کرپشن مخالف اور سچ کے مایوس حامی

ناکامی پر عہدے سے ہٹا دینا کافی نہیں کسی کو تو نشان عبرت بنایا جاتا


Muhammad Saeed Arain February 15, 2022
[email protected]

مسلم لیگ (ن) اور پی پی حکومتوں کی مبینہ کرپشن کی داستانیں سنائی دیتی تھیں اور پی ٹی آئی کا قیام اسی بنیاد پر تھا ، جس کو عمران خان نے اس موثر طریقے سے پروان چڑھایا کہ دونوں پارٹیوں کی مبینہ کرپشن سے مایوس لوگ عمران خان کے بیانیے کے حامی بن گئے تھے اور ان کی ہر بات انھیں سچ لگتی تھی۔

2018 کے انتخابات میں عمران خان کو آر ٹی ایس سسٹم فیل کرائے جانے کا فائدہ کم مگر دونوں حکمران پارٹیوں کے خلاف کرپشن کی آواز بلند کرانے کا فائدہ زیادہ ہوا اور لوگوں کی بڑی تعداد نے عمران خان کی اچھی شہرت کے باعث ان کے تمام دعوؤں کو سچ مانا اور کرپشن کے خاتمے کے خواہش مندوں نے یقین کر لیا تھا کہ وہ سچ بول رہے ہیں اور وہی ملک کو کرپشن سے نجات اور سابق حکمرانوں کی مبینہ کرپشن سے لوٹا گیا پیسہ واپس لا سکتے ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما ایسے دعوؤں میں ان سے بھی آگے نکلے اور مراد سعید نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان اقتدار میں آ کر کرپشن کی دو سو ارب ڈالر کی رقم واپس لا کر نہ جانے کیا کچھ کر دکھائیں گے۔

ان دعوؤں پر بڑی تالیاں بجتیں اور نعرے لگتے اور آخر پی ٹی آئی کو بڑی امیدوں سے اقتدار میں لایا گیا اور عہدہ سنبھالنے سے قبل ہی انھوں نے ریاست مدینہ کا جو تڑکا لگایا تھا اس کا پی ٹی آئی کے حامیوں کو تو یقین تھا مگر ان کے مخالفین اس پر پہلے سے ہی یقین نہیں کر رہے تھے کیونکہ ملک میں پرانے سیاستدانوں کو پی ٹی آئی نے پہلے ہی اپنے ساتھ ملا لیا تھا مگر عوام نے انھیں موقعہ دیا اور پھر سو روز کا اقتدار اب ساڑھے تین سال بھی پورے کر چکا مگر ریاست مدینہ بننے کی ابتدا ہوئی نہ لوٹی ہوئی رقم واپس آئی تو لوگوں میں مایوسی بڑھنے لگی مگر وزراء کی طرف سے ماضی کے حکمرانوں کو چور ڈاکو مسلسل قرار دینے اور اپنے ہر مسئلے کا ذمے دار سابقہ کو قرار دینے کے ساتھ انھیں نشان عبرت بنانے، سزائیں دلانے اور اپوزیشن رہنماؤں کی نیب کے ذریعے گرفتاریوں مگر عدم ثبوت پر ضمانتوں پر رہائی شروع ہوگئی مگر بعض رہنمائوں کی جانب سے آئے دن کی پریس کانفرنسوں، الزامات کی کہانیاں قوم کو سنائی جاتیں اور وہ وزیر اعظم کو مقدمات کی دستاویزات اور بریفنگ میں معلومات فراہم کرتے اور یقین دہانیاں کراتے رہے جس سے آخرکار ساڑھے تین سال بعد وزیر اعظم مایوس ہو ہی گئے اور شہزاد اکبر کو فارغ کرنا ہی پڑا جس پر لوگوں کو حیرت نہیں ہوئی کیونکہ جھوٹ کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔

وزیر اعظم سے کب تک جھوٹ بولا جاتا اور خود وزیر اعظم بھی ایک روز قبل بول ہی اٹھے کہ عدالتی تاخیر اور طاقتور کرپشن مافیا احتساب کو کامیاب نہیں ہونے دے رہی۔ دونوں سابق حکمران پارٹیوں کی مبینہ کرپشن کا پتا تھا جس کی تفصیلات وہ عوام کو بتاتے تھے پھر کہا کہ 70 سالوں کا گند ساڑھے تین سالوں میں ختم نہیں کیا جاسکتا تو سو دنوں میں کرپشن ختم کرنے کے بلند و بانگ دعوے کیے ہی کیوں گئے تھے اور ان پر عمل کی کوشش کرنے کے بجائے اپنے ماضی کے دعوؤں کے برعکس ہر وہ کام کرکے دکھایا گیا جو ماضی میں غلط تھا، مگر حکومت میں آکر وہ سب کچھ اچھا ہو گیا۔

دوسروں پر اقربا پروری کا الزام لگانے والے اپنے پارٹی رہنماؤں سے وہ کام لے سکتے تھے جو اپنے باہر سے 20 دوستوں کو بلا کر لینے کی کوشش تھی ۔ پارٹی رہنماؤں میں منتخب نمایندوں کو نظرانداز کرنے کا شکوہکیا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری تھی مگر اپنوں کو نوازنا اور پکڑے جانے والے مافیاز کے خلاف کارروائی نہ کرنا اور حکومت میں گڈ گورننس نہ لانا تو مجبوری نہیں تھی۔

17 کے بجائے ساٹھ لوگوں کو حکومت میں شامل کرلینا وزیر اعظم کا حق تھا اپوزیشن کی تجویز نہیں تھی۔ حکومتی اخراجات میں کمی حکومت کے ہاتھ میں تھی مگر احتساب کے نام پر اتنی رقم وصول نہیں ہوئی جتنی مشیر احتساب نے بیرون ملک لٹوا دی۔ اربوں روپے خرچ کرکے چند کروڑ کی وصولی کسی کی بھی کامیابی نہیں تھی بلکہ حکومت کی مکمل ناکامی تھی۔ کرپشن روکنے آنے والی حکومت میں کرپشن بڑھنے کا اعتراف اپوزیشن نہیں بلکہ حکومتی ذمے دار اور پی ٹی آئی ارکان اسمبلی اور رہنما خود کرچکے ہیں۔

کرپشن کے مخالف اور عمران خان کے سچے دعوؤں پر یقین کرنے والے ان کے حامی اب مایوس کیوں ہوگئے۔ وزیر اعظم سے 30 سوال پوچھنے اور سچ کے اظہار پر پارٹی سے نکال دیے جانے والے دیرینہ ساتھی کی باتوں پر اب حکومتی حامی بھی تعجب کا اظہار کر رہے ہیں۔ کرپشن روکنے میں اپنی کوتاہی اور من پسند ٹیم بنا کر ان سے کام نہ لینے کی ذمے داری خود ان پر عائد آتی ہے۔

ناکامی پر عہدے سے ہٹا دینا کافی نہیں کسی کو تو نشان عبرت بنایا جاتا۔ جھوٹ کا اس بیدردی سے استعمال کہ جھوٹ خود ہی شرما جائے اور سچ کہیں بھی نہ بولا جائے تو ان کے حامی مایوس نہ ہوں تو کیا کریں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔