گورنرکی واپسی، کیا اب بھی ٹارگٹڈ آپریشن چلے گا؟

جی ایم جمالی  منگل 17 ستمبر 2013
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

کراچی: کراچی میں جاری ٹارگیٹڈ آپریشن پر متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے تحفظات سامنے آنے کے بعد خدشہ پیدا ہوگیا تھا کہ آپریشن کی راہ میں سیاسی مشکلات حائل ہو سکتی ہیں لیکن یہ خدشات غلط ثابت ہوئے۔

مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی قیادت کے درمیان بروقت رابطوں کی وجہ سے بہت سی امکانی رکاوٹوں پر قابو پالیا گیا ہے ۔ ایم کیو ایم کے سابق رکن سندھ اسمبلی ندیم ہاشمی کی گرفتاری اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کی اچانک دبئی روانگی کے بعد سندھ میں سیاسی ماحول کشیدہ اور غیر یقینی کی صورت حال پیدا ہوگئی تھی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ٹارگیٹڈ آپریشن کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کر لیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گورنر ڈاکٹر عشرت العباد خان کی طرف سے استعفیٰ دینے کے فیصلے پر نظر ثانی کی گئی۔

وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کی طرف سے بار ہا یہ وضاحت کی گئی ہے کہ ٹارگیٹڈ آپریشن ایم کیو ایم سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کے خلاف نہیں ہے ۔ یہ آپریشن صرف اور صرف دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ہے ۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ اگر کسی کو گرفتاریوں پر اعتراض ہے تو وہ عدالتوں سے رجوع کرے ۔ عدالتیں آزاد ہیں ۔

رینجرز اور پولیس کی طرف سے روزانہ ہونے والی گرفتاریوں کے بارے میں میڈیا کو بھی آگاہ کیا جاتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ روزانہ کہاں کہاں آپریشن ہوا اور گرفتار ہونے والوں کی وابستگی کن سیاسی جماعتوں یا انتہا پسند گروہوں سے ہے ۔ وزیراعلیٰ کی سربراہی میں قائم کردہ کمیٹی نہ صرف آپریشن کو کنٹرول کر رہی ہے بلکہ اس کی مانیٹرنگ بھی کر رہی ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ بعض باتیں آپریشن کی اسٹرٹیجی کے طور پر مخفی رکھی جاتی ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کراچی کے لوگ بہت حد تک اس آپریشن کے طریقہ کار اور شفافیت پر مطمئن ہیں ۔

ایم کیو ایم کے سابق ایم پی اے ندیم ہاشمی کی گرفتاری پر ایم کیو ایم کی طرف سے ہڑتال کی کال دی گئی تھی اور اس کال پر پورا شہر بند ہوگیا تھا ۔دوسری طرف تمام سیاسی جماعتوں، صنعت کاروں ، تاجروں ، دکانداروں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں نے ایم کیو ایم سے اپیل کی کہ ٹارگیٹڈ آپریشن پر اگر کسی کو کوئی اعتراض ہے تو وہ ہڑتالوں کے بجائے قانونی راستہ اختیار کرے ۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے رینجرز کی قیادت میں ٹارگیٹڈ آپریشن شروع کرنے سے قبل کراچی کے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ طویل اجلاس منعقد کرکے مشاورت کی تھی۔

اسی مشاورت کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ کراچی کے لوگ گزشتہ تین عشروں سے جاری بد امنی سے تنگ آچکے ہیں اور وہ ہر صورت میں اس بد امنی سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ تمام سیاسی جماعتوں کو بھی اس بات کا احساس ہوچکا ہے کہ کراچی کے عوام کیاچاہتے ہیں اور قیام امن کی راہ میں جو بھی رکاوٹیں پیدا کرے گا ، وہ سیاسی خسارے میں رہے گا ۔ یہ عوامی دباؤ جاری ٹارگیٹڈ آپریشن کے لیے ساز گار ماحول پیدا کر رہا ہے ۔

گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان گزشتہ جمعہ کی شب اچانک دبئی روانہ ہوگئے تھے۔ وہ پہلے بھی نجی دوروں پر دبئی اور لندن جاتے رہے ہیں لیکن اس مرتبہ ان کی دبئی روانگی کے بعد غیر معمولی قیاس آرائیاں ہونے لگی تھیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی جماعت ایم کیو ایم ٹارگیٹڈ آپریشن پر شدید تحفظات کا اظہار کر چکی تھی ۔ ان تحفظات کے پیش نظر سیاسی حلقوں میں یہ سوال بھی پیدا ہونے لگا تھا کہ اگر ایم کیو ایم کو ٹارگیٹڈ آپریشن پر اس قدر اعتراض ہے تو اس کا گورنر کیوں خاموش ہے ۔

اس ماحول میں گورنر کی دبئی روانگی سے یہ نتیجہ اخذ کیا جانے لگا کہ انہوں نے استعفیٰ دے دیا ہے اور اب وہ واپس نہیں آئیں گے ۔ گورنر سندھ کے قریبی ذرائع نے ان قیاس آرائیوں کی تصدیق یا تردید نہیں کی ۔ وفاقی حکومت کے ذرائع بھی مسلسل یہ بتا رہے تھے کہ گورنر سندھ نے مستعفی ہونے کی خواہش ظاہر کی ہے ۔ جس طرح گورنر سندھ اچانک دبئی روانہ ہوئے تھے اور ان کے استعفیٰ کی خبریں اچانک گردش کرنے لگی تھیں ، اسی طرح دو دن بعد اچانک یہ خبریں بھی آنے لگیں کہ انہوں نے استعفیٰ نہیں دیا اور وہ واپس آ جائیں گے ۔

سیاسی حلقوں کا خیال یہ ہے کہ ایم کیو ایم کی قیادت کو بعد ازاں یہ احساس ہوا ہوگا کہ ڈاکٹر عشرت العباد خان طویل عرصے تک گورنر سندھ کے عہدے پر فائز رہنے اور اپنے صلح جو رویئے کی وجہ سے ایم کیو ایم اور مقتدر حلقوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہیں اور وہ بہت سارے معاملات کو بحران کی شکل اختیار کرنے سے پہلے سنبھال لیتے ہیں ۔ مقتدر حلقوں اور سیاسی قیادت کو بھی یہ احساس ہوا ہوگا کہ ڈاکٹر عشرت العباد خان ان حالات میں جو کردار ادا کرسکتے ہیں ، وہ شاید کوئی دوسرا نہیں کرسکتا ۔ کراچی میں قیام امن کے لیے گورنر سندھ کے کردار کی اہمیت کو قانون نافذ کرنے والے ادارے اور کراچی کے سٹیک ہولڈرز بھی محسوس کرتے ہیں ۔

ڈاکٹر عشرت العباد خان کے گورنر سندھ کے عہدے پر بر قرار رہنے سے وفاقی حکومت اور ایم کیو ایم کے مابین ایک نئی مفاہمت کا اشارہ بھی ملتا ہے ۔ اس مفاہمت سے بعض حلقے یہ نتیجہ بھی اخذ کر رہے ہیں کہ ٹارگیٹڈ آپریشن پر ایم کیو ایم کے تحفظات دور کردیئے گئے ہیں اور اس آپریشن کا رخ بھی تبدیل ہو سکتا ہے ۔ لیکن وفاقی اور سندھ حکومت کے ذرائع اس طرح کی سوچ کو بے بنیاد اور غیر منطقی قرار دے رہے ہیں ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ آپریشن کے لیے سازگار سیاسی ماحول پیدا کرنے کی غرض سے سیاسی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی ضروری ہے ۔

سیاسی بحران میں ٹارگیٹڈ کارروائیوں کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ۔ اس صورت حال میں ایم کیو ایم کی قیادت یہ کوشش کرے گی کہ وفاقی حکومت کے ساتھ تصادم کی فضاء پیدا نہ ہو اور سندھ حکومت پر اپنا دباؤ برقرار رکھے۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس میں ٹارگیٹڈ کارروائیوں سے متعلق زبردست ہنگامہ آرائی کا بھی خدشہ ہے ۔ آج سندھ اسمبلی کا شروع ہونے والا اجلاس بہت اہم ہوگا جس میں ٹارگیٹڈ آپریشن کے حوالے سے متحدہ قومی موومنٹ کیا رویہ اختیار کرتی ہیں۔

توقع کی جا رہی ہے کہ اجلاس میں ٹارگیٹڈ کارروائیوں کے حوالے سے زبردست ہنگامہ آرائی ہوگی اور متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما اس معاملے کو شدت سے اٹھائیں گے ۔ اگرچہ بظاہر افہام وتفہیم کا ماحول نظر آرہا ہے لیکن سندھ کے بعض سیاسی حلقے ایسے بھی ہیں ، جو بڑے یقین سے یہ کہتے ہیں کہ افہام و تفہیم کا یہ ماحول زیادہ دیر نہیں چلے گا اور سندھ کے حالات غیر متوقع رخ اختیار کر سکتے ہیں ۔ ان حلقوں کے خدشات کو وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے اہم لوگ یکسر مسترد نہیں کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔