ہمارے بابا کا کتب بین کا شوق بھی بہت منفرد اور قابل تقلید تھا۔ وہ بالکل نئی کتاب لائبریری سے لاتے تو پڑھنے سے قبل اس پر پلاسٹک کور چرھاتے تھے، لائبریری والے بھی آج تک بابا کی یہ ادا نہیں بھولے۔

آج مظہر کلیم صاحب کے نہ ہونے سے زندگی کے گزشتہ ماہ وسال کی ساری کہانیاں، مناظر دوبارہ یاد آرہے ہیں۔ مظہر کلیم صاحب اپنے ہر ناول کے آغاز میں ’’پیش لفظ‘‘ لکھتے تھے اس میں چند ایک پرستاروں کے خطوط یا سوالات بھی مختصراً شامل کر لیتے تھے۔ یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ ایک بار انھوں نے میرا بھیجا گیا سوال بھی پیش لفظ میں شامل کیا اور اس کا جواب بھی دیا۔

آج بھی ہمارے کراچی اور اندون سندھ گھروں میں موجود کتابوں بڑا حصہ مظہر کلیم صاحب کی عمران سیریز کا ہے، اچھے لوگوں کی سب سے بڑی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ دور رہ کر ہی بہت پاس ہوتے ہیں، ایسے ہی لوگوں میں مظہر کلیم بھی شامل ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں یہ ہمارا ذوق مطالعہ بڑھانے میں عمران سیریز نے اہم کردار ادا کیا پھر ساتھ ہی ساتھ بابا کی تربیت کتب بینی، مطالعہ کو جلا بخشتی رہی۔

یہ چند سطریں مظہر کلیم صاحب کے کام کا احاطہ کرنے کے قابل ہیں لیکن میںنے یہ ضروری سمجھا کہ اس شخصیت کے لیے ضرور کچھ لکھا جائے جنہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ہم لوگوں کے لیے لکھنے میںگزارا مظہر کلیم صاحب کے ناولوں میں ہمیں حب الوطنی، ملک دشمنوں سے ہر صورت ٹکرانے، قومی مفادات کے خلاف ہونے والی سرگرمیوں کو روکنے اور اتحاد و اتحاد اتفاق کے ساتھ ملکی ترقی کے لیے کام کرنے کا بھی سبق ملتا ہے جانے کے بعد بھی مظہر کلیم کی کتابیں پڑھنے والوں کے لیے وہ یاد گار تحفہ ہیں جو ہمیشہ موجود رہے گا۔

آخر میں مظہر کلیم صاحب سے یہ ضرور کہوں گا مظہر کلیم صاحب! آ پ چلے گئے ہیں لیکن آہم سب کے پاس ہمارے دلوں میں موجود ہیں آپ کا احترام ہمیشہ رہے گا اور عمران سیریز کے تمام کردار زندہ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ مظہر کلیم صاحب کے درجات بلند کرے (آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔