حکومت کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر نئے طوفانوں کا سامنا

ارشاد انصاری  بدھ 11 دسمبر 2019
تمام سیاسی و غیر سیاسی حلقوں کو یک زبان ہوکر بھرپور جواب دینا ہوگا۔

تمام سیاسی و غیر سیاسی حلقوں کو یک زبان ہوکر بھرپور جواب دینا ہوگا۔

 اسلام آباد:  پاکستان کو درپیش داخلی و خارجی مسائل ہر گذرتے دن کے ساتھ گھمبیر ہوتے جارہے ہیں۔

دہشت گرد سوچ کی حامل بھارتی قیادت دنیا کو تیسری عالمی جنگ میں جھونکنے پر تلی ہوئی ہے اس کے علاوہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے بھی خطے پر اثرات ہیں۔ پاک بنگلہ دیش تعلقات اچھے نہیں جبکہ افغانستان میں بھی بھارتی اثر و رسوخ کام دکھا رہا ہے۔ اسے ناکام بنانے کیلئے موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

تمام سیاسی و غیر سیاسی حلقوں کو یک زبان ہوکر بھرپور جواب دینا ہوگا۔ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات بحال ہوچکے ہیں۔ ابتدائی طور پر تشدد میں کمی اور مستقل جنگ بندی کے لیے طالبان کو قائل کرنے پر توجہ دی جائے گی جبکہ زلمے خلیل زاد طالبان اور کابل حکومت کے درمیان براہِ راست مذاکرات کی کوشش بھی کررہے ہیں۔

اس وقت روس کا اعلی سطح کا وفد پاکستان میں موجود ہے۔ روس کے ساتھ ان مذاکرات میں نو ارب ڈالر کے معاہدے متوقع ہیں جس کے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اندرونی محاذ پر مولانا فضل الرحمن کی چوہدری برداران کے ساتھ ملاقاتیں اور چوہدری برداران کی سیاسی سرگرمیاں بھی سیاسی حلقوں میں موضوع بحث ہیں۔ سردار اختر مینگل کی حکومت سے ناراضگی کو بھی غیر معمولی اہمیت دی جا رہی ہے اگر یہ بیل منڈھے چڑھ گئی تو پھر ان ہاوس تبدیلی ممکن ہو سکتی ہے۔

معیشت کی بہتری سے روپے پر دباو مزید کم ہوگا اور ڈالر مزید سستا ہونے کی توقع ہے لیکن سرمایہ کاروں اور معیشت دانوں کو خیال ہے کہ شرح سود سب برائیوں کی جڑ ہے جب تک حکومت شرح سود کو نیچے نہیں لاتی اس وقت تک یہ تمام خوشیاں عارضی ہیں۔ دوسری طرف وزارت خزانہ کے مطابق اکاؤنٹس سرپلس ہونے سے مجموعی طور پر پاکستان کے معاشی اعشارے مثبت رہے لیکن معیشت سست روی کا شکار رہی ہے۔

پاکستان کی برآمدات میں پچھلے کچھ عرصے میں جو بہتری آئی ہے اگلے ایک دو ماہ میں اس کیلئے بھی بڑا چیلنج سامنے آنے والا ہے کیونکہ ملکی برآمدات میں سب سے بڑا حصہ ٹیکسٹائل کا ہے جو ریفنڈز کی عدم ادائیگی سے لیکویڈیٹی کے مسائل اور پیداواری لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے عالمی منڈی میں رائج قیمتوں کے مقابلہ میں دشواریوں سے دوچار تھی اب جی ایس پی پلس کی تلوار بھی سر پر آن پہنچی ہے کیونکہ یورپی یونین نے یکم جنوری 2014سے پاکستان کو 10سال کیلئے جی ایس پی پلس کی سہولت دی تھی۔

جس کے تحت پاکستان یورپی یونین کے 27ممالک کو بغیر کسٹم ڈیوٹی اپنی 6ہزار سے زائد مصنوعات ایکسپورٹ کرسکتا ہے لیکن 5سال بعد اس سہولت پر نظرثانی ہونا ہے جس کے تحت جنوری 2020میں جی ایس پی پلس معاہدے کو 5سال مکمل ہو رہے ہیں۔ اگر معاہدے کی تجدید نہ ہوئی تو یورپی یونین کو پاکستانی مصنوعات کی برآمد متاثر ہوگی۔

اس کیلئے اگرچہ حکومت متحرک ہے اور گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کو بھی اسی اہم مشن پر یورپی یونین بھیجا ہے جس میں وہ معاہدے کی تجدید کیلئے یورپی پارلیمنٹ اور اس کی ٹریڈ کمیٹی کے اراکین سمیت دیگر اہم شخصیات سے ملاقاتیں کررہے ہیں، جبکہ فرانس اور جرمنی کے سفیروں نے بھی گورنر پنجاب کو جی ایس پی پلس سہولت کی تجدید کیلئے اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔

دوسری جانب بھارت جی ایس پی پلس کے حوالے سے 27 عالمی معاہدوں کو لے کر سزائے موت کے معاملہ پر پاکستان کے خلاف لابنگ کر رہا ہے حالانکہ پاکستان نے 27عالمی معاہدوں بالخصوص 16بنیادی انسانی حقوق سے متعلق قوانین پر عملدرآمد کی دستاویز پر دستخط کر رکھے ہیں۔ اب پاکستان کو یورپی یونین کو قائل کرنا ہوگا۔ ایک اچھی خبر یہ بھی ہے یکم جنوری سے پاکستان کی 313 مصنوعات کو چینی منڈیوں میں ڈیوٹی فری رسائی حاصل ہوگی۔ جن پاکستانی مصنوعات کو ڈیوٹی فری رسائی دی گئی ہے ان میں چین کی عالمی درآمدات 64 ارب ڈالر ہے۔

ملکی سیاست کی بات ہو تو ایک جانب چیئرمین نیب نے پھر سے ہواؤں کا رخ بدلنے کی بات کی ہے۔ دوسری جانب کرپشن کے عالمی دن کے موقع پر منعقدہ تقریب اور دیگر تقریبات سے خطاب میں ایک بار پھر وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کرپٹ معاشرے کبھی ترقی نہیں کرتے۔ کرپشن کے خلاف جہاد میں پوری قوم کو شرکت کرنا ہوگی۔ انسداد بدعنوانی کے عالمی دن پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بیروت میں لوگ کرپشن کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں، چلی اورعراق میں بھی عوام کرپشن کے خلاف سڑکوں پر ہیں لیکن یہاں پر قومی دولت لوٹنے والوں پر پھول نچھاور کیے جاتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ خوشحال معاشرے میں سب سے زیادہ انسداد کرپشن پر توجہ دی جاتی ہے کیوں کہ کرپشن کی رقم عوام پرخرچ ہونے کے بجائے لوگوں کی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔بادشاہت کبھی بھی جمہوریت کا مقابلہ نہیں کر سکتی ، بلکہ خاندانی سیاست جموہریت کی نفی ہے۔ جس پر وزیر اعظم کے مخالفین کا کہنا ہے کہ کیا میاں اظہر کے بیٹے کو اکنامک افیئرز کا وزیر بنانا ، عمر ایوب کو پٹرولیم کی وزارت دینا، ذوالفقار مرزا کی اہلیہ فہمیدہ مرزا کو پروونشل کوآرڈی نیشن کا وزیر بنانا ، درجنوں موروثی سیاست دانوں کو اپنی پارٹی کا حصہ بنانا، وزیر دفاع پرویز خٹک کے داماد، بھتیجی، عزیزہ نفیسہ خٹک کو ایم این اے بنانا، ان کے بھائی لیاقت خٹک کو صوبائی وزیر اور ایک اور بھائی ابراہیم خٹک کو ایم پی اے بنانا موروثی سیاست نہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاسی فضاوں میں ’’مائنس‘‘ کی گونج بڑھ گئی ہے۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ پاکستان کے سیاسی منظرنامے سے مائنس کون ہوگا‘عمران خان یا مریم نواز۔ پہلے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ پہلے وزیراعظم تبدیل ہوگا، پھر ترمیم ہوگی جس کے بعد اپوزیشن کے دوسرے حلقوں سے بھی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں۔

اُدھر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے سندھ میں بڑی تبدیلی لانے کیلئے تیاریوں کی بھی بازگشت سنائی دینے لگی اورسندھ میں ان ہاوس تبدیلی یا پھر گورنر راج کے نفاذ کی افواہیں اس وقت زور پکڑ گئیں جب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما و وزیراعظم عمران خان کا سندھ حکومت بارے میں سخت بیان سامنے آیا۔ مسلم لیگ(ن)کے بڑوں کی بیٹھک کے بعد بھی ان ہاوس تبدیلی کی باتیں سامنے آئیں اور لندن سے پاکستان مسلم لیگ(ن)کے صدر شہبازشریف کی پریس کانفرنس کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے جو سخت ردعمل سامنے آیا اس سے سیاسی ماحول میں محاذآرائی بڑھنے کا تاثر مل رہا جبکہ بعض حلقے اسے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے درکار آئین سازی کی تیاریاں قرار دے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔