عدل و مساواتِ محمدی ﷺ

پروفیسر تفاخُر محمود گوندل  جمعـء 9 اکتوبر 2020
رسولِ کریمؐ کی بعثت کا ایک مقصد انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دلانا تھا فوٹو : فائل

رسولِ کریمؐ کی بعثت کا ایک مقصد انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دلانا تھا فوٹو : فائل

عدل و انصاف اور مساوات دین اسلام کا وہ تاب ناک باب ہے، تقابل ادیان میں جس کی مثال نہیں ملتی اور دیگر عنایات ربّانی کی طرح یہ نعمت عظمیٰ بھی عالم انسانیت کو ہادی برحق، رسول رحمت، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفٰے ﷺ کے وسیلے سے عطا ہوئی۔

آقائے دوجہاں ﷺ کی شان رحمت کے ارتفاع و کمال کے بعد حضور ﷺ کی ذات گرامی کا یہ دوسرا بڑا اعجاز و حسن سیرت ہے جس سے متاثر ہو کر دشمنان دین قیّم حلقہ بہ گوش اسلام ہوتے رہے اور اپنی جبین آستانِ نبوتؐ پر خم کرنے میں فخر محسوس کرتے رہے۔

اسلام کے تصوّرِ عدل و مساوات میں بڑے بڑے شاہان وقت کے سروں سے بوئے نخوت نکال کر اس کی جگہ عجز و انکسار بھر دیا۔ توحید ذات کبریا اور جناب رسالت پناہؐ کی ذات گرامی سے رُوگردانی کے مرتکب بڑے بڑے سلاطین نے جب اسلامی عدل و مساوات کا دل افروز مظاہرہ دیکھا تو انہوں نے اسلام کا قلادہ غلامی زیب گلو کرنے کے لیے اپنی گردنیں آگے بڑھا دیں۔ مساجد میں عبادت خدائے واحد کے لیے صف بندی مساوات محمدیؐ کا ہی ایک مظہر ہے۔ مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہو جاتے ہیں۔

محمود و ایاز اور بندہ و بندہ نوازی کا تصوّر مٹ جاتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کے اسی تصوّر عدل و مساوات نے ریگ زار عرب کے سارباں زادوں کو کج کلاہان زمن کی دستاروں کو ہوا میں اڑانا سکھایا۔ حضور اکرم ﷺ نے اپنے وصال مبارک سے قبل میدان عرفات میں جو ایمان افروز اور وجد آفریں خطبہ ارشاد فرمایا اس کی تابانیت سے صحیفۂ عدل و مساوات کے اوراق ابدلٓاباد تک جگمگاتے رہیں گے، اس دل پذیر خطبے کا زیادہ تر حصہ درس مساوات پر مشتمل تھا۔ اگر شعری اسلوب کے قالب میں ڈھالا جائے تو بہ قول شاعر

بلند و پست سے کہہ دو کہ صف میں آجائیں

زمیں پہ ذوق مساوات لے کے آیا ہوں

اگر اوراق سیرت طیّبہؐ کی بہ نظر غائر ورق گردانی کی جائے تو یہ تصوّر واضح طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے کہ آقا کریم ﷺ کی بعثت کا ایک مقصد  انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلانا تھا۔ وہ تخت نشین جو اپنے غلاموں اور ماتحتوں کو رعیّت تصور کیا کرتے اور احساس برتری سے لبریز ان کے سامنے قصر شاہی پر جلوہ افروز ہوتے، غلاموں کو احساس کم تری میں مبتلا کرنے کے لیے دستار فضیلت کو ہوا میں لہراتے اور انہیں احساس دلاتے کہ تعیشات زمن کی تخلیق فقط ہمارے لیے کی گئی ہے۔ بعثت نبویؐ کے بعد ان کے یہ تصوّرات پاش پاش ہوکر ہوا میں بکھر گئے۔

شاہ فارس اور دیگر گستاخان کے قبول اسلام میں یہی رعونت سدراہ بنی تھی جس کی باعث انہوں نے معاذ اﷲ نامۂ محمدیؐ کو چاک کیا کہ اگر ہم نے بانی اسلامؐ کی پیروی و تتبع کی زنجیر زیب پا کرلی تو اپنے ممالک میں اسلامی نظام عدل و مساوات رائج کرنا پڑے گا جس کا بدیہی نتیجا تقسیم اختیارات پر منتج ہوگا۔

شاہ و گدا کا تصوّر مٹ جائے گا۔ ناصرف مقہور عوام کو ان کے حقوق دینا پڑیں گے بل کہ عملاً اور اصولاً ان کا تحفّظ بھی کرنا پڑے گا، اگر انہیں قرینہ ہائے حیات اور سلیقہ ہائے تمّدن سے آگاہی حاصل ہوگئی تو ہمارے اقلیم خشونت و تکبّر کی شکست و ریخت کا آغاز ہوجائے گا۔ اس باب میں کوئی دوسری رائے نہیں ہوسکتی کہ یہ جمال آگیں نظام آقائے رحمت ﷺ کی بہ دولت نصیب ہوا۔ حضور اکرم ﷺ نے اس کی مبادیات پر خود عمل پیرا ہو کر ایسی ایسی امثلہ قائم فرمائیں جن کے نظارے سے نہاں خانۂ دل جگمگا اٹھتا ہے۔

آئیے! عدل مساوات رسول عربیؐ کے دو واقعات سے اپنے تیرہ خاک دان قلب کو منوّر کرنے کا اہتمام کریں۔ اس ضمن میں سب سے معروف واقعہ قریش کے ایک خاندان مخزوم کی ایک عورت کی چوری کا ہے۔ یہ خاندان قریش میں عزّوشرف اور دنیاوی شان و شوکت کے اعتبار سے دیگر قبائل سے ممیز خیال کیا جاتا تھا۔ اس خاندان کی ایک عورت چوری کرتے ہوئے پکڑی گئی۔

مروّجہ اسلامی دستور کے مطابق اسے قطع ید کی سزا سنائی گئی۔ اب ایک طرف خاندان کی سطوت و حشمت اور روایتی عزت و وقار اور دوسری جانب عدل و مساوات محمدیؐ کا تقاضا اور اﷲ کے نظام عدل کی ثقاہت و دبدبہ۔ زعمائے قریش تذبذب میں پڑگئے ۔ بالآخر فیصلہ ہوا کہ سزا میں تخفیف یا معافی کی درخواست کے لیے شارع اسلام، صاحب قرآن، آقائے دوجہاں ﷺ کے حضور آپؐ کی محبوب ترین ہستی حضرت اسامہ ؓ کو بھیجا جائے، فی الحقیقت حضور سرور دو عالم ﷺ حضرت اسامہؓ کو بے حد عزیز رکھتے تھے۔

یہ اسی قربت نبویؐ کی انتہاء تھی کہ تجربہ کار اور صاحب فراست صحابہ کبارؓ کی موجودی کے باوجود حضور ؐ نے اپنے آخری ایام میں نئی شورش کی سرکوبی کے لیے حضرت اسامہؓ کا انتخاب کیا تھا۔ حضرت اسامہؓ نے بارگاہ رسالتؐ میں اپنی قربت کے تصدّق میں اس عورت کی سزا میں معافی یا تخفیف کی التماس کردی۔

آقا ﷺ کا وہ رخ انور جس پر دل نشیں تبسّم عیاں رہتا، وہ دفعتاً سرخ ہوگیا اور آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ تم سے پہلے کی قومیں محض اس لیے صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں کہ ان میں وجود عدل فنا ہوگیا تھا، وہ کسی بھی جرم کی پاداش میں روسائے شہر کو تو چھوڑ دیتے مگر بے کسوں اور ناداروں کو سزا دینے میں تاخیر سے کام نہ لیتے۔ اﷲ رب العزّت کے جلال کی قسم! اگر جگر گوشۂ مصطفیؐ، فاطمہ ؓ (صد بار خدانخواستہ) کسی ایسے جرم کا ارتکاب کرتیں تو یہی فیصلہ صادر کرتا۔ یہی تو دین اسلام کی یہ وہ روح مساوات ہے جو اسے دیگر ادیان سے محترم کرتی ہے۔

عدل و انصاف اور مساوات پر مبنی فیصلے صادر فرماتے وقت رحمت کونین ﷺ غیر مسلموں کے بارے میں کتنے محتاط رہتے اور آپؐ کے ذہن مبارک میں یہ خیال جاگزیں رہتا کہ ہر فیصلے میں اتنا زبردست اور شان دار توازن جھلکتا نظر آئے کہ دشمنان اسلام بھی اسے قبول کرنے میں کسی ادنیٰ سے مخمصے میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ اس ضمن میں صاحب سیرت النبیؐ نے ایک بڑا دل کشا اور بصیرت افروز واقعہ تحریر کیا ہے۔ فتح خیبر کے بعد حضرت عبداﷲ بن سہل ؓ فرمان نبویؐ کے مطابق کجھوروں کی تقسیم کے سلسلے میں خیبر گئے ان کے قریبی عزیز محیصہ بھی ان کے ساتھ تھے۔

خیبر کے بازار میں گزرتے ہوئے کسی شرپسند نے عبداﷲ بن سہلؓ کو شہید کر کے ان کی لاش وہیں کسی گڑھے میں دفنا دی۔ ان کے ساتھی محیصہ نے واپس آ کر دربار رسالتؐ میں اعانت کے لیے درخواست کی اور حضورؐ کے استفسار پر عرض کیا کہ عبداﷲ کو یہود نے قتل کیا ہے۔ آقا ؐ نے ارشاد فرمایا کہ اس کا کیا ثبوت ہے کہ عبداﷲ کو یہود نے ہی قتل کیا ہے، اگر تمہیں پورا یقین ہے تو یہودیوں سے حلف لیا جا سکتا ہے۔

محیصہ نے عرض کیا حضورؐ! ان کی قسم کا کیا اعتبار وہ قسم کھا لیں گے۔ چوں کہ خیبر میں یہود کے علاوہ کوئی قوم آباد نہیں تھی اس لیے لامحالہ وجدان نبوتؐ بھی اس بات پر متفق تھا کہ انہوں نے ہی عبداﷲ کو شہید کیا ہے مگر مساوات محمدی ؐ اور عدل مصطفٰے ﷺ کا مظاہرہ دیکھیے، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا! چوں کہ کوئی عینی شاہد موجود نہیں تھا اس لیے محض مفروضے کی بنیاد پر یہود پر حد جاری نہیں کی جاسکتی۔ اور آپ ؐ نے بیت المال سے اس کا خوں بہا ادا کر دیا مگر یہود سے تعرض نہیں فرمایا۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ آقا کریمؐ کی جگہ منصف کوئی اور متشدد بادشاہ ہوتا تو غیض و غضب میں اہل خیبر پر چڑھ دوڑتا جس کے نتائج کتنے ہی بھیانک نکلتے۔ حضورؐ کے اس بے مثال کے فراست و تدبر پر قربان ہونے کو جی چاہتا ہے۔

شعور زیست کتابوں میں ڈھونڈنے والو!

شعور زیست تو اُنؐ کی گلی سے ملتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔