خود فریبی

ایاز خان  پير 12 اگست 2013
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

ہنری کسنجر امریکا کے وزیر خارجہ بن گئے لیکن صدر نہیں بن سکے۔ ان کے صدر نہ بننے کی واحد وجہ یہ تھی کہ وہ امریکی شہری تو تھے مگر پیدائشی امریکی نہیں تھے۔ امریکیوں کو یہ فرق نہیں پڑتا کہ وہاں کے کسی شہری کے آباؤ اجداد کا تعلق دنیا کے کس خطے سے تھا۔ وہاں یہ سوچ نہ ہوتی تو سیاہ فام اوباما کبھی امریکا کے صدر منتخب نہ ہوتے۔ اوباما کے والد کا تعلق کینیا سے تھا مگر وہ اوباما کی پیدائش سے پہلے امریکا میں رہائش پذیر ہو گئے اور آج ان کا بیٹا دوسری مدت کے لیے امریکی صدر ہے۔ امریکا کو تاریکن وطن کی سر زمین کہا جاتا ہے۔

دنیا بھر سے وہاں جا کر بسنے والے تارکین وطن اپنی زندگی کو بھرپور انجوائے کرتے ہیں۔ اصل امریکی جو ریڈ انڈین کہلاتے ہیں، اب قریب قریب ناپید ہو چکے ہیں۔ ان پر ہونے والے مظالم کی داستانیں تاریخ کے اوراق میں موجود ہیں۔ اس تمہید کی اکلوتی وجہ کچھ عرصے سے وطن عزیز میں پیدا ہونے والا دہری شہریت کا مسئلہ ہے۔ ہماری عدالتوں میں دہری شہریت والوں کی پیشیاں ہوتی ہیں۔ جسٹس صاحبان کی طرف سے سخت ریمارکس بھی آتے ہیں۔ رحمان ملک کو برطانوی شہریت چھوڑنی پڑی۔ حسین حقانی‘ چوہدری نثار علی اور خواجہ آصف کے بارے میں بھی کہا گیا کہ وہ دہری شہریت رکھتے ہیں۔ حسین حقانی (وہ تو اب امریکا میں ہی رہائش پذیر ہیں اس لیے انھیں اس فہرست سے نکال دینا بہتر ہو گا) اور چوہدری نثار کو امریکی اور خواجہ آصف کو کینیڈین شہری قرار دیا گیا لیکن یہ محض الزام ہی رہا‘ کوئی ثبوت ان کے خلاف پیش نہ کیا جا سکا۔

دہری شہریت والوں کے بارے میں یہاں تک کہا گیا کہ وہ کسی دوسرے ملک سے وفاداری کا حلف اٹھانے کے بعد پاکستان کے وفادار نہیں رہے۔ میرے خیال میں یہ بہت سخت بات تھی۔ دنیا کے مروجہ قوانین کے مطابق آپ جس ملک میں پیدا ہوتے ہیں‘ تاحیات بلکہ بعد از مرگ بھی اس کے شہری رہتے ہیں۔ یہ آپ کا بنیادی حق ہوتا ہے اور آپ کی یہ شہریت کوئی ختم نہیں کر سکتا۔ پنجاب کے نئے گورنر پر بھی یہی اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ برطانوی شہری ہیں۔ چودھری سرور اب برطانوی شہریت ترک کر چکے ہیں لہٰذا انھیں حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دیا جا سکتا ہے۔

وہ جب تک گورنر کے عہدے پر رہیں گے، اس وقت تک ان کے محب وطن ہونے پر کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ انھیں تب تک مکمل پاکستانی سمجھا جا سکتا ہے جب تک وہ دوبارہ برطانوی شہریت حاصل نہیں کر لیتے۔ گورنر صاحب کے سوا وہ تمام لوگ جو دہری شہریت رکھتے ہیں انھیں فوری طور پر یہ ملک چھوڑ کر چلے جانا چاہیے۔ یہاں رہنا ہے تو خود کو غیر ملکی تصور کریں۔ وہ اگر اپنی نئی شہریت والے ملکوں میں رہائش پذیر ہیں تو انھیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ پاکستان کی بہتری کے لیے کچھ سوچیں۔ جس ملک نے انھیں دوسری شہریت دی ہے وہ اس کی بہتری کے لیے جو چاہے کر سکتے ہیں‘ انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔

دہری شہریت کا معاملہ بھی بڑا سادہ ہے۔ آپ جب چاہے اسے ترک کر دیں۔ اور جب آپ اسے دوبارہ لینا چاہیں تو اس کے لیے معمولی سی فیس ادا کریں اور پھر سے دہری شہریت اختیار کر لیں۔ یعنی جب آپ کو اپنے پیدائشی وطن میں کوئی اہم عہدہ یا مراعات ملیں انھیں حاصل کر لیں اور جیسے ہی یہ سلسلہ موقوف ہو دیار غیر کو پھر اپنے وطن کے طور پر اپنا لیں۔ آپ کو صرف یہی کرنا ہے کہ دو درخواستیں دیں اور تھوڑی سی رقم ڈالروں یا پاؤنڈوز میں ادا کر کے ایک بار پھر دو ملکوں کے شہری بن جائیں۔ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی… حب الوطنی کا اگر یہی معیار ہے تو اس پر پورا اترنے کے لیے زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا۔ اب سوچتا ہوں کسی دوسرے ملک کی شہریت نہ لے کر غلطی کی۔ زندگی میں کئی مواقع ایسے آئے تھے جب آسانی سے یہ مرحلہ طے کیا جا سکتا تھا۔ سچی بات ہے تب یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ معاملہ اتنا آسان ہے۔ خیر اب صبر کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔

ہم ایسے کیوں ہیں؟ ہمارے دہرے معیار ہیں یا ہم خود فریبی کا شکار ہیں۔ شاید کہیں نیت کے فتور کا بھی عمل دخل ہے۔ میں موٹر وے پر جب بھی سفر کرتا ہوں، ایک بات مجھے ہمیشہ پریشان کرتی ہے۔ آپ میں سے جو لوگ جدید دور کی اس اہم شاہراہ کی راہ لیتے ہیں تو لاہور سے اسلام آباد تک کئی جگہوں پر ایک سائن بورڈ ضرور دیکھتے ہوں گے۔ اس سائن بورڈ پر لکھا ہوتا ہے آگے اسپیڈ چیک کرنے والا کیمرا ہے۔ میں شروع میں موٹر وے سے جایا کرتا تھا تو یہ سائن بورڈ دیکھ کر پریشان ہوجاتا تھا۔ میرا دھیان فوری اسپیڈو میٹر پر جاتا اور اگر گاڑی کی رفتار 120 کلومیٹر سے زیادہ ہوتی تو بے اختیار میرا پاؤں ایکسیلیٹر سے اٹھ جاتا اور گاڑی کی رفتار کم ہو جاتی۔ اب معاملہ الٹ ہے۔ جیسے ہی میری نظر اس بورڈ پر پڑتی ہے مجھے قدرے اطمینان ہو جاتا ہے۔

میرا دھیان میٹر پر جاتا ہے نہ اسپیڈ کم کرتا ہوں۔ سچی بات ہے کبھی کبھار یہ بورڈ دیکھ کر اسپیڈ تھوڑی بڑھا بھی دیتا ہوں۔ اس کی وجہ اتنی سی ہے کہ مجھے آج تک اس سائن بورڈ کو کراس کرنے کے بعد اسپیڈ چیک کرنے والا کیمرا نظر نہیں آیا۔ یہ کیمرا تو کسی ایسی جگہ چھپا کے رکھا جاتا ہے کہ گاڑی تیز چلانے والے کو اچانک پکڑ لیا جائے۔ مہذب دنیا نے یہ سائن بورڈ اس لیے بنایا تھا کہ لوگوں کو حادثات سے بچایا جائے۔ یورپ اور امریکا میں جس جگہ یہ سائن بورڈ ہو گا وہاں سو فیصد کیمرا موجود ہو گا۔ اس کا مقصد محض یہ ہوتا ہے کہ تیز گاڑی چلانے والے اپنی رفتار کم کر لیں اور وہ کسی ممکنہ حادثے سے محفوظ رہیں۔

ہمارا مقصد چونکہ لوگوں کو حادثات سے بچانا نہیں ہوتا اس لیے کیمرا چھپا کے رکھتے ہیں۔ اس کا فایدہ یہ ہوتا ہے کہ تیز رفتاری پر چالان ہوتا ہے اور حکومت کے خزانے میں اچھی خاصی رقم جمع ہو جاتی ہے۔ نیت خراب ہو تو کوئی کام ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ کرکٹ ٹیم سے ہماری توقعات کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ انھیں اپنی ہوم گراؤنڈز پر انٹرنیشنل میچ کھیلنے کا موقع نہیں ملتا لیکن ہماری خواہش یہ ہوتی ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم ہر مقابلہ‘ ہر سیریز اور ہر ٹورنامنٹ جیت جائے۔

دہری شہریت کا معاملہ ہو موٹر وے پر سائن بورڈز کی تنصیب یا کرکٹ ٹیم سے ہماری توقعات۔ ہماری سوچ کا رخ ٹھیک نہیں یا ہم خود فریبی کا شکار ہیں۔ دہری شہریت والے اپنے ایک ملک میں صرف ایک درخواست دے کر یہاں گورنر بھی بن گئے اور ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس کے برعکس کچھ اور لوگوں کی حب الوطنی اب تک مشکوک ہے۔ موٹر وے کا معاملہ بھی اس سے الٹ نہیں ہے۔ حادثوں میں بے شمار افراد مارے جا چکے ہیں۔ ان حادثات کی تحقیقات بھی ہوئی لیکن مجھے یقین ہے سائن بورڈ والے پہلو پر بات تک نہیں ہوئی ہو گی۔ یہ خود فریبی نہیں تو اور کیا ہے؟۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔