بابائے قوم غیروں کی نظر میں

خواجہ رضی حیدر  ہفتہ 11 ستمبر 2021
قائداعظم نے فلسطین پر صہیونیت کے غاصبانہ قبضے اور اسرائیل کے قیام پر گہری ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔  فوٹو : فائل

قائداعظم نے فلسطین پر صہیونیت کے غاصبانہ قبضے اور اسرائیل کے قیام پر گہری ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ فوٹو : فائل

قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی 72 سالہ زندگی کے دوران تقریباً 44 سال تک ہندوستان کے مسلمانوں کی ترقّی، خوش حالی، سیاسی بالادستی اور آزادی کے لیے جدوجہد کی۔

اس عرصے میں اگرچہ اُن کو بعض مراحل پر اپنے اور غیروں کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا مگر ان کی بے پناہ قائدانہ صلاحیتوں اور ناقابلِ تسخیر سیاسی کردار نے 1937 میں یہ بات طے کردی تھی کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے بلاشرکت غیرے وہی قائداعظم ہیں۔

قائداعظم کی ان ہی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے شاعرِ مشرقِ علّامہ اقبال نے جون 1937 میں قائداعظم کے نام ایک خط میں تحریر کیا کہ ’’اس وقت جو طوفان شمال مغربی ہندوستان اور شاید پورے ہندوستان میں برپا ہونے والا ہے اس میں صرف آپ ہی کی ذات گرامی سے قوم محفوظ راہ نمائی کی توقع کا حق رکھتی ہے۔‘‘ یہ ایک حقیقت ہے کہ تاریخ کے اس انتہائی نازک موڑ پر جب ہندوستان کے مسلمان اپنی بقا اور سلامتی کی جانب سے بڑی حد تک مایوس ہوچکے تھے۔

قائداعظم محمدعلی جناح نے تدبر، فراست، غیرمتزلزل عزم، سیاسی بصیرت اور بے مثل قائدانہ صفات سے کام لے کر مسلمانوں کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح متحد کردیا اور سات سال کی مختصر مدّت میں مطالبہ پاکستان کی ایسی وکالت کی کہ 14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ برِّصغیر میں ایک آزاد مسلم مملکت کے قیام کا وہ دیرینہ خواب جو اسلامیانِ ہند گزشتہ دو صدیوں سے دیکھتے چلے آرہے تھے 14 اگست 1947 کو شرمندۂ تعبیر ہوا۔ اس خواب کی تعبیر ایک فردواحد کی چشمِ کرشمہ ساز کا نتیجہ تھی اور وہ فردِ واحد قائداعظم محمدعلی جناح تھے۔

1948 بابائے قوم قائداعظم محمدعلی جناح کی زندگی کا آخری سال تھا۔ اگرچہ آپ نے اپنی سیاسی زندگی نہایت سرگرمی اور تن دہی سے گزاری مگر آپ کی زندگی کے آخری دس سال جن میں آپ کو بڑھتی ہوئی عمر اور گرتی ہوئی صحت کے پیش نظر مکمّل آرام کی ضرورت تھی نہایت ہنگامہ خیز سال تھے۔

قیامِ پاکستان کے بعد نومولود ریاست کے مسائل ایسے نہ تھے جن کو قائداعظم نظرانداز کردیتے یا دوسروں پر چھوڑ دیتے، چناںچہ آپ نے ان مسائل کی جانب بھرپور توجّہ دی۔ پاکستان کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کا تعین اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ملک کے مختلف علاقوں کا دورہ کرکے وہاں کے عوام کے مسائل معلوم کرنا اور پھر ان کے تدارک کے لیے اقدامات، قومی معیشت کا فروغ و استحکام، تعلیمی نظام کو مؤثر بنانا، سرحدوں کا دفاع، آئین ساز اسمبلی، سرکاری مُلازمین اور مسلح افواج کو نہ صرف اُن کے فرائض سے آگاہ کرنا بلکہ اُن کو یہ باور کرانا کہ قوم اُن سے کیا توقعات رکھتی ہے۔

ان تمام اُمور سے قائداعظم نے حتی المقدور عہدہ برآ ہونے کی بھرپور کوشش کی۔ بقول پروفیسرشریف المجاہد ’’تمام حالات و واقعات کا دیانت داری سے تجزیہ کیا جائے تو یہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ یہ نوزائیدہ قوم اپنی ہنگامہ خیز پیدائش کے فوراً بعد ہی پیش آنے والے تباہ کن اور ہول ناک بحران میں بھی محض اس لیے زندہ سلامت رہی کہ اس دور میں قائداعظم اُمور مملکت کے نگراں تھے۔

پاکستان کے عوام کو اُن پر جو بے پناہ اعتماد تھا، لوگوں کے دلوں میں اُن کے لیے جو زبردست عقیدت و محبّت تھی، قائداعظم نے اُسی کو بروئے کار لاکر اپنی قوم کو درپیش مشکلات و مصائب سے نمٹنے کے لیے حوصلہ عطا کیا۔ اُسے ان تباہیوں، بربادیوں اور ہول ناکیوں کا نئی توانائیوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کا عزم عطا کیا۔ آزادی نے عوام کے سینوں میں حبّ الوطنی کے جن جذبات کو بھڑکایا تھا اُن کی حدّت اور حرارت اور توانائی کا رُخ تعمیری سرگرمیوں کی سمت موڑ دیا۔

بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کی بے مثل قیادت اور سیاسی بصیرت کو نہ صرف مسلمانانِ ہند نے ہمیشہ فخر کی نگاہ سے دیکھا بلکہ دنیا کے تمام راہ نمائوں نے اُن کی شخصیت اور عظمت کردار کو ہمیشہ خراجِ تحسین وعقیدت پیش کیا۔ برطانیہ کے وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی نے قائداعظم کے انتقال پر اپنے تعزیتی بیان میں قائداعظم کو دُنیا کے عظیم راہ نمائوں میں نمایاں اور ممتاز قرار دیا اور کہا کہ وہ اپنے مقصد سے گہری وابستگی پر یقین رکھتے تھے اور اسی یقین نے اُن کو حصولِ پاکستان کی صورت میں عظیم کام یابی سے ہم کنار کیا۔

برطانوی پارلیمنٹ کے معروف رکن اور مدبر سراسٹیفورڈ کرپس نے کہا کہ وہ بحیثیت انسان راست بازی اور دیانت داری کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز تھے۔ اُن کے ساتھ گفتگو کرنا متعدد وجوہات کی بنا پر دشوار ترین تھا کیوں کہ وہ اپنے مقصد اور مؤقف پر غیرمتزلزل یقین رکھتے تھے۔ بہت نفیس اور خوش اخلاق تھے۔

اپنے مؤقف کے حق میں دوسروں کو ہم وار کرنا اور دوسروں کے اُٹھائے ہوئے سوالات کا مدّلل جواب دینے کے لیے پوری رات جاگنے کے لیے تیار رہنا اُن کی فطرت ثانیہ تھی۔ وزیرہند سرپیتھک لارنس کا خیال ہے کہ جناح کا نام ایک عظیم قوم کی تشکیل کرنے والے راہ نما کی حیثیت سے تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔

امریکا کے صدر ہیری ٹرومین نے قائد کے حوالے سے کہا کہ محمدعلی جناح نہ صرف پاکستان کے خواب کو تعبیر سے ہم کنار کرنے والے بلکہ ایک مملکت کے معمار اور دنیا کی سب سے بڑی (مسلم) قوم کے بابائے قوم تھے۔ اُن کی مقصد سے وابستگی جاں نثاری اور بے مثل قیادت کی یادیں آئندہ آنے والے دنوں میں بھی پاکستان کے عوام کی راہ نمائی کرتی رہیں گی۔

امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ جارج مارشل نے قائداعظم کی خصوصیات گنواتے ہوئے کہا کہ اْن کی راست بازی، دیانت داری، خلوص اور ناقابلِ تسخیر عزم کی اُن کے سیاسی دوست اور دشمن سب ہی قدر کرتے رہے۔ محمدعلی جناح کو تنظیمی اور سیاسی اُمور میں جو مہارت حاصل تھی اس نے اُن کو نہ صرف ایشیا بلکہ دنیا کے عظیم مدبروں کی صف میں ہمیشہ نمایاں رکھا۔

بمبئی کے وزیراعلیٰ اور قائداعظم کے ذاتی دوست پی جی کھیر نے قائداعظم محمدعلی جناح کو ایک تاریخ ساز شخصیت قرار دیا اور کہا کہ اُن کی قوتِ فیصلہ، خوداعتمادی اور بے مثل سیاسی بصیرت و وکالت نے اُن کو قابلِ رشک راہ نما بنا دیا تھا۔

سیکریٹری آف اسٹیٹ برائے ہند ایڈون سموئل مانیٹگو نے 1917 میں قائداعظم محمدعلی جناح کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نہایت ہوشیار آدمی ہیں اور افسوس کہ اُن کو ان کے اپنے ہی ملک ہندوستان کے اْمور حکومت میں کوئی دخل حاصل نہیں ہے۔

1946-47 میں صوبہ سرحد کے گورنر سر اولف کیرو کا کہنا ہے کہ محمدعلی جناح ایک سیاست داں سے بھی بڑھ کر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص اُن کے بارے میں صائب رائے رکھتا ہے۔ اُن کی مکمّل شخصیت قابلِ رشک ہے۔

اسٹیٹس مین کے ایڈیٹر آئین اسٹیفن نے اپنی کتاب میں قائداعظم کو ایک قوم کا معمار قرار دیتے ہوئے کہا کہ مستقبل کے مؤرّخ محمدعلی جناح کو بسمارک اور کیور کا ہم پلّہ قرار دیں گے۔

پروفیسر رش بروک ولیمز نے جو لندن ٹائمز کے ایڈیٹوریل اسٹاف میں بھی شامل تھے قائداعظم کی رحلت پر اُن کے بارے میں اظہارِخیال کرتے ہوئے لکھا کہ وہ ایک عظیم راہ نما تھے۔ ایک ایسے راہ نما جنہوں نے برِّصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ میں ایک انقلاب برپا کردیا۔

قائداعظم کے انتقال پر سرپیتھک لارنس نے کتنی معنٰی خیز بات کہی تھی کہ ’’گاندھی ایک قاتل کے ہاتھوں مارے گئے لیکن جناح نے پاکستان سے گہری وابستگی اور لگائو کی راہ میں اپنی جان دے دی۔‘‘

لندن ٹائمز نے لکھا، ’’وہ ان لوگوں کے لیے اس قوم کے لیے جو ان کی راہ نمائی میں یہاں تک آئی تھی۔ قائداعظم سے بھی بڑھ کر، سربراہ مملکت سے بھی زیادہ سربلند اور اس اسلامی مملکت کے جس کی بنیاد خود انہوں نے رکھی تھی، معمار سے بھی کچھ زیادہ ہی حیثیت رکھتے تھے۔‘‘

قائداعظم بلاشبہ ہندوستان کی جدید تاریخ کے معمار تھے۔ ایک تاریخ ساز شخصیت۔ ایک ایسی شخصیت جس کی عصرِحاضر میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ بقول سروجنی نائیڈو جناح عصرِحاضر کی سب سے سربرآور دہ اور جاذب نظر شخصیت تھے۔ قائداعظم محمدعلی جناح کی شخصیت آج بھی اپنے سیاسی کردار کے آئینہ میں سماجی علوم کے ماہرین کے لیے ایک اہم ترین شخصیت ہے۔ ایک ایسی شخصیت جس کی تفہیم کے بغیر ہندوستان کی جدید تاریخ کا نہ ابلاغ ممکن ہے اور نہ ہی پاکستان کی اُن کے تصوّر کے مطابق ترقّی و خوش حالی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔

قائدا عظم کے آخری ایام
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
محفوظ النبی خاں

“ہماری خواہش ہے کہ جب ہم دوبارہ آئیں تو پاکستان کو اپنے نانا (قائد اعظم محمد علی جناح ؒ) کے وژن کے مطابق ترقی یافتہ دیکھیں۔” ان تاثرات کا اظہار قائد اعظم محمد علی جناح کی صاحب زادی دینا جناح کے صاحب زادے جہانگیر واڈیا نے اس وقت کیا جب انہوں نے اپنی والدہ کے ہمراہ کراچی آمد پر مزار قائد پر حاضری دی تھی۔

محترمہ دینا واڈیا نے اپنے والد کے مقبرے کی عمارت کو عالی شان قرار دیا تھا۔ کراچی میں اپنے قیام کے دوران انہوں نے والہانہ انداز میں اشرف اور اکبر لیاقت علی خان سے بھی ملاقات کی تھی۔ دینا واڈیا اس سے قبل قائد اعظم کی وفات کے موقع پر کراچی تشریف لائی تھیں۔ اس وقت ممبئی سے انہیں کراچی لانے کے لیے حکومت پاکستان نے خصوصی طیارے کا اہتمام کیا تھا ۔ محترمہ دینا جناح 15اگست1919 کو پیدا ہوئی تھیں جب کہ ان کی والدہ رتن بائی کا یوم پیدائش اور یوم وفات ایک ہی تاریخ29 فروری ہے۔

یہ مضمون قائد اعظم کی برسی پر تحریر کیا جا رہا ہے جس کی مناسبت سے ان کے آخری ایام کا مختصر تذکرہ ضروری ہے۔ اس سلسلے میں قائد اعظم کے ADC بریگیڈیئر (ر) نور حسین کی تحریروں سے استفادہ لازمی ہے۔ ان کے مطابق قائد اعظم 25مئی کو 1948 کو کوئٹہ پہنچے تھے اور بعدازآں 17جون کو بلوچستان کے پُرفضا مقام زیارت منتقل ہوگئے تھے۔

کوئٹہ میں اہم تقریبات میں شرکت کے بعد جن میں پارسی برادری کی جانب سے استقبالیہ بھی شامل تھا، جہاں انہوں نے اپنی تقریر میں بطورخاص حکومتی کارکردگی کی تعریف کی تھی، زیارت میں 13 روز قیام کے بعد وہ کراچی تشریف لائے جہاں انہوں نے یکم جولائی1948 کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کیا اور 4جولائی کو امریکا کے یوم آزادی کے استقبالیہ میں شرکت کی جس کی دعوت انہیں پاکستان میں متعین امریکی سفیر نے خصوصی طور پر دی تھی۔ بعدازآں6جولائی 1948 کو وہ دوبارہ کوئٹہ منتقل ہوگئے۔

اس موقع پر بریگیڈیئر (ر) نور حسین کے مطابق انہوں نے حکومت کی ذمے داریاں وزیر اعظم لیاقت علی خان کے سپرد کردی تھیں۔ بریگیڈیئر (ر) نور حسین نے مئی سے11ستمبر1948 قائد اعظم کی وفات تک اے ڈی سی کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں۔ ظاہر ہے کہ ان کو اپنی ملازمت کے باعث قائداعظم سے جو قرب نصیب ہوا وہ قائداعظم کے معالج کرنل ڈاکٹر الٰہی بخش سے زیاد ہ ہے۔ ان وجوہات کی بناء پر بریگیڈیئر (ر) نور حسین کے تاثرات کہیں زیادہ اہم اور مستند ہیں۔ انہوں نے اپنے تاثرات میں ڈاکٹر الٰہی بخش کی لغوگوئی کو طشت ازبام کر دیا ہے۔

ڈاکٹر الٰہی بخش نے زیارت میں قائداعظم کے علاج کے دوران اہم شخصیات سے ملاقاتوں کی داستانوں میں اپنا رنگ بھرنے اور ایک کتابچے کے ذریعے ہوس اقتدار میں مبتلا گروہ کے مفادات کو سہارا دینے کی کوشش کی ہے جب کہ حقیقت اس سے قطعی مختلف ہے۔

اقتدار کی ہوس میں مبتلا اس گروہ میں سے چند شخصیات کا ذکر ضروری ہے۔ پاکستان کی پہلی مرکزی کابینہ میں وزیرخزانہ ملک غلام محمد شروع ہی سے خود کو گورنر جنرل کے منصب پر قائداعظم کا جانشین تصور کرتے تھے اور اس کا ذکر بھی انہوں نے برملا کیا تھا۔ مئی1948 میں جب کہ ابھی قائد اعظم بقید حیات تھے امریکی سفارت خانے کے ملٹری اتاشی لیفٹیننٹ کرنل نیتھو نیل ریمزے ہاسکوٹ نے واشنگٹن میں اپنی حکومت کو ایک رپورٹ میں تحریر کیا تھا کہ پاکستان کے ذہنی و طبعی طور پر بیمار وزیرخزانہ ملک غلام محمد نے ان سے (ملٹری آقاشی) کہا ہے کہ وہ قائداعظم کے جانشین ہیں۔

امریکی اتاشی نے مضحکہ خیز انداز میں ان کے دعویٰ جانشینی کو وہم یا خودفریبی قرار دیا تھا۔ اسی طرح قیام پاکستان کو تین ہفتے سے بھی کم عرصہ ہوا تھا کہ موصوف نے کراچی میں امریکی ناظم الامور سے کہا تھا کہ پاکستان کی 95 ہزار نفری سوویت یونین (اشتراکی روس) کی مزاحمت کے لیے پوری طرح تیار ہے کیوںکہ پاکستان کی مسلم آبادی اور سوویت یونین کے نظریات میں کوئی مماثلت نہیں۔ ملک غلام محمد کے ان تاثرات کا منصور اکبر کنڈی نے “غلام محمد کی زندگی اور کام “کے عنوان سے اپنے مقالے میں تذکرہ کیا ہے جس کو تحقیق کے بعد خواجہ ضیاء الدین جہانگیر سید نے بھی اپنے موضوع کا حصہ بنایا ہے۔

اقتدار کے لیے غلام محمد کہاں تک جا سکتے تھے اس کا اندازہ محترم فاطمہ جناح سے منسوب”میرا بھائی” کتاب میں بھی کیا گیا ہے، جب وزیرخزانہ نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے شکایتاً کہا تھا کہ14اگست1948 کو یوم آزادی کے موقع پر وزیراعظم لیاقت علی خان کی جانب سے قوم کو مبارکباد کا پیغام ہوائی جہاز کے ذریعے تقسیم کرایا گیا تھا۔

غالباً وہ اس اطلاع کے ذریعے محترمہ فاطمہ جناح کے توسط سے قائداعظم کو یہ باور کروانا چاہتے ہوں گے کہ وزیراعظم کے بجائے ان کا پیغام اس موقع پر قوم تک پہنچنا چاہیے تھا ۔ حالاںکہ غلام محمد یہ بھول گئے تھے کہ قائداعظم کا نشری پیغام نہ صرف ریڈیو پاکستان پر سب سے پہلے اور بھرپور اہمیت کے ساتھ نشر ہوا تھا بلکہ اگلے روز بابائے قوم کا فرمان ملک کے تمام اخبارات میں پہلی شہ سرخی تھا۔ ہوس اقتدار میں مبتلا اس گروہ کے دیگر اراکین جن میں کرنل الٰہی بخش کے ہم زلف مشتاق احمد گورمانی بھی شامل تھے، اپنے آپ کو لیاقت علی خان کی جگہ وزیراعظم دیکھنا چاہتے تھے۔

قائدملت لیاقت علی خان کی شہادت کے نتیجے میں جو لوگ اقتدار میں آئے ان میں مشتاق احمد گورمانی سرفہرست تھے ۔ اس زمانے میں حکومت پاکستان کے سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی بھی اس گروپ میں شامل تھے جنہوں نے سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد قاعدے کے مطابق ایک خاص مدت گزارے بغیر کابینہ میں وزیرخزانہ کا سیاسی عہدہ قبول کیا تھا۔

قائداعظم کی برسی کے موقع پر تحریر کیے جانے والے اس مضمون میں بعض دیگر شخصیات کی یادیں بھی محفوظ کرنا چاہتا ہوں۔ دارالحکومت کراچی کے اس وقت کے ایڈمنسٹریٹر سید ہاشم رضا کا بیان ہے کہ قائداعظم کی وفات کی شب انہیں پیغام موصول ہوا کہ وزیراعظم نے انہیں گورنرجنرل ہائوس طلب کیا ہے، چناںچہ وہ گورنرجنرل ہائوس پہنچے جہاں لان میں لیاقت علی خان کرسی پر سر پکڑے ہوئے بیٹھے تھے۔ ہاشم رضا نے کچھ توقف کے بعد انہیں متوجہ کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت دو کام بہت ضروری ہیں پہلا گورنر جنرل کے منصب پر قائد کے جانشین کا انتخاب جو کابینہ کرے گی، دوسرا کام ان کے جسد خاکی کی تدفین کا ہے جس کے تمام انتظامات ایڈمنسٹریٹر کراچی کو کرنا ہیں۔ قائداعظم کا مدفن شہر میں کسی بلند جگہ پر ہونا چاہیے۔ چناںچہ سید ہاشم رضا کاسمو پولیٹن کالونی کے مقابل جہاں اس وقت ایک چھوٹی سی پہاڑی کی شکل میں مختصر آبادی تھی، پہنچے۔ یہاں تبادلہ آبادی کے نتیجے میں آنے والے مہاجرین کی جھونپڑیاں آباد تھیں۔

سید ہاشم رضا نے قائداعظم کی تدفین کے لیے ان سے جگہ خالی کرنے کی استدعا کی جس پر انہوں نے فرط محبت سے چند ہی گھنٹوں میں جگہ کو خالی کردیا اور اپنا سازو سامان بھی وہاں سے ہٹالیا۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں آج قائداعظم کا مقبرہ واقع ہے۔ قائداعظم کے اصولوں، ایمان، اتحاد، تنظیم کی ترتیب میں اکثر مغالطہ دیکھنے میں آتا ہے، تحریک پاکستان کے ممتاز راہ نما محمود علی کے بموجب حکومت پاکستان کے مونو گرام کے ڈیزائن میں جو قائد کی زندگی میں استعمال ہوا تھا، میں ان اصولوں کی جو ترتیب درج ہے وہی درست ہے ۔ قائداعظم نظم و ضبط کے بہت زیادہ قائل تھے۔

وہ نہ صرف اس پر خود کاربند رہتے بلکہ عوام کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے۔ ماہرامراض قلب سرجن نصیر شیخ ان لوگوں میں شامل تھے جو اعلان آزادی سے چند روز قبل قائداعظم کی دہلی سے ماریپور ایئرپورٹ آمد پر موجود تھے، ان کا بیان ہے کہ ایک جم غفیر قائد کے استقبال کے لیے امڈ آیا تھا اور ایئرپورٹ سے باہر آتے ہی ان کی طرف والہانہ انداز میں بڑھا تھا۔ قائداعظم اپنی چھڑی کے ساتھ، تیزی سے ان کی جانب ڈسپلن، ڈسپلن، ڈسپلن کہتے ہوئے بڑھے یعنی کہ مجمع نظم و ضبط برقرار رکھے۔

قائداعظم نے جہاں مملکت کے دیگر امور میں راہ نمائی کی ہے وہاں ان کے وہ خطبات بھی اہمیت کے حامل ہیں جو انہوں نے غیرملکی سفراء کو ان سے اسناد وصول کرتے ہوئے کیے تھے۔ میری تجویز پر جامعہ کراچی میں انٹرنیشنل ریلینشنز کی استاد پروفیسر نورین نے ان خطبات کو جمع کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے تاکہ انہیں کتابی صورت میں مرتب کردیا جائے۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قائداعظم نے فلسطین پر صہیونیت کے غاصبانہ قبضے اور اسرائیل کے قیام پر گہری ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا اور واضح کردیا تھا کہ پاکستان کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔ پورے برصغیر کی اعلیٰ عدالتوں میں قائداعظم نے جو قانونی بحث کی ہے، اس کا ریکارڈ بھی ان عدالتوں کی آرکائیو میں تلاش و مجتمع کرنے کے بعد کتابی شکل میں لایا جا سکتا ہے۔ یہ کام قائد اعظم اکیڈمی یا قانون سے متعلق کوئی محکمہ یا شعبہ کر سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔