مہران انجینئرنگ یونیورسٹی میں کرپشن، 5 کروڑذاتی اکاؤنٹ میں منتقل کرکے کاروبارمیں لگا دیے

صفدر رضوی  پير 10 اگست 2020
وقاص چنا شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی میں ڈائریکٹرفنانس تعینات، بیگم نصرت بھٹو یونیورسٹی کے ڈائریکٹر فنانس کا اضافی چارج بھی پاس

وقاص چنا شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی میں ڈائریکٹرفنانس تعینات، بیگم نصرت بھٹو یونیورسٹی کے ڈائریکٹر فنانس کا اضافی چارج بھی پاس

کراچی:  سندھ میں انجینئر کی تعلیم دینے والی دانش گاہ مہران انجینیئرنگ یونیورسٹی جامشورو میں مالی بدعنوانی کا ایک انتہائی انوکھا معاملہ سامنے آیا ہے اور معلوم ہوا ہے کہ یونیورسٹی میں تنخواہوں اور دیگر اخراجات کو پورا کرنے کے لیے دی گئی سرکاری گرانٹ کچھ افسران نے اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں منتقل کرلی اور اس رقم سے ذاتی کاروبار شروع کردیا، اس رقم کی مالیت 5 کروڑ روپے تک بتائی جارہی ہے جو یونیورسٹی کے اکاؤنٹ سے ذاتی اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی ہے۔

بظاہر یہ کام مہران یونیورسٹی کے شہید ذوالفقار علی بھٹو کیمپس خیرپور میں کام کرنے والے ایک سابق ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس کی جانب سے انجام دیا گیا ہے، تاہم ذرائع کہتے ہیں کہ اس معاملے میں یونیورسٹی انتظامیہ ہی سے تعلق رکھنے والے دیگر بااثر افراد بھی ملوث ہیں کیونکہ قانون کے مطابق سرکاری فنڈز متعلقہ اتھارٹی کی منظوری کے بغیر کسی دوسرے اکاؤنٹ میں منتقل نہیں کیا جاسکتا۔

تاہم معاملہ سامنے آنے پر یونیورسٹی انتظامیہ نے مذکورہ کیمپس کے محض ایک سابق افسر وقاص علی چنا کو اس معاملے کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے حکومت سندھ سے اس پورے معاملے کی تحقیقات کی سفارش کی ہے جس کے بعد محکمہ یونیورسٹیزاینڈ بورڈز نے اس معاملے پر صوبائی محکمہ اینٹی کرپشن کو خط لکھ کر مالی بے ضابطگی کے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کہا ہے۔

’’ ایکسپریس‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ مہران انجینیئرنگ یونیورسٹی جامشورو کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اسکیم اوخیلی نے رواں سال 30 جون کو ایک خط کے ذریعے محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کو اس معاملے سے آگاہ کیا۔ اس خط یا رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ یونیورسٹی کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر وقاص چنا نے یونیورسٹی کے خیرپور کیمپس کے اکاؤنٹس سے ایک نجی بینک میں موجود پرسنل اکاؤنٹس میں رقم منتقل کی ہے جس کی مالیت 5 کروڑ روپے ہے۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ مالی بدعنوانی کا حال ہی میں سامنے آنے والا یہ معاملہ سن 2017 میں موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر اسلم اوخیلی کے دور سربراہی میں ہی رونما ہوا تھا۔

تاہم اس دوران حکومت سندھ نے مذکورہ افسر کو شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اینڈ اسکل ڈیولپمنٹ خیر پور میں اس سے بھی بڑے عہدے پر ڈائریکٹر فنانس تعینات کردیا اور بات یہی نہیں رہی بلکہ انھیں بیگم نصرت بھٹو وومن یونیورسٹی سکھر میں ڈائریکٹر فنانس کا اضافی چارج بھی دے دیا گیا ہے۔ ادھر اب تک حکومت سندھ نے بظاہر اس افسر کے خلاف تو کوئی کارروائی نہیں کی تاہم مہران یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی رپورٹ کے بعد محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز نے محکمہ اینٹی کرپشن کو خط لکھتے ہوئے اس معاملے سے آگاہ کرتے ہوئے تحقیقات کی سفارش کی ہے۔

’’ایکسپریس‘‘ نے اس معاملے پر جب مہران انجینیئرنگ یونیورسٹی جامشورو کے وائس چانسلر ڈاکٹر اسلم اوخیلی سے رابطہ کرکے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی تو ان کا کہنا تھا کہ ہم مذکورہ افسر کے خلاف ڈپارٹمنٹل انکوائری کراچکے ہیں، ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے اوروقاص چنا سے 5 کروڑ میں سے1 کروڑ کی رقم بھی وصول کی گئی ہے۔

انھوں نے اپنے بیان میں اس سارے معاملے کو قبول لیا ہے۔ اس سوال پر کہ کیا کوئی ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس یونیورسٹی اکاؤنٹس میں موجود رقم وائس چانسلر کی منظوری کے بغیر منتقل کرسکتا ہے، ڈاکٹر اوخیلی کا کہنا تھا کہ واقعے کے وقت خیرپور کیمپس کے پرووائس چانسلر PVC غلام سرور تھے اور سابق وائس چانسلر ڈاکٹر عبدالقدیر راجپوت کے دور میں مختلف کیمپسز کے پی وی سیز کے پاس فنانس کے معاملے میں وائس چانسلر کے اختیار تھے جو میرے دور تک رہے، تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا کہ غلام سرور نے ہی اس کی منظوری دی ہو ہم بینک سے اس کی تفصیلات لینے کی کوشش کررہے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔