خلائی ترقی ملکی استحکام کےلیے ضروری

بھارتی فوج کو 13 ملکی ساختہ جاسوس سیارچوں کی مدد حاصل ہے لیکن پاک فوج کے پاس ایسا ایک بھی سیارچہ نہیں


پاکستان کو بھی اپنی خلائی ترقی کےلیے صرف چین پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنے ملک کے سائنسدانوں اور انجینئروں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ان کی استعداد کار میں بھی اضافہ کرناچاہیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ISLAMABAD: اپریل 1986 میں پاکستان کے جاوید میاں داد نے شارجہ کپ فائنل میں 116 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی۔ یہ میچ اس وقت دلچسپ موڑ پر آن پہنچا تھا کہ جب میچ کی آخری گیند پر چار رنز درکار تھے اور میاں داد نے چھکا لگا کر ہندوستان کو شکست فاش دی۔ جب اس منظر کو پہلی بار براہ راست ہمارے گاؤں کی اکلوتی ٹیلی ویژن اسکرین پر براہ راست دیکھا گیا تو لوگوں کی خوشی کے بجائے حیرت دیدنی تھی۔ گاؤں میں پہلی بار ریڈیو پر کمنٹری کے دوران سنی جانے والی گیند کی ''ٹک'' کی آواز کے ساتھ ساتھ حرکت کرتے کھلاڑیوں کو بھی دیکھا گیا۔ ایسا اس لیے ممکن ہوا کہ خلاء میں موجود مصنوعی سیارچے نے برقناطیسی لہروں کی مدد سے یہ منظر سیکڑوں میل دور دراز کے گاؤں کی ٹیلی ویژن اسکرین تک پہنچایا۔

پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے اب تک ہندوستان نے اسے دل سے تسلیم نہیں کیا اور اس ازلی مخامصت کی وجہ سے نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان کئی جنگیں بھی ہوچکی ہیں بلکہ آئے روز سرحد پر گولہ باری بھی جاری رہتی ہے۔ ہندوستان نے پاکستان اور ہمسایہ ممالک پر دھونس جمانے اور اپنی اجارہ داری قائم کرنے کےلیے سائنس اور ٹیکنالوجی، خاص کر خلائی ترقی پر بہت توجہ دی ہے۔ آئیے میں آپ کو پاکستان اور ہندوستان کی خلائی دوڑ کا کچھ احوال سناتا ہوں۔

پاکستان کا خلائی تحقیقی ادارہ ''سپارکو'' 1961 میں قائم ہوا اور تقریبا 57 سال گزرنے کے بعد بھی اس کے پاس صرف ایک مصنوعی سیارچہ ہے جو صرف مواصلات سے متعلقہ امور سر انجام دیتا ہے۔ گزشتہ ماہ دو مزید سیارچے بھی چین کی مدد سے خلاء میں بھیجے گئے ہیں جبکہ ہندوستان کا خلائی تحقیقی ادارہ اس سے عمر میں ایک سال چھوٹا ہے مگر خلاء میں اس کے تقریباً 36 مصنوعی سیارچے محوِ گردش ہیں جو زمینی و خلائی مشاہدات، موسمیات و مواصلاتی رابطے اور زمیں پر جگہ کے درست تعین جیسے اہم امور کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔

پاکستان نے ملک میں تیار کردہ پہلا خلائی سیارچہ بدر اوّل 1990 میں، چین نے اپنا اوّلین سیارچہ ''ڈونگ فینگ ہانگ ون'' 1970 میں جبکہ ہندوستان نے ''آریہ بھٹا'' نامی اپنا پہلا سیارچہ 1975 میں خلاء میں بھیجا۔ چین اپنی سرزمین سے خلاء میں تقر یباً 280 مشن خلاء میں بھیج چکا ہے جبکہ ہندوستان نے اب تک 164 مشن بھیجے ہیں۔ پاکستان اس دوڑ میں کہیں پیچھے ہے۔ ہندوستان کے کل 88 سیارچے، چین کے 300 سے زائد، امریکہ کے 1600 سے زائد سیارچے زمین کے مدار میں بھیجے گئے ہیں۔ امریکہ اور روس کی طرح اب ہندوستان اور چین بھی اپنے مشن کامیابی سے چاند پر بھیج چکے ہیں، بلکہ ہندوستان تو انتہائی کم لاگت سے مریخ پر بھی اپنا مشن ''منگلیان'' بھیجنے میں کامیاب ہوا ہے۔ چین تو اپنا ایک خلاء نورد بھی کامیابی سے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر اتار چکا ہے۔

پاکستان نے ملکی ساختہ تجرباتی سیارچہ بدر اوّل 1990 میں جبکہ بدر بی 2001 میں خلاء میں بھیجے ہیں۔ دونوں سیارچے ہی خاطر خواہ نتائج فراہم نہیں کرسکے اور کچھ عرصے بعد ہی خلاء کی وسعتوں میں گم ہوگئے۔ تعلیمی ادارہ برائے خلائی ٹیکنالوجی کے اساتذہ اور طلبا نے ''آئی کیوب'' نامی چھوٹا تجرباتی خلائی سیارچہ (تقریباً 1 کلوگرام وزنی) 2013 میں کامیابی سے نچلے خلائی مدار میں بھیجا جو صرف ایک مخصوص پیغام نشر کرتا ہے، جسے وی ایچ ایف کی مخصوص فریکوئنسی (تعدّد) پر سنا جاتا رہا ہے۔ حال ہی میں پاکستان نے چین کے تعاون سے ''پی آر ایس ایس ون'' (1200 کلوگرام) اور ''پاک سیٹ ون'' (285 کلوگرام) نامی دو خلائی سیارچے نچلے مدار میں بھیجے ہیں جن میں سے ایک خاص طور پر پاکستانی سائنسدانوں نے اپنے وسائل سے تیار کیا ہے۔ ان سیارچوں کو زمینی مشاہدات، بالخصوص قدرتی آفات، سی پیک، ماحولیات، نقشہ سازی، زراعت اور منصوبہ بندی جیسے مختلف اہم قومی اُمور کی بجا آوری میں استعمال کیا جاسکے گا۔

یہ منصوبہ پاکستان میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس سے پاکستانی ماہرین، منصوبہ سازوں اور سائنسدانوں کی استعداد میں اضافہ ہوگا اور ملکی ساختہ سیاروں سے حاصل شدہ مستند، کم خرچ اور تیز ترین معلومات تک رسائی ممکن ہوسکے گی۔ پاکستانی خلائی ادارہ سپارکو اور ملکی ماہرین اس سے قبل کلیدی طور پر فرانس کے سیارچے ''اسپاٹ'' اور بعض امریکی سیارچوں پر انحصار کرتے تھے جس سے کثیر زر مبادلہ بیرون ملک صرف ہوجاتا تھا اور دوسروں کی محتاجی الگ سے تھی۔

ہندوستانی افواج کو زمینی مشاہدات اور دشمن پر نظر رکھنے کےلیے ملکی ساختہ 13 مصنوعی سیارچوں کی مدد حاصل ہے جبکہ پاکستانی افواج کے پاس اس معیار کا ایک بھی سیارچہ موجود نہیں۔ پاکستان اپنی دفاعی ضروریات کےلیے فرانس کے مصنوعی سیارچے پر انحصار کرتا رہا ہے جبکہ یہ سیارچہ بھی ہندوستان کے لانچنگ راکٹ سے خلاء میں بھیجا گیا تھا۔ ہندوستان کا سیارچہ ''کارٹو سیٹ'' 2005 سے ہمسایہ ممالک کی سر زمین پر موجود ایک میٹر سے بھی چھوٹی جسامت والی چیزوں کو بہ آسانی دیکھ رہا ہے اور یوں ہندوستان اپنے پڑوسیوں کی مسلسل جاسوسی کرنے میں مصروف ہے۔ بات صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ ہندوستان کسی بھی ملک کے سیارچے کو خلاء ہی میں تباہ کرنے کی صلاحیت بھی حاصل کرچکا ہے۔

ہندوستان نے نہ صرف اپنے سیارچے بلکہ اپنے لانچنگ راکٹ سے 28 ملکوں کے تقریباً 237 مصنوعی سیارچے خلاء میں بھیجے ہیں۔

ہندوستان پر انحصار کرنے والے ممالک میں امریکا، برطانیہ، فرانس، جاپان اور کینیڈا کے علاوہ اور بہت سے ممالک شامل ہیں۔ فروری 2017 میں ہندوستانی خلائی ادارے نے اپنے ایک ہی لانچنگ راکٹ سے 104 مصنوعی سیارچے خلاء میں بھیج کر ایک ریکارڈ قائم کیا تھا۔ ہمارا دوسرا بڑا ہمسایہ ملک چین اس دوڑ میں ہم سے کہیں آگے ہے۔

2000 سے قبل اندرونِ ملک اور بیرونی دنیا میں ٹیلی ویژن نشریات کےلیے پاکستان میں صرف ایک ہی سرکاری چینل تھا جو خبروں، معلومات اور سماجی مسائل میں ہندوستان کی ثقافتی یلغار کا مقابلہ نہیں کر پارہا تھا۔ لہذا 2003 میں پاکستان نے پاک سیٹ ون نامی نشریاتی سیارچہ امریکی کمپنی ''بوئنگ'' سے ٹھیکے پر لے کر ملک میں ٹیلی وائزڈ میڈیا انڈسٹری کی بنیاد رکھی۔ 2011 میں ٹھیکے والے سیارچے کی جگہ پاکستان نے چین کے ساتھ مل کر اپنا سیارچہ ''پاک سیٹ ون آر'' خلاء میں بھیجا جس کی مدد سے اب ڈان نیوز، جیو، سماء اور پی ٹی وی کے علاوہ 68 دیگرچینل اپنی نشریات ملک کے طول و عرض میں بیرون ممالک نشر کررہے ہیں۔

''ڈائریکٹ ٹو ہوم'' ایک ایسی تکنیک ہے جس میں نشریاتی سیارچہ ٹیلی ویژن کی نشریات ایک ڈش انٹینا کے ذریعے گھر گھر پہنچاتا ہے۔ ڈائریکٹ ٹو ہوم تکنیک میں ہر ماہ موبائل فون کی طرح کارڈ لوڈ کرنا پڑتا ہے۔ ہندوستان کے خلائی سیارچے اس تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے دور دراز علاقوں میں اپنی ٹیلی ویژن نشریات پہنچا رہے ہیں جس کے عوض نہ صرف وہ قیمتی زرمبادلہ کما رہے ہیں بلکہ اپنے ملک کی ثقافت اور منفی پروپیگنڈا بھی سادہ لوح پاکستانی عوام تک بہ آسانی پہنچا رہا ہے۔ حالانکہ اس تکنیک کےلیے پاکستان کے پاس اپنا مصنوعی سیارچہ اور باقی ضروری ساز و سامان موجود ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے 2016 سے 3 کمپنیوں کو تقریباً 15 ارب روپے کے عوض اس کام کا لائسنس بھی جاری کر رکھا ہے مگر بدقسمتی سے دو سال گزرنے کے بعد بھی پاکستان میں ڈائریکٹ ٹو ہوم کی سہولت میسر نہیں آسکی ہے۔

خلاء سے زمین پر جگہ کے تعین کا نظام گاڑیوں، ہوائی جہازوں اور عوام الناس کو اپنی منزل تک رسائی کےلیے ٹھیک ٹھیک معلومات فراہم کرتا ہے۔ اس نظام کے ذریعے دشمن کے اہداف کو بھی درست نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے امریکا نے بغیر پائلٹ کے طیاروں (یو اے ویز/ ڈرونز) کا استعمال کرکے کئی ناممکن اہداف حاصل کیے ہیں۔ ہندوستان کے پاس اس نظام کےلیے مختص آٹھ سیارچے ہیں جن سے وہ بنیادی طور پر فضائی نقل و حرکت (ایئر ٹریفک) اور دفاعی امور کی دیکھ بھال کرتا ہے جبکہ پاکستان نے حال ہی میں امریکی نظام کو چھوڑ کر چین کے ''بیڈو'' نامی نظام کو اس مقصد کےلیے اپنالیا ہے۔

پاکستان 1960 کی دہائی میں ایشیا کے تین اور دنیا کے ان دس ممالک کی فہرست میں شامل تھا جنہوں نے کامیابی سے اپنے راکٹ خلاء میں بھیجے تھے۔ پاکستان نے یہ کامیابی ''رہبر اوّل'' نامی صوتی راکٹ (ساؤنڈنگ راکٹ) کو خلاء میں بھیج کر حاصل کی تھی۔ پاکستان کے پاس شاہین، غوری، نصر اور ابابیل کی صورت میں دنیا کی بہترین میزائل ٹیکنالوجی موجود ہے جسے تھوڑی سی تبدیلیوں کے بعد لانچنگ راکٹ کی صورت میں خلاء کی وسعتوں کو مسخر کرنے کےلیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح نہ صرف پاکستان کا بیرونی دنیا پر انحصار کم ہو گا بلکہ اس سے کثیر زرمبادلہ بھی کمایا جاسکتا ہے۔

ہندوستان نے اپنا خلائی پروگرام روس کی مدد سے شروع کیا تھا لیکن مناسب حکمت عملی اور توجہ کی بدولت آج ہندوستان روس سے بھی کہیں آگے نکل رہا ہے۔ پاکستان کو بھی اپنی خلائی ترقی کےلیے صرف چین پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنے ملک کے سائنسدانوں اور انجینئروں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ان کی استعداد کار میں بھی اضافہ کرناچاہیے۔ اگر ان خطوط پر سنجیدگی سے اور مصمم ارادوں کے ساتھ پیش رفت کی جائے تو ان شاء اللہ، وہ دن دور نہیں جب پاکستان ایٹمی طاقت کے علاوہ خلاء کی وسعتوں میں بھی اپنا لوہا منوا سکے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں