- فوج سے کوئی اختلاف نہیں، ملک ایجنسیز کے بغیر نہیں چلتے، سربراہ اپوزیشن گرینڈ الائنس
- ملک کے ساتھ بہت تماشا ہوگیا، اب نہیں ہونے دیں گے، فیصل واوڈا
- اگر حق نہ دیا تو حکومت گرا کر اسلام آباد پر قبضہ کرلیں گے، علی امین گنڈاپور
- ڈالر کی انٹر بینک قیمت میں اضافہ، اوپن مارکیٹ میں قدر گھٹ گئی
- قومی اسمبلی: خواتین ارکان پر نازیبا جملے کسنے کیخلاف مذمتی قرارداد منظور
- پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکی ’متعصبانہ‘ رپورٹ کو مسترد کردیا
- جب سے چیف جسٹس بنا کسی جج نے مداخلت کی شکایت نہیں کی، قاضی فائز عیسیٰ
- چوتھا ٹی ٹوئنٹی: پاکستان کا نیوزی لینڈ کے خلاف ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ
- سائفر کیس؛ مقدمہ درج ہوا تو سائفر دیگر لوگوں نے بھی واپس نہیں کیا تھا، اسلام آباد ہائیکورٹ
- ضلع خیبرمیں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں تین دہشت گرد ہلاک، دو ٹھکانے تباہ
- عمران خان کی سعودی عرب سے متعلق بیان پر شیر افضل مروت کی سرزنش
- چین: ماڈلنگ کی دنیا میں قدم رکھنے والا 88 سالہ شہری
- یوٹیوب اپ ڈیٹ سے صارفین مسائل کا شکار
- بدلتا موسم مزدوروں میں ذہنی صحت کے مسائل کا سبب قرار
- چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے پروٹوکول واپس کردیا، صرف دو گاڑیاں رہ گئیں
- غزہ کی اجتماعی قبروں میں فلسطینیوں کو زندہ دفن کرنے کا انکشاف
- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
آپ کے بچے کا دمہ جان لیوا کب ہوسکتا ہے؟
نیویارک: پاکستان سمیت دنیا بھر میں کئی بچے دمے (ایستما) کے شکار ہوتے ہیں لیکن بسا اوقات دمے کا دورہ شدید ہوکر جان لیوا بھی ہوجاتا ہے۔ اس ضمن میں ماہرین نے بالخصوص والدین کے لیے بعض اشارے فراہم کئے ہیں جنہیں جان کر وہ اپنے بچے کی جان بچاسکتے ہیں۔
رٹگرز یونیورسٹی میں امراضِ تنفس کے ماہر ڈاکٹر خلیل سوارے کہتے ہیں کہ امریکہ میں ہی ہزاروں بچےاور بڑے دمے کی کیفیت بگڑنے کے بعد موت کے منہ میں چلے جاتےہیں اور شاید پاکستان میں بھی ایسی ہی صورتحال ہوسکتی ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ دمے کا مسلسل دورہ شدید ہوجاتا ہے اور ہسپتال تک آتے ہوئے وہ کارڈیئک اریسٹ میں بدل جاتا ہے۔ اس قسم کی موت میں ڈاکٹر دمے کو نظرانداز کرکے اس کا ذمے دار دل کے دورے کو قرار دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ دمے کی شدت کو بالخصوص بچوں کے لیے جاننا ضروری ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر خلیل سے دو اہم سوالات پوچھے گئے تھے:
سوال: دمے کے دورے کے متعلق کیا جاننا ضروری ہے؟
جواب: بعض والدین اپنے لختِ جگر بچوں کو دمے کے ہاتھوں مرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اے کاش وہ دمے کی مکمل معلومات رکھتے تاکہ یہ سانحہ رونما نہ ہوتا۔
وجہ یہ ہوتی ہے کہ دمے کا دورہ سانس کی نالی کو مکمل طور پر بند کردیتا ہے۔ مختلف افراد میں دورے کی شدت مختلف ہوسکتی ہے۔ کبھی سردی، کبھی گردوغبار، الرجی، آلودگی، فضائی ذرات، کتے اور بلیوں سے بھی دمے کا دورہ لاحق ہوکر بگڑتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے قابوکرنا محال ہوجاتا ہے۔
الرجی کے موسم میں بچوں میں دمے کا دورہ بڑھ جاتا ہے۔ اس دوران خیال رکھنا ہوتا ہے کہ وہ ماحول کی آلودگی سے دور رہیں۔
سوال: شدید اور بے قابو دمے کی علامات کیا ہوسکتی ہیں؟
جواب: ماہرین نے اس کی کچھ علامات بتائی ہیں جو یہ ہیں:
رات کے وسط میں دمے کا دورہ پڑنا۔ پھر مہینے میں کئی مرتبہ یہ کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔ اسی طرح ورزش کرتے یا دوڑتے ہوئے اگر بچے میں دمے کی کیفیت ہو تو سب کچھ ترک کرکے انہیں پرسکون رکھنے کی کوشش کی جائے۔
دوسری علامتوں میں مسلسل کھانسی جو ایک یا دو ہفتے بعد بھی دور نہ ہو تو وہ بھی شدید دمے کی نشاندہی کرتی ہے۔ اگر اس کے ساتھ دیگر امراض بھی سر اٹھائیں تو فوری طور پر ڈاکٹروں سے رابطہ کیا جائے۔ دوسری جانب کھائی جانے والی ایسٹرائڈز سال میں ایک سے زائد مرتبہ دی جانی چاہئے۔
سوال: کن علامات میں بچے کو فوری ہسپتال لے جایا جائے؟
جواب: اگر بچے پر دوا اثر نہ کرتی ہوتو یہ سب سے اہم علامت ہے۔ یعنی البیوٹرول یا اسی قسم کی ادویہ 20 منٹ سے لے کر 2 گھنٹے کے وقفے تک لیا جائے اور اس سے افاقہ نہ ہو تو فوری طور پر ہسپتال جانا ضروری ہوجاتا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ دمے کی کیفیت میں طبیعیت مزید بگڑنے یا ایمرجنسی کا انتظار نہ کیا جائے اور ڈاکٹر سے مشورہ کیا جائے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔