چیلنجز کا سامنا کرتے حکومت کا ایک سال، غلطیوں سے سیکھنا ہو گا

ارشاد انصاری  بدھ 31 جولائی 2019
منتشر اپوزیشن کو اگر ایک میز پر اکٹھا کیا ہے تو یہ کارنامہ بھی خود حکومت نے سرانجام دیا ہے۔ فوٹو: فائل

منتشر اپوزیشن کو اگر ایک میز پر اکٹھا کیا ہے تو یہ کارنامہ بھی خود حکومت نے سرانجام دیا ہے۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد:  پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار سنبھالے ایک سال کا عرصہ گزر گیا ہے، اس ایک سال کے دوران حکومت اقتصادی و مالی بحران سے نبردآزما رہی ہے، اگرچہ حکومتی حلقوں کی جانب سے مشکل وقت گزرنے کے دعوے کئے جا رہے ہیں اور اچھے دنوں کی نوید سنائی جا رہی ہے۔

اگر اس ایک سال کے عرصے پر طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو عوامی حلقوں میں بے چینی و اضطرب بڑھا ہے، مہنگائی کے طوفان نے لوگوں کیلئے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل کردیا ہے اور غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے ولے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود عوام اچھے کی امید لگائے ہوئے ہے اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس لحاظ سے خوش نصیب ہے کہ اسے کسی بڑی مزاحمت کا سامنا نہیں ہے جبکہ بڑے اسٹیک ہولڈرز حکومت کے ساتھ ایک صفحے پر ہیں۔ ابھی حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے درمیان جو ورکنگ ریلیشن دیکھنے کو مل رہی ہے اس سے پہلے شائد کبھی نہیں ملی۔ ایسے میں اگر حکومت کو کسی سے خطرہ ہے تو وہ خود اپنے آپ سے ہے اب تک جتنا نقصان اٹھایا ہے حکومت نے اپنی غلطیوں سے اٹھایا ہے۔ منتشر اپوزیشن کو اگر ایک میز پر اکٹھا کیا ہے تو یہ کارنامہ بھی خود حکومت نے سرانجام دیا ہے۔

اپوزیشن کی جانب سے پچیس جولائی کو ملک کے چاروں صوبوں میں بھرپور عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا گیا ہے جو حکمرانوں کیلئے ایک بڑا پیغام ہے اور اگر اپوزیشن کا عوامی بیانیہ اسی زورشور سے جاری رہا تو وہ دن دور نہیں معلوم ہوتا کہ جب پھر سے ڈی چوک کی رونقیں بحال ہونگی۔ تجزیہ کاروں کا بھی یہی خیال ہے کہ حکومت کو جتنے مسائل کا سامنا ہے وہ کنوئیں میں لگائی گئی خود کی وہ آوازیں ہیں جو اب پلٹ کر آرہی ہیں اور وہ تمام رموز اور باتیں جو پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی جیسی سیاسی جماعتیں گذشتہ بائیس سال میں پاکستان ٹحریک انصاف کو نہیں سمجھا سکی ہیں وہ سب باتیں ایک سال کے اقتدار نے تحریک انصاف اور اس کی قیادت کو سمجھا دی ہیں۔

کل تو کنٹینر پر کھڑے ہو کر جو بلند و بانگ دعوے کئے جاتے تھے وہ سب ایک ایک کرکے ہوا ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور آج ایک سال بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا وہی بیانیہ ہے جو 2013کے بعد پاکستان مسلم لیگ(ن)کا ہوا کرتا تھا یا اس سے پہلے پاکستان پیپلزپارٹی کا ہوا کرتا تھا، صرف آواز اور لہجوں کا فرق ہے۔ کل کنٹیر پر کھڑے ہوکر عمران خان صاحب عوام کو معیشت پر بھاشن دیا کرتے تھے اور سمجھایا کرتے تھے کہ جب ڈالر ایک روپیہ مہنگا ہوتا ہے تو ملکی قرضوں پر کتنا اضافہ ہوتا ہے اور ہر پیدا ہونے والے بچے پر قرضے کا کتنا بوجھ بڑھتا ہے اور اس وقت ن لیگ کی طرف سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان اورعالمی بینک،ایشیائی ترقیاتی بینک، موڈیز سمیت دیگر عالمی اداروں کے جاری کردہ اعدادوشمار کے حوالے دیدے کر صفائیاں پیش کی جاتی تھیں اور تحریک انصاف کے لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جاتی تھی کہ ملکی قرضہ اس طرح سے نہیں جانچا جاتا جس طرح تحریک انصاف کی جانب سے جانچا جا رہا ہے یہ کسی حکومت کے قرضے نہیں ہوتے ہیں ملک کی ترقیاتی ضرورتوں کیلئے قرضے لئے جاتے ہیں، اگر قرضے لئے گئے ہیں تو واپس بھی کئے گئے ہیں اور واپس کئے جانیوالے قرضون کو نکال کر نیٹ سٹاک کو شمار کیا جاتا تھا۔

مگر اس وقت تحریک انصاف یہ منطق ماننے کو تیار نہیں تھی اور آج ن لیگ کی جانب سے اسی انداز میں الفاظ کے گورھ دھندے کو پیش کیا جا رہا ہے تو تحریک انصاف اسی انداز میں صفائیاں پیش کر رہی ہے جس انداز میں ن لیگ پیش کرتی تھی اور اب نئے لئے جانے والے قرضوں اور واپس کئے جانیوالے پرانے قرضوں کا حساب کتاب کر کے عوام کو بتایا جا رہا ہے کہ ایک سال میں سولہ ارب ڈالر کے نہیں بلکہ دو ارب ڈالر کے قرضے لئے گئے ہیں، اسی لئے کہا جاتا ہے سب سے بڑا استاد زمانہ ہوتا ہے جو باتیں بائیس سالہ جدوجہد میں کپتان کو سمجھ نہیں آئیں وہ اقتدار کی ایک سالہ عمر نے سکھا دی ہیں اب چونکہ قرضوں پر قائم انکوائری کمیشن نے باقاعدہ تحقیقات شروع کر دیں اور گزشتہ 10 سال کے عرصہ میں حاصل 400 غیر ملکی قرضوں کی تفصیلات حاصل کر لی ہیں۔

باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ اسد عمر کا پردہ سکرین سے غائب ہونا اور کپتان و اسکی حکومت کے بارے میں ذومعنی گفتگو اندرونی بدلتے موسم کا پتہ دے رہی ہے اور انہی حلقوں کا خیال ہے کہ سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے مذکورہ کمیشن قائم کرنے کی مخالفت کی تھی مگر اب انکوائری کمیشن قرضوں کے موثر استعمال کا آئندہ کے لئے لائحہ عمل دینا چاہتا ہے۔ جن 400 قرضوں کی چھان بین ہوگی وہ وفاقی وزارتوں/ ڈویژنوں اور محکموں نے حاصل کئے تھے۔ سرکاری قرضے اور واجبات جن کا 2008 میں حجم 6690 ارب روپے تھا وہ ستمبر 2018 تک بڑھ کر 30846 ارب روپے ہوگیا، جس کی تحقیقات کے لئے قائم انکوائری کمیشن کو ملکی اداروں اور میکانزم پر عدم اعتماد قرار دیا جا سکتا ہے۔

کمیشن کے قیام کی حمایت کرنے والوں کا موقف ہے کہ اسے فارنسک آڈٹ کا اختیار حاصل ہے اور کوئی بھی مخصوص کیس کمیشن تحقیقات کے لئے براہ راست نیب یا ایف آئی اے کے حوالے کر سکتا ہے۔ گزشتہ 10 سال کے عرصے میں غیر ملکی قرضوں کی مجموعی تعداد 413 رہی۔ جن کے تحت 70 ارب 69 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز حاصل کئے گئے جبکہ اخراج 44 ارب 91 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز رہا ہے۔ کمیشن نے قرضوں سے ہٹ کر توانائی کے شعبہ میں اور پھر گذشتہ دس سال میں دی جانیوالی ٹیکسوں و ڈیوٹیوں کی چھوٹ کی بھی تحقیقات شروع کردی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے کہیں یہ کمیشن خود حکومت کے گلے کا طوق نہ بن جائے۔

دوسری طرف سیاسی میدان بھی خوب سجا ہوا ہے اور اب جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کو مستعفی ہونے کی ڈیڈ لائن دیدی ہے اور اس کے بعد اسلام آباد کی جانب رُخ کرنے اور دھرنے دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ ابھی اس حوالے سے اپوزیشن کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے باضابطہ طور پر تو کوئی اعلان سامنے نہیں آیا کہ کیا وہ اس احتجاجی و دھرنا سیاست میں مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا نہیں مگر انفرادی طور پر مختلف بیانات سامنے ضرور آئے ہیں۔ آصف علی زرداری کا البتہ بیان سامنے آیا ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ ہیں۔

دوسری جانب بلاول بھٹو بھی خوب گرج برس رہے ہیں، رہی بات مریم نواز کی تو وہ تو اس وقت بھرپور اینٹی اسٹیبلشمنٹ لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہیں اور مسلم لیگ (ن)کے قائد میاں نوازشریف کے بیانیہ ووٹ کو عزت دو کو لے کر آگے بڑھ رہی ہیں اور ان کا دعوی ہے کہ انہوں نے خوب سوچ سمجھ کر کانٹوں پر چلنے اور دشوار گزار راستے کا چناو کیا ہے، اب کیا وہ اس پر ثابت قدم رہ سکیں گی یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ مگر جو سیاسی ماحول بنتا دکھائی دے رہا ہے۔

اس میں تو مستقبل میں بہت خوفناک صورتحال بنتی دکھائی دے رہی ہے جبکہ بعض اعلی حکومتی شخصیات بھی ملک کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال سے انتہائی خوفزدہ ہیں اور ہر قیمت پر اپوزیشن سے ڈیل کرکے اپنی جان بخشی کی خواہاں ہیں بلکہ تیزی سے خوفناک شکل اختیار کرتے معاشی بحران کے بوجھ کی گھنٹی بھی اپوزیشن کے گلے باندھنے کے خواہشمند ہیں۔ اس سے قبل اپوزیشن جماعتوں کے چیرمین سینٹ کیلئے منعقدہ اجلاس میں تحریک عدم اعتماد کیلئے درکار اراکین سے زیادہ کی شرکت سے بھی بعض عہدیدران انتہائی مضطرب ہیں اور اب منگل کو پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو کی جانب سے سینٹرز کے اعزاز میں دیئے جانیوالے عشایئے میں بھی واضح برتری کا دعوی کیا گیا ہے۔

دوسری طرف حکومت بھی پر امید ہے اور سینٹ میں اپوزیشن کے چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو سینٹ پر حملہ قرار دیتے ہوئے اسے ناکام بنانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار دکھائی دے رہی ہے اس کیلئے ہارس ٹریڈنگ کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے اور سینٹرز کو کروڑوں کی پیشکشوں کی تذکرے زبان زد عام ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔