حکومت کی نااہلی، فنڈ نہ دینے سے 64 سی این جی بسیں گل گئیں

سید اشرف علی  جمعـء 25 دسمبر 2020
75سرکاری بسوں کا کرایہ10روپے اور 15روپے مسافروں سے وصول کیا جاتا تھا، سرجانی سے ٹاور کیلیے چلائی گئی تھیں ۔  فوٹو : فائل

75سرکاری بسوں کا کرایہ10روپے اور 15روپے مسافروں سے وصول کیا جاتا تھا، سرجانی سے ٹاور کیلیے چلائی گئی تھیں ۔ فوٹو : فائل

 کراچی:  سابق شہری حکومت کے دور میں عوام کو سفری سہولت پہنچانے کے لیے خریدی گئی 75 سی این جی بسوں میں سے 64بسیں کئی عرصے سے خراب پڑی ہیں اور سرجانی ٹاؤن ڈپو میں گل سڑ رہی ہیں، 10بسیں مختلف سرکاری اداروں کو تحفے میں دی جاچکی ہیں جبکہ ایک بس ہنگامی آرائی میں نذرآتش ہوچکی ہے۔

سندھ حکومت کی مجرمانہ غفلت کے باعث شہر قائد میں دس سال سے پبلک ٹرانسپورٹ کی شدید کمی واقع ہے جس کی وجہ سے شہریوں کو سفری سہولیات میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس دوران کوئی پبلک ٹرانسپورٹ اسکیم مستقبل بنیادوں پر شروع نہیں کی جاسکی۔

شہر میں اس وقت ہزاروں کی تعداد میں غیرقانونی 9اور 12سیٹوں والے سی این جی چنگچی رکشا پبلک ٹرانسپورٹ کا روپ دھار چکے ہیںلیکن یہ بھی طویل فاصلوں کے لیے نہیں ہیں ، پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی کی وجہ سے شہری ان چنگچی رکشاؤں میں سفر کرنے پر مجبور ہیں لیکن شہریوں کو اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے دو سے تین چنگچی رکشا بدلنے پڑتے ہیں اور دوگنا کرایہ دینا پڑتا ہے۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی گذشتہ کئی سالوںسے سندھ حکومت سے درخواست کررہی ہے کہ ان بسوں کی مرمت کے لیے فنڈز جاری کیے جائیں لیکن سندھ حکومت نے ان سی این جی بسوں کی مرمت کے لیے صرف ایک بار فنڈز جاری کیے جس سے 36بسیں صحیح کی جاسکیں۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ایک آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سابق سٹی ناظم مصطفی کمال کے دور میں 2009  میں 75سی این جی بسیں خریدی گئیں ، ان بسوں کو سرکاری سطح پر تین روٹس پر آپریٹ کیا گیا۔

25بسیں سرجانی سے ٹاور کے لیے چلائی گئیں، 25بسیں سرجانی تا کورنگی اور 25بسیں اورنگی تا ملیر چلائی گئیں، شہری حکومت اس بس اسکیم کے لیے سبسڈی بھی جاری کرتی تھی جس کی وجہ ان ان بسوں کا کرایہ نہایت کم رکھا گیا، کم سے کم کرایہ 10روپے اور زیادہ سے زیادہ کرایہ 15روپے مسافروں سے وصول کیا جاتا تھا۔

یہ ایک کامیاب پبلک ٹرانسپورٹ اسکیم کی تھی جس میں روزانہ ہزاروں مسافر سفر کرتے تھے،2010 میں منتخب شہری حکومت کے تحلیل ہونے کے بعد بلدیاتی نظام مکمل طور پر سندھ حکومت کے تابع ہوگیا اور اس دوران شہری حکومت کے بلدیاتی قوانین کا خاتمہ کرکے بلدیہ عظمیٰ کراچی کو دوبارہ بحال کردیا گیا۔

سندھ حکومت نے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے تمام اختیارات چھین کر مختلف صوبائی اداروں کو تفویض کردیے جس کی وجہ سے بلدیہ عظمیٰ کراچی بدستور شدید مالی بحران کا شکار ہے اور ہر ترقیاتی اسکیم پر عمل درآمد کیلیے اسے سندھ حکومت کا محتاج ہونا پڑتا ہے۔

متعلقہ آفیسر کے مطابق شہری حکومت کے خاتمہ کے بعد بلدیہ عظمی کراچی کو فنڈز کی شدید قلت کا سامنا رہا ، اس دوران سندھ حکومت کے اعلیٰ حکام کی ہدایت پر10بسیں مختلف سرکاری اداروں کو تحفے میں دیدی گئیں جبکہ ہنگامہ آرائی میں ایک بس نذر آتش ہوکر گراؤنڈ ہوگئی۔

2011 میں فنڈز کا اجرا نہ ہونے اور مرمت نہ ہونے کی وجہ سے بقیہ 64 بسیں خراب ہوگئیں اور تینوں روٹس بھی بند کردیے گئے، یہ تمام بسیں تقریباً تین سال تک خراب پڑی ہیں 2014 میں سندھ حکومت نے اتنے فنڈز جاری کیے جن سے صرف 36بسیں مرمت کی جاسکیں جبکہ بقیہ 28بسیں 9سال سے خراب پڑی ہیں۔ سندھ حکومت کی ہدایت پر 36صحیح ہونے والی بسوں کو گلشن حدید تا ٹاور نجی ٹرانسپورٹرز کی نگرانی میں چلایا گیا جس کی وجہ سے اس کا کرایہ 40روپے تک بڑھادیا گیا۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی کے متعلقہ آفیسر نے بتایا کہ 2016 میں مئیر کراچی وسیم اختر منتخب ہوکر آئے لیکن ان کے دور میں بھی فنڈز کی قلت کا سامنا رہا اور خراب ہونے والی بسیں درست نہ ہوسکیں، اس دوران 36بسیں گذشتہ 6سال سے گلشن حدید تا ٹاور چلتی رہیں لیکن نجی ٹرانسپورٹر سے معاہدے کی مدت ختم ہونے کے باعث سات ماہ قبل ان بسوں کو بھی بند کردیا گیا۔ ابھی یہ بسیں سرجانی ٹاؤن ڈپو پر کھڑی ہیں اور بہتر کنڈیشن میں ہیں جبکہ دیگر 28بسیں انتہائی خستہ حالی کا شکار ہیں، ان بسوں کی مرمت کے لیے وافر فنڈز درکا ر ہیں۔

متعلقہ آفیسر نے بتایا کہ گذشتہ ہفتے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت کابینہ اجلاس میں فیصلہ ہوا ہے کہ نجی ٹرانسپورٹ کمپنیوں سے ٹینڈر طلب کیے جائیں گے کہ 64بسوں کو اپنے فنڈز سے بلڈ آپریٹ کی بنیاد پر دوبارہ آپریشنل کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔