زرداری صاحب نے واپسی میں بہت دیر کر دی
ن لیگ کو شاید اب زرداری میں کوئی دلچسپی نہیں۔
پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں یہ سوال پھر اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ کیا ن لیگ اور پی پی پی اکٹھے چلنے کی کوئی راہ نکال سکتی ہیں ۔ گو کہ سابق صدر آصف زرداری نے ایک مرتبہ پھر اپوزیشن کے متحد ہونے اور حکومت کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اپوزیشن کے متحد ہونے کے حوالہ سے خدشات اور تحفظات اپنی جگہ موجود ہیں۔
ایک عمومی رائے یہ ہے کہ اپوزیشن کی طرف لوٹنے میں آصف زرداری نے بہت دیر کر دی ہے۔ اب بہت نقصان ہو چکا ہے۔ اس لیے اب ان کا اپوزیشن کی طرف لوٹنا کوئی خاص سود مند نہیں ہو گا۔
دوسری رائے یہ ہے کہ آصف زرداری ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ایک ڈبل گیم کر رہے ہیں۔ وہ دراصل دوسری طرف یہ اشارے دے رہے ہیں کہ اگر ان کو چھیڑ ا گیا تو وہ اپوزیشن کے ساتھ چلے جائیں گے۔ لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ آصف زرداری نے اس ملک میں سول بالادستی قائم کرنے کے سنہرے مواقع ضایع کر دیے ہیں۔ بے شک ان کے ن لیگ سے گلے شکوے بہت جائز تھے لیکن پھر بھی ملک میں سول بالادستی کے لیے آصف زرداری نے تاریخی مواقع گنوا دیے ہیں۔
نواز شریف کی نا اہلی کے بعد جب ن لیگ ملک میں سول بالادستی کے لیے آئینی ترامیم کے لیے تیار تھی تب آصف زرداری نے اپنے چھوٹے چھوٹے گلے شکوؤں کو بہانہ بنا کر ن لیگ کے لیے تمام راستے بند کر دیے ہیں۔ اگر اس موقع پر ملک میں سول بالادستی پارلیمنٹ کی بالادستی اور نیب قوانین میں ترامیم کے لیے آئینی ترامیم کر لی جاتیں تو آج صورتحال بہت مختلف ہوتی۔ لیکن آصف زرداری اس وقت نادیدہ قوتوں کے ٹریپ کا شکار ہو گئے۔
یہ بھی درست ہے کہ جب زرداری نے اسلام آباد میں تاریخی تقریر کی تھی تب ن لیگ نے زرداری کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ جس کی وجہ سے زرداری کو فوری طور پر جلا وطنی اختیار کرنی پڑگئی تھی۔ سندھ میں وزیر اعلیٰ تبدیل کرنا پڑا۔ اگر اس وقت ن لیگ زرداری کا ساتھ دے دیتی ملک میں سول بالادستی کا خواب پورا ہو سکتا تھا۔ تب ن لیگ نے موقع کھو دیا۔ ن لیگ کو اپنی حکومت بچانے کی فکر تھی۔ تب ن لیگ کو یہ احساس نہیں تھا کہ زرداری کے بعد ان کی باری ہے۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ مقتدر قوتوں نے جونہی یہ طے کیا کہ پہلے نواز شریف کی باری ہو گی تو زرداری کو عارضی طور پر محفوظ راستہ دے دیا گیا۔ اس طرح دونوں نے برابر غلطی کی ہے۔
نواز شریف کی باری کے بعد یہ بات زبان زد عام تھی اور خود پی پی پی کے ذمے داران بھی کہہ رہے تھے کہ آصف زرداری نے اس بار سیاسی جماعتوں کے بجائے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وہ نواز شریف کی طرح لڑ کر تباہ نہیں ہونا چاہتے۔انھوں نے ایک محفوظ راستے کی آپشن استعمال کی ہے۔سب زرداری کی فہم و فراست عقل و دانش اور سیاسی بصیرت کی داد دے رہے تھے۔
سب یہی کہہ رہے تھے کہ آصف زرداری اور اسٹبلشمنٹ کی اسی دوستی کی بنیاد پر سندھ میں پی پی پی کے لیے راستہ ہموار کر دیا گیا ہے۔ ورنہ جس طرح پنجاب میں ن لیگ کا راستہ روکا گیا تھا اسی طرح سندھ میں پی پی پی کا راستہ روکنے کا پلان بھی موجود تھا۔ سنجرانی کو لانے پر بھی سب کا خیال تھا کہ زرداری اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان مفاہمت اور اکٹھے چلنے کے رشتے مضبوط ہو گئے ہیں۔ ایک عموی رائے تھی کہ زرداری نے پی پی پی اور بلاول کے لیے راستے صاف کر دیے ہیں۔ بس اس سے اگلا الیکشن پی پی پی کا ہے۔
دوسری طرف پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگار بار بار خبردار کر رہے تھے کہ آصف زرداری کی اگلی باری ہے۔ زرداری نواز شریف کی تباہی پر اتنے خوش نہ ہوں۔ اگلے باری ان کی ہے۔ سب کا یہی تجزیہ تھا کہ یہ محبتیں یہ اتحاد اور یہ مفاہمت سب عارضی ہے۔ اسٹبلشمنٹ پہلے نواز شریف کا شکار کرے گی ۔ پہلے ن لیگ کو باہر نکالے گی اس کے بعد زرداری کی باری ہے۔
لوگ زرداری صاحب کو سمجھا رہے تھے کہ دشمن مرے خوشی نہ کرو سجنا وی مرجانا ہے۔ لیکن آصف زرداری نے اس طرف دھیان نہیں دیا۔ انھوںنے ہر وہ کام کیا جو ان کو کہا گیا۔ پہلے نواز شریف کے ساتھ آئینی ترامیم کرنے کا سنہری موقع کھو دیا۔ بعد میں انتخابات سے قبل پری پول دھاندلی پر تعاون سے انکار کر دیا۔ انتخابات کے بعد جب اپوزیشن دھاندلی کی بنا پر حلف نہ اٹھانے کا فیصلہ کر رہی تھی تو زرداری صاحب نے یکطرفہ اعلان کر دیا کہ پی پی پی حلف اٹھائے گی۔
اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنسوں میں شرکت نہ کر کے انھوں نے دھاندلی کے غبارے کو ٹھس کر دیا۔ وزارت عظمیٰ اور صدارتی انتخابات میں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا کر انھوں نے تحریک انصاف کی کمزور حکومت کو مضبوط کر دیا۔ پنجاب میں ن لیگ سے فاصلے رکھنے نے تحریک انصاف کو پنجاب میں حکومت بنانے میں مدد دے دی۔ ورنہ اگر زرداری صاحب پہلے دن ن لیگ کی حمایت کا اعلان کر دیتے تو منظر نامہ ہی بدل جاتا۔
لیکن ان سب خدمات کے باوجود ایسا لگ رہا ہے کہ زرداری صاحب اپنے لیے محفوظ راستہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ روز بروز ان کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ ان کو مائنس کرنے کے اسکرپٹ پر کام ہو رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اتنی خدمات کے باوجود ان کی جان بخشی نہیں ہو رہی۔ اور نواز زرداری مائنس کرنے کے فارمولے پر یک سوئی سے کام جاری ہے۔
کون جانتا تھا کہ جب ن لیگ پر منی لانڈرنگ کا الزام لگتا تھا تو دراصل نشانہ پر زرداری صاحب تھے۔ جب یہ کہا جاتا تھا کہ ن لیگ کی حکومت میں روزانہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ ہو رہی ہے تو نشانہ پر اومنی گروپ تھا۔ کون انور مجید کو جانتا تھا۔ کس کو اتنے بے نامی اکاؤنٹس کا پتہ تھا۔ بیچاری ن لیگ تو ایسے ہی بدنام ہو رہی تھی۔ ایسے میں شاید زرداری صاحب خود کو محفوظ تصور کر رہے ہونگے۔ لیکن ان کی یہ تمام خوشیاں عارضی ثابت ہو گئی ہیں۔
آج زرداری صاحب کے پاس بلا شبہ سندھ کی حکومت ہے۔ لیکن شاید وہ یہ بھول گئے کہ ان کے پاس تو ایک حکومت ہے نواز شریف کے پاس تو پانچ حکومتیں تھیں۔ مرکز کی حکومت تھی۔ پنجاب کی حکومت تھی۔
گلگت بلتستان آزاد کشمیر کی حکومتیں اور بلوچستان کی حکومت لیکن ان سب حکومتوں کے باوجود وہ ہار گئے۔ ایسے میں ایک اکیلی سندھ کی حکومت زرداری صاحب کا کیا تحفظ کر سکے گی۔جیسے قائد حزب اختلاف کا عہدہ شہباز شریف کا تحفظ نہیں کر سکا۔ اسی طرح زرداری صاحب نے تحفظ کی جتنی بھی ضمانتیں حاصل کی تھیں سب فضول ثابت ہو رہی ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کا باہر آنا بھی بے معنی ثابت ہو گیا ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ زرداری صاحب بند گلی میں پہنچ گئے ہیں۔شاید اب ان کی باری ہے۔ ایسے میں اگر اب ان کا خیال ہے کہ وہ اپوزیشن کا اتحاد بنا کر خود کو بچا لیں گے ممکن نظر نہیں آتا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ن لیگ زرداری کے ساتھ جائے گی۔ شائد ممکن نہیں۔ ن لیگ اب ایک مختلف
حکمت عملی پر جا چکی ہے۔ نواز شریف خاموشی کی زبان میں بات کر رہے ہیں۔ وہ وقت چلا گیا جب نواز شریف محاذ آرائی کی زبان میں بات کر رہے تھے۔ شہباز شریف بھی نیب میں جا چکے ہیں۔ زرداری کے پاس ایسا کچھ نہیں جو ن لیگ کو دے سکیں۔ ن لیگ کو شاید اب زرداری میں کوئی دلچسپی نہیں۔ انھوں نے اپنے حصہ کی سختی کاٹ لی ہے۔ اب زرداری کی باری ہے جیسے پہلے زرداری نے خاموشی اختیار کی اب ن لیگ بھی تماشہ دیکھے گی۔اس لیے زرداری صاحب نے دیر کر دی ہے۔ اب سب کچھ ہاتھ سے نکل چکا ہے۔