غربت نے غریب کے ہاتھوں ہی غریب مروا دیئے

نور محمد سومرو  اتوار 9 ستمبر 2018
2 رکشہ ڈرائیور نوجوانوں کو انہی کے ساتھیوں نے نئے رکشہ کی ہوس میں مار ڈالا۔ فوٹو: ایکسپریس

2 رکشہ ڈرائیور نوجوانوں کو انہی کے ساتھیوں نے نئے رکشہ کی ہوس میں مار ڈالا۔ فوٹو: ایکسپریس

رحیم یار خان: آنکھوں پر چڑھی لالچ کی پٹی بعض اوقات انسان کو انسانیت سے ہی گرا دیتی ہے اور وہ رشتے ناطے بھول کر تمام اخلاقی و قانونی حدیں پار کر جاتا ہے۔

اسی لالچ نے رحیم یار خان کے دو سفاک نوجوانوں کو ایسا اندھا کیا کہ انہوں نے نہ صرف دو معصوم نوجوانوں کو قتل کر دیا بلکہ ان کی نعشوں کو منوں مٹی میں دبا کر وہ تو چین کی بانسری بجاتے رہے، لیکن مقتولین کے والدین‘ دوست احباب اور عزیز و اقارب تھانوں میں گمشدگی کی رپورٹ درج کرا کر ان کی تلاش میں دھکے کھاتے رہے کہ اسی دوران اچانک بے گناہوں کا خون بول اٹھا اور پولیس نے اندھے قتل کی دونوں وارداتوں کا سراغ لگاتے ہوئے درندہ صفت ملزمان کو قانون کے شکنجے میں لے لیا۔ گرفتاری پر انکشاف ہوا کہ ملزمان جو خود بھی رکشہ ڈرائیور تھے نے اپنے ایسے ساتھی دو رکشہ ڈرائیوروں کو قتل کیا جن کے پاس نئے ماڈل کے موٹر سائیکل رکشے تھے۔

درندگی کی پہلی واردات رحیم یار خان کے گلشن اقبال سے ملحقہ آبادی بستی کھوکھراں کے صادق پور کے رہائشی جہانگیر کھوکھر کے 16 سالہ بیٹے نعمان کھوکھر کے ساتھ ہوئی۔ جہانگیر کھوکھر نے نے اپنے بیٹے نعمان کو نئے ماڈل کا موٹر سائیکل رکشہ قسطوں پر لے کر دیا تاکہ نعمان کام کر کے گھر کا بوجھ بانٹ لے اور وہ اپنی زندگی کے آخری ایام اور بڑھاپا سکون سے گزار سکے، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 26 جون 2018ء کو نعمان کھوکھر گھر سے کام پر گیا اور واپس نہ آیا۔

جہانگیر کھوکھر نے تھانہ صدر رحیم یار خان میں بیٹے کی گمشدگی کی رپورٹ لکھواتے ہوئے خود بھی تلاش شروع کر دی۔ تلاش کے باوجود نعمان ملا نہ اس کا رکشہ کہیں نظر آیا۔ مجبور باپ تھانے جاتا تو پولیس اہلکار اسے طفل تسلی دیکر گھر واپس بھجوا دیتے جبکہ بعض اہلکار اس کی غربت کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے کہ تمہارا لڑکا جوان ہے کہیں کمانے گیا ہوگا‘ ہو سکتا ہے کسی کی لڑکی بھگا کر لے گیا ہو وغیرہ وغیرہ‘ مجبور باپ سب کی سن کر پھر رات کو ٹوٹی چارپائی پر کھلے آسمان تلے آ کر سو جاتا، تاہم 8 روز بعد اس کا بیٹا نعش کی صورت میں ویرانے میں پڑا ہوا مل گیا۔

نوجوان بیٹے کی نعش دیکھ کر اس پر غشی کے دورے پڑتے‘ بیٹے سے لپٹ کر رونا چاہتا مگر بیٹے کی گلی سڑی اور بدبودار نعش مجبور باپ اور اولاد کی محبت کے درمیان رکاوٹ بن جاتی۔ نعش ملنے کے بعد پولیس بھی حرکت میں آئی اور مقدمہ درج کر کے قتل کے شبے میں تین چار مقامی افراد کو اٹھا کر حوالات میں بند کر دیا۔ ادھر دو ماہ سے حوالات میں بند ملزمان اپنی بے گناہی کا رونا رو رہے تھے کہ اسی دوران 16 اگست 2018ء کو جناح پارک گلی نمبر10 کا 19 سالہ نوجوان محمد شہباز ولد شبیر احمد حجانہ بھی اپنے نئے ماڈل کے موٹر سائیکل رکشہ سمیت لاپتہ ہو گیا۔

مقتول شہباز کے والد کی درخواست پر تھانہ بی ڈویژن اور سی ڈویژن پولیس کارروائی کے بجائے حدود کا تعین کرتی رہی کہ محمد شہباز کہاں سے لاپتہ ہوا ہوگا بالآخر تھانہ بی ڈویژن پولیس نے اپنی جان بچاتے ہوئے شہباز کی گمشدگی کا کیس تھانہ سی ڈویژن کو سونپ دیا۔ اس دوران واقعہ کا علم ڈی پی او رانا اطہر وحید کو ہوا تو انہوں نے ڈی ایس پی سٹی سید جمشید علی شاہ کو شہباز کی تلاش کا ٹاسک دے دیا جس پر ہومی سائیڈ انچارج تھانہ اے ڈویژن امان اللہ وڑائچ‘ ایس آئی ملک وزیر احمد‘ غلام عباس خان‘ کانسٹیبل رانا احسان‘ خاور چیمہ اور چودھری محمد امجد پر مشتمل ٹیم نے شہباز کی تلاش شروع کرتے ہوئے شبہ میں اس کے ساتھی رکشہ ڈرائیور عبدالجبار آرائیں کو حراست میں لے کر پولیس تفتیش شروع کی تو ملزم نے نہ صرف شہباز کے قتل کا اعتراف کر لیا بلکہ اس نے انکشاف کیا کہ نعمان کھوکھر کا قتل بھی اس نے کیا ہے اور وارداتوں میں دوسرا ملزم عثمان علی بھی اس کے ساتھ شامل رہا ہے۔ ڈی ایس پی سٹی سید جمشید شاہ نے پریس کانفرنس میں میڈیا کو بتایا کہ ملزمان نے دونوں قتل رکشہ چھیننے کے لئے کئے۔ ملزمان کی آنکھوں پر نہ صرف لالچ کی پٹی چڑھی ہوئی تھی بلکہ وہ غیر اخلاقی سرگرمیوں میں بھی ملوث ہیں۔ ملزمان سے مقتولین کے چھینے گئے دونوں رکشے بھی برآمد ہو چکے ہیں اور انہوں نے اقبال جرم بھی کر لیا ہے۔

وارداتوں کا افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ غریب رکشہ ڈرائیورز نے اپنے ہی جیسے غریب رکشہ ڈرائیوروں کو قتل کر کے مقتولین سمیت اپنے محنت کش والدین کو بھی زندگی بھر کا دکھ دے دیا۔ دونوں مقتولین منوں مٹی تلے جا سوئے اور دونوں قاتل جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ گئے۔

یوں ان چاروں کے والدین کو زندگی بھر اولاد کا دکھ جھیلنا ہوگا‘ مگر اس واقعہ میں ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ بے گناہ کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا اور خون اس طرح بولتا ہے کہ دو ماہ میں ٹریس نہ ہونے والی قتل کی اندھی واردات بھی محض دو گھنٹوں میں ٹریس ہو جاتی ہے۔ مقتول نعمان کھوکھر کا خون شاید رائیگاں چلا جاتا اور بے گناہ افراد پھانسی چڑھ جاتے اور شاید کئی اور بھی بے گناہ رکشہ ڈرائیور موت کے منہ میں چلے جاتے کہ محمد شہباز حجانہ نے اپنی جان اور خون کا نذرانہ دے کر ان سب بے گناہوں کو بچا لیا اور سفاک قاتلوں کا چہرہ بے نقاب ہو گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔