ذکر کچھ محُاوَروں اور کہاوتوں کا

سہیل احمد صدیقی  اتوار 18 اکتوبر 2020
وہ دور بھی اب خواب وخیال ہوا اور یہ تصور بھی محال کہ آج بامحاورہ اردو سننے کو ملے۔فوٹو : فائل

وہ دور بھی اب خواب وخیال ہوا اور یہ تصور بھی محال کہ آج بامحاورہ اردو سننے کو ملے۔فوٹو : فائل

زباں فہمی نمبر 69

میری والدہ مرحومہ جیسی بامحاورہ زبان بولنے والی کوئی اور ہستی میری نظر سے نہیں گزری۔ ہم امی مرحومہ سے، اَن گنت محاورے اور کہاوتیں، بلامبالغہ روزانہ سنا کرتے تھے۔ کوئی عمل ہو، کوئی موقع ہو، کسی کی کوئی بات ہو، کوئی ذکر ہو، والدہ مرحومہ برجستہ، برمحل، بامحاورہ زبان میں کوئی تبصرہ کرکے اُسے یادگار کردیتی تھیں۔ مجھ سے کہا کرتیں، ’’بھیا! تمھارے پاؤں میں تو چکر ہے۔ تمھاری بیوی تو پَستائے (پچھتائے) گی‘‘۔ {بہت زیادہ گھومنے پھرنے والے کو کہا جاتا ہے کہ تمھارے پاؤں میں چکر ہے۔

اس کے لیے ایک محاورہ ’’گھُمّن لٹّو‘‘ بھی ہے}۔ ہم اپنی خام علمی میں یہ سمجھتے اور کہتے کہ پچھتانا درست ہے، مگر یہ نہ جانتے تھے کہ اہل زبان کس طرح، روزمرّہ میں اصل لفظ تبدیل کرکے برتتے ہیں۔ وہ کسی بچے کے زیادہ شوق سے میٹھا کھانے پر کہتیں، ’’چَینٹے (چیونٹے) ہیں، چَینٹے۔‘‘ ہم یہ اصرار کرتے کہ لفظ ’’چیوںٹا‘‘ اور ’’چیوں ٹی‘‘ درست ہے، مگر یہاں بھی ہماری معلومات (ایک عمر گزرنے پر) ناقص ثابت ہوئیں۔ اہل زبان یونہی بولا کرتے تھے، البتہ اب ہمارے گھروں میں دوسرا تلفظ رائج ہوگیا ہے۔ {ایک مثال دِلّی والوں کی بھی یاد رہے کہ وہ لفظ مزاج کو مجاز کہتے ہیں۔

نامورادیب، نقادوشاعرڈاکٹر فہیم اعظمی جب بھی ملتے، یہی پوچھتے: ’’کیسا مجاز ہے؟‘‘۔ یعنی ایک تو اپنے آبائی وطن اعظم گڑھ کی دِلّی سے قربت کے سبب، وہاں کا ٹھیٹھ تلفظ، دوسرے جوش ملیح آبادی کی صحبت کے اثر سے، مزاج کو صیغہ واحد میں برتنا درست سمجھتے تھے}۔ امی کے ذخیرہ الفاظ میں مخصوص زنانہ بولی کا کچھ حصہ بھی شامل تھا۔ ہم نے اُن کے منھ سے بعض ایسے الفاظ، محاورے اور کہاوتیں بھی سنیں جو کسی لغت میں بمشکل ملیں گی، حتیٰ کہ زنانہ بولی کے بعض فرہنگ بھی شاید اُن سے خالی ہوں۔ افسوس ، صدافسوس! ہم اس خزانے کی قدر کرسکے ناہی اُن سے کماحقہ‘ اکتساب کرسکے۔

وہ دور بھی اب خواب وخیال ہوا اور یہ تصور بھی محال کہ آج بامحاورہ اردو سننے کو ملے۔ ہمارے نیم خواندہ معاشرے میں اب یہ وقت آگیا ہے کہ اردو تو کُجا انگریزی میں بھی محاورے یا کہاوت استعمال کرنے والے کو کہا جاتا ہے کہ آپ مشکل زبان بول رہے ہیں۔ یہ خاکسار کا ذاتی تجربہ ہے۔ اگر زباں فہمی بزبان فرنگی لکھا جائے تو بہت سارے ’’برگروں‘‘ کی انگریزی دانی کی قلعی کُھل جائے۔

بہرحال ہمارا اولین ہدف اپنی مادری و قومی زبان کی ترویج و اشاعت ہے نہ کہ ’’فادری‘‘ زبان کا فروغ۔ اکثر اردو گو یعنی اردو بولنے والے (ناصرف پاکستانی اور ہندوستانی، بلکہ پوری دنیا میں مقیم اس پیاری زبان میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے والے)، اردو کے مستقبل سے پُرامید نظر نہیں آتے۔ کچھ کا خیال ہے کہ چونکہ زبان کا ارتقاء ایک فطری عمل ہے اور (شعوری) بگاڑ اِس کا حصہ ہے، لہٰذا اس کے سدھار کے لیے وقت ضایع نہ کیا جائے اور سہیل صاحب کو چاہیے کہ اصلاح زبان کا یہ سلسلہ ترک کردیں۔

یعنی سب کچھ خودبخود ٹھیک ہوجائے گا۔ ہندوستان میں مقیم ایک بزرگ فیس بک دوست اور معروف افسانہ نگار نے میرے ایک کالم پر تبصرہ کرتے ہوئے، بزبان انگریزی، واٹس ایپ پیغام دیا (کیونکہ وہ انٹرنیٹ پر اردو کے استعمال سے ناآشنا ہیں) کہ ’’یہ سب وقت کا زیاں ہے۔ آپ لوگ تقسیم ہند کے وقت، اردو یہاں سے لے کر پاکستان گئے تھے، جہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہیں۔ ہر کوئی اپنی سمجھ کے مطابق اردو بولتا ہے۔ آپ خواہ مخواہ اُن کی زبان درست کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔‘‘ راقم نے اُن کے تبصرے کا محض مفہوم بیان کیا ہے۔

خاکسار نے محترم ادیب کو جواب نہ دینے میں عافیت جانی۔ بات بڑھانا مقصود ہوتا تو پوچھتا کہ آیا آپ نے کبھی اردو کی تاریخ پڑھی ہے؟؟؟ ایک عمررسیدہ اور جہاں دیدہ، اردو ادیب بھی یہ نہیں جانتا کہ اردو کی جنم بھومی کے مختلف دعوے داروں میں خیبر پختون خوا (سابق صوبہ سرحد/شمال مغربی سرحدی صوبہ NWFP/) بھی شامل ہے، پنجابی، سرائیکی، ہندکو، گوجری، پشتو، سندھی، بلوچی، براہوئی اور میمنی (گجراتی کی بولی) تو اردو کی ہم رشتہ ہیں ہی، دیگر زبانوں کی اکثریت بشمول بَلتی، شِینا، کشمیری، پہاڑی، ڈوگری اور بروشسکی میں بھی اردو سے ربط و ضبط بہت نمایاں ہے، نیز پاکستان میں بولی جانے والی فارسی بعض اعتبار سے جدید ایرانی فارسی کی نسبت، قدیم فارسی اور موجودہ اردو سے زیادہ قریب ہے۔

اسی پر بس نہیں، ہماری انگریزی بھی دنیا بھر میں رائج ، انگریزی کے مختلف لہجوں سے قدرے مختلف ہے۔ خیر یہ بحث پھر کبھی سہی۔ ابھی تو ہم بات کریں گے اردو محاوروں کی۔ ہمارے یہاں بامحاورہ اردو کا رواج کم ہونے کی وجوہ میں یقیناً منظم منصوبہ بندی/ساز ش کے تحت، غنڈہ راج کا قیام سب سے زیادہ قابل ذکر اور لائق مذمت ہے۔ لسانی تعصب کے بُت تراش کر، عوام الناس کو آپس میں لڑا بھڑا کر، اپنے پرانے آقاؤں کی روش پر چلتے ہوئے، اُن کے کُتّے نہلانے والے، اپنے ہی پیاروں سے غداری کرکے سامراجی آقاؤں سے جاگیریں اور خطابات وصول کرنے والے جب بھی سوچتے ہیں، اُنھیں یہی محسوس ہوتا ہے کہ عوام کی حیثیت کیڑے مکوڑے سے زیادہ نہیں اور انھیں تعلیم سے دور رکھ کر، بے جا لسانی تعصب میں مبتلا کرکے اور ’’سیا ہ۔ست‘‘ کو سیاست کا لبادہ اوڑھا کر مشغول رکھنے ہی میں ہمارا فائدہ ہے۔

دیگر وجوہ میں ذرایع ابلاغ کی بیہودہ ثقافتی یلغار کے علاوہ والدین، بزرگوں اور اساتذہ کی نااہلی بھی شامل ہے۔ اب ہماری عمر یعنی اَدھیڑ عمر کو پہنچنے والی اکثر دادیاں اور نانیاں، خالائیں، پھوپھیاں، چچیاں، تائیاں اور مُمانیاں بچوں کو زبان کی موزوں تعلیم دینے سے قاصر نظر آتی ہیں۔ ان کی اکثریت کے تو نام بھی اُوٹ پٹانگ ہوں گے جو ٹی وی ڈرامے دیکھ کر رکھے گئے ہوں گے۔ ہمیں تو کچھ عرصے پہلے، ایسے جوان ماں باپ بھی نظر آئے جو اپنے ننھے منے بچے کو زبانی وعملی درس دے رہے تھے کہ بلی اور ایسا کوئی پالتو جانور نظر آئے تو لات مارکر بھگادو۔

زبان کے علم اور تہذیب سے عاری یہ مخلوق، اپنے بچوں کی تربیت خاک کرے گی۔ اساتذہ کی تعلیم وتربیت پر کیا بات کریں، اُنھیں تربیت دینے والے یعنی Master trainers کی اپنی علمیت بہت محدود ہوتی ہے، پھر بھی ’’اندھوں میں کانے راجا‘‘ بنے ہوئے ایک ماہ میں لاکھوں روپے ایک ہی کورس سے کمالیتے ہیں۔ اہل قلم بھی اسی معاشرے کے ایسے ہی افراد کے درمیان جنم لیتے ہیں۔ اب اگر ہمیں یہ شکوہ ہوتا ہے کہ صاحبو! فُلاں مشہور ادیب، شاعر یا صحافی بھی غلط زبان بولتا اور لکھتا ہے تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔ اُس کا مَبلغ ِ علم بھی تو دیکھیں۔ ’’آدھا تیتر، آدھا بٹیر‘‘ قسم کی مخلوق جو تعلیم پاتی ہے، اس سے تو ظاہر ہے کہ ’’ناخدا ہی ملا نہ وصال صنم‘‘ اور ’’کوّا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا‘‘ والا معاملہ ہوتا ہے۔

مُحاوَرے کی تعریف یہ ہے کہ کم از کم دو الفاظ کا مرکب، مصدر جو اپنے اصل یا حقیقی معنی کی بجائے مرادی یا مجازی معنی میں استعمال ہو وہ مُحاوَرہ کہلاتا ہے (میم پر پیش، واؤ پر زبر کے ساتھ) ۔ مثال کے طور پر پینا مصدر ہے، مجازی استعمال میں غصہ پینا، آنسو پینا، پی جانا بمعنی برداشت کرنا…. اسی طرح کھانا کا مجازی استعمال جیسے ہَوا کھانا، چُغلی کھانا، غم کھانا، حتیٰ کہ چالو زبان میں روزہ کھانا/روزہ خوری، کسی کا مال کھانا یا پیسہ کھاناوغیرہ ۔ بگھارنا سے شیخی بھگارنا، مارنا سے گپ مارنا (چالو زبان)، ڈینگیں مارنا اور اسی طرح بہت سی دیگر مثالیں۔ فرہنگ آصفیہ ہمیں بتاتی ہے کہ مُحاوَرہ، عربی لفظ، اسم مذکر، واحد ہے جس کی جمع ہم نے مُحاوَرات بنائی ہے۔

اب اس کے لغوی معانی دیکھیں: (۱)۔ ہم کلامی، باہمی گفتگو، بول چال، بات چیت، سوال جواب (۲)۔ اصطلاح ِ عام، روزمَرّہ، وہ کلمہ یا کلام جسے چند ثِقات ]ثِقہ یعنی معتبر کی جمع[ نے لغوی معنی کی مناسبت یا غیرمناسبت سے کسی خاص معنی کے واسطے مَختص کرلیا ہو جیسے حیوان سے کُل جاندار مقصود ہیں، مگر محاورے میں غیرذوی العقول ]بے عقل مخلوق[ پر اس کا اطلاق ہوتا ہے اور ذوی العقول کو انسان کہتے ہیں ]یہ لفظ مَخ۔تَص ہے ناکہ مُخ۔تص، جیسا کہ ہمارے ٹی وی چینلز پربولا جاتا ہے[، (۳۔ا) عادت، لپکا، مہارت، مشق، ربط، ابھیاس جیسے مجھے اب اس بات کا محاورہ نہیں رہا۔

فرہنگ آصفیہ کے متن سے مزید خوشہ چینی کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ محاورہ پڑنا (اردو) فعل لازم ہے، جس کے معانی ہیں: روزمرّہ پڑنا، عادت ہوجانا، سبھاؤ پڑجانا، لپکا پڑجانا اور بان پڑنا۔ اسی طرح محاورہ ڈالنا (اردو) فعل متعدّی کے معانی میں عادت ڈالنا، کسی بات کا عادی بنانا، مہارت پیدا کرنا، مشق بہم پہنچانا اور ربط ڈالنا مذکور ہے۔

ہم یہاں محاوروں کی ایک فہرست اس خیال سے دُہراتے ہیں کہ بچے اور بڑے دونوں اس کا مفہوم اور محل سمجھ کر، بوقت ِضرورت استعمال کرسکیں اور جو بھول چکے، وہ دُہرا کر اپنی معلومات پختہ کرلیں۔ آب دانہ اُٹھ جانا (جگہ چھوڑدینا، مرجانا): سنو میاں! اب ہمارا آب دانہ یہاں سے اٹھ چکا، ہم جاتے ہیں۔

آبرو رکھنا (لاج رکھنا، بے عزتی سے بچانا): بہت فرسودہ شعر ہے: الہٰی آبرو رکھنا ! بڑا نازک زمانہ ہے+ دلوں میں کفر رکھتے ہیں، بظاہر دوستانہ ہے۔ آپ کاج، مہا کاج (اپنا کام اپنے ہاتھوں ہی بہتر)، آٹا گیلا ہونا/مفلسی میں آٹا گیلا ہونا: غربت میں مزید دکھ ملنا، غموں میں اضافہ ہونا، آدمی کا شیطان آدمی ہے (انسان ہی انسان کو بہکاتا ہے) {کیا ہنسی آتی ہے مجھ کو حضرت انسان پر+فعل بد تو اِن سے ہو ، لعنت کریں شیطان پر (انشاء اللہ خان انشاءؔ)۔یا۔ شیطان کی دنیا میں ضرورت نہیں یارب+بربادی انساں کو انسان بہت ہے}،آڑے ہاتھوں لینا (کھری کھری سُنانا، برا بھلا کہنا)، آڑے وقت پر کام آنا (مصیبت یا مشکل کے وقت کام آنا۔ بہت پہلے ایک تحقیق کہیں پڑھی تھی کہ یہ اصل میں اَڑے وقت تھا)۔

آس سے ہونا (حاملہ ہونا) جیسے فُلاں عورت کو کچھ نہ کہو، آس والی ہے (یہ غالباً مخصوص زنانہ بولی ہے)، آستین کا سانپ (دھوکے باز، خصوصاً جسے آپ نے خود پالا پوسا ہو)، آگے پڑے کو شیر بھی نہیں کھاتا (دشمن خواہ کتنا ہی طاقتور اور غصیلا ہو، عاجزی کے اظہار پر، معاف کردیتا ہے)، آنکھ اوٹ، پہاڑ اوٹ/آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل (جو چیز یا شخص نظروں سے دور ہو یا چلا جائے، اس کی اہمیت نہیں)، آنکھ سے سُرمہ چُرانا (چالاکی، دھوکا دہی) جیسے فُلاں شہر کے لوگ تو ایسے ہیں کہ آنکھوں سے سُرمہ چرالیں، آنکھ کا اندھا، گانٹھ کا پورا (امیر، مگر بے وقوف شخص)، آنکھ کا پانی مرنا/آنکھ کا پانی ڈھلنا/دِیدوں کا پانی مرنا (بے شرم، بے غیرت، بدلحاظ ہوجانا)، آنکھ کا تارا ہونا (ہر دل عزیز ہونا، سب کو پیارا ہونا) جیسے بقول شاعر  ؎ وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا، آنکھ میں سؤر کا بال ہونا /ماتھے پر آنکھ رکھنا (بے مَروّت ہونا)، آئے ہاتھی کی چال، جائے چیونٹی کی چال (بیماری یا مصیبت کا تیزی سے آنا اور اثرکرنا، دیر سے واپس جانا)، اب پچھتائے کیا ہوت/ہووَت، جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت (کام کا موقع نکل جانے کے بعد افسوس کرنا)، ابھی دِلّی دور ہے/ہنوز دِلّی دوراست (مطلب یا مقصد کی جلد تکمیل نہ ہونے کا احساس واظہار)، اپنا اُلّو سیدھا کرنا (اپنا مطلب نکالنا، خواہ بے وقوف بناکر ہو)، اُلٹے بانس بریلی (بے تُکی بات کرنا)۔ {ہندوستان میں بریلی شریف کے نام سے مشہور شہر کا دوسرا نام بانس بریلی ہے، جبکہ ایک اور شہر کا نام رائے بریلی ہے}، الّو کا پٹّھا ہونا (بے وقوف ہونا، بے وقوف بن جانا)] پٹھا اصل میں پرندے کے بچے کو کہتے ہیں، ویسے کُشتی میں یہ اصطلاح کسی پہلوان کے شاگرد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

[، الّو کا گوشت کھِلانا (بے وقوف بنا کر اپنے قابو میں کرنا)] سِفلی عمل یا کالا جادو کرنے والے واقعی ایسا کرتے ہیں۔ راقم نے ایک شخص کو اسی عمل کے تحت، عجیب وغریب حرکات کرتے ہوئے دیکھا ہے[۔ آپ نے دیکھا کہ محض الف سے شروع ہونے والی فہرست ہی اتنی طویل ہے کہ بہت کڑا انتخاب بھی کریں تو ہمارے اس مضمون کے ذخیرہ الفاظ کی حد سے باہر نکل جائے۔ {بچوں اور بچوں کے اساتذہ کو محاورے سیکھنے کے لیے تمام مستند لغات کے علاوہ اس موضوع پر تالیف کی گئی جامع کتب مثلاً فرہنگ اردو محاورات کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ یہ کتاب ہندوستان کے ایک فاضل ادیب پروفیسر محمد حسن نے تالیف کی اور اِس کا چربہ لاہور کے ایک ناشر نے شایع کیا ہے}۔ اب بات کرتے ہیں، کہاوتوں کی جنھیں ضَرب المَثل (جمع ضرب الاَمثال) بھی کہا جاتا ہے۔ محاورہ کی انگریزی Idiom ہے، جبکہ کہاوت کوProverb اور Saying کہا جاتا ہے۔ کہاوت ہندی الاصل، اسم مؤنث ہے جس کے معانی یوں بیان کیے گئے ہیں: (۱)۔ کہن، قول، بچن، مثل (۲) ضرب المثل، نیوا، وہ بات جو نظیراً باربار زبان پر آئے (فرہنگ آصفیہ)۔ ]کہن کا مطلب ہے کہا ہوا، اگر اس کے کاف پر پیش لگادیں تو یہ پرانے کے معنی میں استعمال ہوگا۔

بچن وہی لفظ ہے جو ’’بول بچن‘‘ اور امیتابھ بچن میں شامل ہے۔ نیوا ایک متروک لفظ ہے۔ نظیراً کا مطلب ہے نظیر یعنی مثال کے طور پر[ {کہاوت کے پس منظر میں عموماً کوئی سچی، جھوٹی یا فرضی حکایت یا واقعہ ہوا کرتا ہے جیسے ’’پانڈے جی پچھتائیں گے، پھر وہی چنے کی کھائیں گے‘‘ کا واقعہ یہ ہے کہ کسی لڑکے نے اپنی ماں کے ہاتھ کی بنی ہوئی، چنے کی دال کھانے سے انکار کیا، گھر سے نکل گیا، ایک لمبا سفر طے کرنے کے بعد بھی، اُسے جب ہر جگہ یہی دال ملی تو آخرکار تھک ہارکر کھانی پڑی۔ ایسی کہاوتیں آج کل کے بِگڑے ہوئے، بلکہ بِگاڑے ہوئے بچوں (Pampered  children ) کو ضرور سنانی چاہییں}۔ کچھ مثالیں دیکھیے: ’’آدمی آدمی اَنتر، کوئی ہِیرا کوئی پتھر‘‘ (انسان ہر طرح کے ہوتے ہیں، کوئی اچھا اور کارآمد تو کوئی نِکمّا اور فضول)، ’’آنکھوں سے اندھا، نام نین سُکھ ‘‘ (ظاہری حالت یا حالات کے برعکس معاملہ ہونا) {ویسے نین سُکھ ایک کپڑے کا نام ہوا کرتا تھا جو آج کل مفقود ہے۔

بات کی بات ہے کہ خاکسار نے ایک مرتبہ، حسب معمول ایک سخت قسم کا افسانہ ماہنامہ صریر میں اشاعت کے لیے پیش کیا تو مدیر ڈاکٹر فہیم اعظمی نے میری وضع کردہ اصطلاح ’’سرکاری ڈاکو‘‘ یعنی پولیس کو بدل کر ’’نین سُکھ ‘‘ کردیا۔ میں نے اشاعت کے بعد دیکھا تو اُن سے حجت کی۔ انھوں نے اپنی سی وضاحت پیش کی، مگر میرا کہنا یہ تھا کہ اِن دنوں اس ترکیب سے کون واقف ہے اور کون سمجھے گا}۔ ’’ایک گال میں آگ، دُوجے میں پانی‘‘ (وقت کے ساتھ ساتھ پینترا بدلنے والے، منافق کے لیے استعمال ہوتا ہے جو کبھی میٹھا بن جائے تو کبھی درشت لہجہ اپنا کر دشمن) {حکایت ہے کہ ایک انسان کی ایک ریچھ سے دوستی ہوگئی۔ دونوں ہر جگہ ساتھ ساتھ جاتے۔ ایک مرتبہ ایک جگہ بہت ٹھنڈ تھی، انسان نے اپنے ہاتھوں کو ملاکر پھونکیں ماریں تاکہ حرارت کا احساس ہو۔ ریچھ کے پوچھنے پر سبب بتادیا۔ آگے چلے تو جنگل میں لکڑیاں جلا کر کھانا پکایا۔ گرما گرم سالن ٹھنڈا کرنے کے لیے پھر وہی عمل دُہرایا تو ریچھ سے نہ رہا گیا۔ اب جو اُس نے استفسار کیا تو انسان کی وضاحت اُس کے دل کو نہ بھائی۔ ہاتھ جھاڑ کر یہ کہتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوگیا کہ ’’نا بابا نا….یہ کیا ؟ ایک گال میں آگ ، دُوجے میں پانی۔ تمھارا بھروسا نہیں!‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔