یہ خونِ خاک نشیناں۔۔۔۔۔۔۔

انوار فطرت  بدھ 8 مئ 2013
انتخابات  سے پہلے، دوران اور بعد میں خون خرابوں کی چند کہانیاں  فوٹو : فائل

انتخابات سے پہلے، دوران اور بعد میں خون خرابوں کی چند کہانیاں فوٹو : فائل

انتخابات سے پہلے ، انتخابات کے دوران اور انتخابات کے بعد فسادات، بلووں، خوں ریزیوں کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔

بہت قدیم ادوار میں تو دنیا کے مختلف مقامات پر بادشاہ کا انتخاب ہی خوں ریزی کے ذریعے ہوتا تھا، بادشاہت یا قبیلے کی سربراہی کے دو امیدوار تلواریں سونت کر ایک دوسرے پر پِل پڑتے تھے، جو زندہ بچتا تھا وہ تاج و تخت کا حق دار سمجھا جاتا تھا۔ مذہبی پیش وا اپنے پیروکاروں کے لیے مقدس ہوتے ہیں لیکن تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں جب خود کو پیش وا ’’منتخب کروانے کے لیے‘‘ دو امیدوار اٹھ کھڑے ہوئے اور نتیجے میں میں دو فرقے بنے جو مدتِ مدید تک ایک دوسرے کا خون بہاتے رہے، اس ذیل میں مشتے از خروارے کے طور پر ایک باکس پیش کیا گیا ہے۔

پاکستان میں بھی انتخابات کے دوران اور بعد خون خرابہ ہوتا رہا ہے لیکن اس بار انتخابات سے قبل ہی بڑے پیمانے پر خون ریزی کا آغاز ہو چکا ہے اور یہ خدشہ اپنے عروج پر ہے کہ یہ سلسلہ انتخابات کے بعد بھی جاری رہے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ رہ نماؤں کو بے گناہ لوگوں کا یہ خون اقتدار میں آنے کے بعد یاد رہتا ہے یا نہیں۔ کیا وہ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ مارے جانے والوں نے یہ خون انہیں اقتدار کی مسند تک پہنچانے کے لیے رزقِ خاک کروایا، یہ سمجھنے کے لیے ’’سیاسی غیرت‘‘ درکار ہوتی ہے۔ ذیل میں دنیا کے مختلف ممالک سے خونیں انتخابات کی چند مثالیں ہیں۔

ابراہم لنکن کا انتخاب
امریکا کا لیجنڈ صدر ابراہم لنکن 1864 میں جب دوسری بار صدر منتخب ہوا تو ریاست ہائے متحدہ خانہ جنگی کی لپیٹ میں آیا ہوا تھا، غلام دار سماج تبدیل ہونے جا رہا تھا۔ شاید ہی کوئی ریاست ہو گی جہاں امن رہا ہوگا۔ بعض ریاستیں (ٹیکساس، ٹینیسی اور ورجینیا) ایسی تھیں جو امریکی اتحاد کے مخالف اور خود مختاری کی حامی تھیں، ان ریاستوں نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تاہم اتحاد کی حامی ریاستوں میں ری پبلیکن ابراہم لنکن نے اپنے ڈیموکریٹ امیدوار جارج لی مک لیلن کو شکست دی اور4 لاکھ پاپولر ووٹ حاصل کیے۔

انہیں 70 فی صد فوجیوں نے بھی ووٹ دیے حال آں کہ ابراہم لنکن کا مخالف جارج ان کا جنرل رہ چکا تھا۔ یاد رہے کہ امریکا کی اس خانہ جنگی کے دوران کوئی 11 لاکھ افراد زخمی ہوئے، کوئی 6 لاکھ ہلاکتیں ہوئیں۔ اس دوران 10 ہزار سے زیادہ جھڑپیں ہوئیں جو 1861 سے 1865 تک جاری رہیں۔

سب سے زیادہ نقصانات جنوبی ریاستوں کو اٹھانا پڑا جنہیں غلام ریاستوں (Slave states) کا نام دیا جاتا تھا۔ یہ ریاستیں امریکی اتحاد سے علیحدہ ہو کر اپنا وفاق قائم کرنے کے حق میں تھیں۔ یہ دوسرے لفظوں میں غلاموں کی جنگ آزادی تھی اور اس میں خارجی عناصر کا ہاتھ نہیں تھا یعنی غلام ریاستوں کو کوئی غیر ملکی مدد حاصل نہیں تھی۔ اس کا الم ناک پہلو یہ ہے کہ صدر ابراہم لنکن تھوڑے ہی عرصے بعد مارا گیا۔

دوسری جنگ عظیم میں برطانوی انتخابات
سلطنت متحدہ یعنی برطانیہ کے وہ عام انتخابات، جن میں سرونسٹن چرچل کو کلیمنٹ ایٹلی کے مقابلے میں بری طرح شکست کا سامنا رہا۔ یہ انتخابات جنگ عظیم دوئم کے اختتام کے فوراً بعد منعقد ہوئے۔ انتخابات 5 جولائی 1945 کو منعقد ہوئے تھے۔ چرچل کنزرویٹو تھے اور ایٹلی لیبرر۔

یہ ایسا دور تھا کہ نہ صرف برطانیہ بل کہ پورا یورپ آثارِ قدیمہ بن کر دنیا کے لیے عبرت کی تصویر بنا ہوا تھا۔ برطانیہ اس جنگ میں چوں کہ ایک طرح سے اتحادیوں کی سربراہی کر رہا تھا لہٰذا یہ نازیوں کا بڑا نشانہ بھی بنا رہا، اس کی معیشت تباہ ہو چکی تھی۔ انگریز نے جو کچھ اپنی کالونیوں اور خاص طور پر ہندوستان سے لوٹا تھا، بھسم ہو کر راکھ ہو چکا تھا۔

امریکی صدر ٹرومین اگر یورپ کے لیے مارشل پلان نہ تیار کرتا تو برطانیہ کی ریڑھ کی ہڈی دوہری ہو چکی تھی۔ اس جنگ میں 6 کروڑ افراد مارے گئے تھے جن میں صرف برطانوی ہند کے تقریباً 16 لاکھ افراد شامل تھے، 60 ہزار برطانوی ہلاک اور 7 لاکھ برطانوی فوجی زخمی یا معذور ہوئے، جرمن فضائیہ کے حملوں نے لندن شہر کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا تھا، ایک اندازے کے مطابق لندن میں 25 ہزار افراد فضائی حملوں کی زد پر آ کر ہلاک ہوئے، المختصر یہ جنگ اگر چند ماہ اور جاری رہتی تو برطانیہ شاید یوں نہ ہوتا، جیسا ہے۔

کینیا (افریقہ)
کینیا مشرقی افریقہ کاملک ہے۔ فروری کے اواخر میں وہاں بھی خوں ریز انتخابات منعقد ہوئے جس کے نتیجے میں قوم دو بڑے گروہوں میں تقسیم ہو گئی۔ انتخابات کے انعقاد سے چند ہی دن قبل صرف ایک ہی واقعہ میں 35 افراد کو زندہ جلا دیا گیا، یہ المیہ کپامیا نامی گاؤں کے ایک گرجا گھر میں رونما ہوا۔ یہ فسادات ہر جاتے دن کے ساتھ بڑھتے رہے۔ فروری کے آخری سوموار کو انتخابات ہونا تھے لیکن حکومت نے صورتِ حال کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور دو بڑے قبائل ایک دوسرے کو تہِ تیغ کرتے رہے، ان میں سے ایک قبیلہ اورما اور دوسرا پوکومو ہے۔ ایک دوسرے پر حملے اس قدر سفاکی سے کیے جا رہے تھے کہ ان میں مرد و زن تو ایک طرف شیر خوار بچوں کا بھی بے دریغ خون بہایا گیا۔ اس سے پانچ برس قبل ہوئے انتخابات کا بھی یہ ہی حال تھا، تب بھی کھلے عام قتل عام کیا گیا تاہم انتخابات نہ اُس بار رکے نہ اِس بار عوام نے ہمت ہاری بل کہ جانوں کے نذرانے دے کر جمہوریت کی مشعل روشن رکھی۔

یہ واضح ہے کہ دونوں قبائل کے درمیان سوائے اس کے اور کوئی وجہ عناد نہیں ہے کہ سیاسی اقتدار حاصل کیا جائے۔ حاصلِ کلام یہ کہ انتخابات سے پہلے گیارہ سیکڑوں سے زیادہ بچے عورتیں اور مرد مارے گئے۔ کینیا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس ملک میں انتخابات اور قبیلہ واریت لازم و ملزوم ہیں اور انتخابی خوں ریزیوں کا یہ سلسلہ ملک میں جمہوریت کے ورود (1992) ہی سے جاری ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کینیا میں سیاست ویاست کوئی نہیں بس قبیلائی منافرت ہے اور بہ درجۂ اتم موجود ہے۔

عراق
عراق میں امریکی افواج کے انخلاء کے بعد اپریل 2013 میں پہلے مقامی انتخابات منعقد ہوئے۔ اس موقع پر ووٹروں نے خوف کی فضاء میں ووٹ ڈالے۔ سکیورٹی اس قدر سخت رکھی گئی کہ ووٹروں کی ایک بڑی تعداد نے پولنگ سٹیشنوں کا رخ ہی نہیں کیا۔ اس دوران بغداد، حِلّہ، فلوجہ، ناصریہ اور تکریت میں فائرنگ معمول بنی رہی اور اس کے ساتھ ہی کار بم دھماکے بھی بہت ہوئے۔ یہ بلدیاتی انتخابات ایک طرح سے عراق کا امتحان بھی تھے کہ وہ اپنے طور پر خود کو سنبھالنے میں کام یاب رہتا ہے یا ناکام تاہم اس امتحان پر نظر رکھنے والے خود ہی اس بدنصیب ملک میں نفاق کا بیج بو کر گئے ہیں۔

جو اس وقت شیعہ سنی مسلمانوں کے درمیان عقیدے کی جنگ بن کر نمودار ہو رہا ہے اور ایک جعلی نام القاعدہ سامنے لا کر بار بار سارا نزلہ اسی پر گرایا جا رہا ہے۔ صوبۂ بابل کے دارالحکومت میں ایمرجنسی بھی نافذ رہی۔ عراق کی 7 لاکھ پر مشتمل فوج اور پولیس نے ایک ہفتے پہلے ہی اپنے ووٹ ڈال لیے تھے تاکہ انتخابات کے روز بلا اضطراب اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ بلووں کے خدشے کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نوری کمال المالکی کی کابینہ نے انبار اور نینوہ میں انتخابات مؤخر کر دیے تھے۔ یہ دونوں صوبے سنی العقیدہ مسلمانوں کے ہیں۔ واضح رہے کہ عراق کے جہادیوں کے النصرہ فرنٹ کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ شام میں بشارالاسد کا تختہ الٹنے کے لیے بھی سرگرم ہے۔

وینزویلا
وینزوئیلا کے قابل قدر سربراہ ہیوگو شاویز کے انتقال کے بعد وہاں امریکا نے ایک بار پھر گھسنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں امریکی ٹوڈی ہنریک کیپرائلز ریڈنسکی ہے جو سیاست دان کم اور گینگسٹر زیادہ ہے اسی لیے اس کی شہرت ایک تشدد پسند سیاست دان کی ہے۔ اس کے تمام تر اخراجات امریکا اٹھاتا ہے۔ وینزوئیلا میں 14 اپریل کو صدارتی انتخابات منعقد ہوئے تھے۔ شاویز کے انتقال کے بعد عبوری صدارت نکولس مادورو نے سنبھالی اور وہی ان انتخابات میں جیتے بھی تاہم ان کے مدمقابل روڈنسکی نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

ان انتخابات کے موقع پر اقوام متحدہ، یورپی کمیشن اور جمی کارٹر سینٹر کے کوئی ایک سو سے زیادہ مبصرین وینزوئیلا میں موجود تھے اور انہوں نے تصدیق کی کہ انتخابات کے دوران کیپرائلز کے گینگ کے غنڈے دارالحکومت اورمختلف شہروں میں لفڑے کرتے رہے اور خاص طور پر سوشلسٹ ووٹروں، سیاسی کارکنوں، صحت کے مراکز، کم آمدنی والوں کی بستیوں اور کیوبا کے ڈاکٹروں اور نرسوں کو زد پر لیتے رہے۔ ہر چند قتل مقاتلوں کی تعداد بہت کم رہی تاہم ووٹروں کو خوف زدہ کیے رکھا گیا جس کی وجہ سے اس صدارتی انتخاب میں ٹرن آؤٹ کم رہا اور صدر نکولس مادورو بہت کم مارجن سے جیتے۔

شام میں ریفرنڈم
شام پر گزشتہ نصف صدی سے واحد پارٹی مسلط ہے۔ کوئی شک نہیں کہ لوگ ایک ہی پارٹی اور خاص طور پر ایک ہی خاندان کا اقتدار دیکھتے دیکھتے بے زار ہو چکے ہیں اور لامحالہ تبدیلی مانگتے ہیں۔ آغاز میں تیونس اور ہم سائے میں مصر وغیرہ میں تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے شامیوں نے بھی حوصلہ پایا اور حکومت کے خلاف چھوٹے ہوئے مظاہرے شروع کر دیے لیکن چوں کہ عالمی سطح پر شام کا جرم کچھ زیادہ ہی ’’ہول ناک‘‘ قرار پاتا ہے یعنی وہ خطے میں اسرائیل کے استعمار کو تسلیم نہیں کر پا رہا لہٰذا فضاء سازگار پا کر یہاں بیرونی عناصر نے صورت حال کو بڑی کام یابی کے ساتھ اپنے حق میں استوار کر لیا اور صورت حال کو بد سے بدتر کر دیا۔ اب بہ ظاہر محسوس یوں ہوتا ہے کہ صدر بشارالاسد اپنا ’’تخت‘‘ بچا نہیں پائیں گے لیکن وہ کسی نہ کسی طور بہ ہرحال ڈٹے ہوئے ہیں۔

ملک میں خانہ جنگی کی صورت حال اپنی پوری شد و مد کے ساتھ شروع ہو چکی ہے۔ بعض علاقوں پر باغیوں نے اپنا تسلط بھی قائم کر لیا ہے جن کے خلاف مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق شامی فضائیہ بھی کارروائیاں کر رہی ہے۔ مختصر یہ کہ شام کے حالات آسانی سے قابو میں آنے والے نہیں ہیں۔ اس دوران صدر بشارالاسد نے گزشتہ سال ایک نیا آئین مرتب کروایا اور اس کی منظوری کے لیے ملک بھر میں انتخاب (ریفرینڈم) منعقد کروایا۔ یہ ریفرینڈم 26 فروری 2012 کو منعقد ہوا۔

نئے آئین میں ملک میں موجود یک جماعتی نظام کو ختم کرکے ایک کثیر الجماعتی سیاسی نظام نافذ کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ اس میں یہ شق بھی رکھی گئی کہ صدر کے عہدے کے لیے ایک شخصیت صرف دو بار منتخب ہو سکتی ہے اور اس کی ایک ٹرم سات سال پر محیط ہو گی تاہم یہ شق 2014 کے صدارتی انتخابات کے بعد نافذ العمل ہو گی۔ ریفرینڈم کے لیے 14 ہزار پولنگ سٹیشن قائم کیے گئے۔ شام میں ووٹروں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ ہے۔

اس انتخاب میں مسلمان شامیوں نے ناسازگار ماحول کے باوجود حیرت انگیز طور پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تاہم اس آئین کی ایک شق کے مطابق ملک کا صدر بہ ہرحال مسلمان ہو گا، جس کی وجہ سے شام کی دس فی صد اقلیتی آبادی اس کی مخالف رہی۔ اس کے باوجود قریب قریب 75 لاکھ افراد نے اس آئین کے حق میں ووٹ ڈالا جو کل ووٹروں کی تعداد کا 89.42 فی صد حصہ بنتا ہے، آئین کی مخالفت میں لگ بھگ ساڑھے سات لاکھ ووٹ پڑے۔ ووٹنگ کے دوران دمشق سمیت ملک کے دوسرے علاقوں میں خون خرابہ جاری رہا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔