صحرائے چولستان میں بقا کی جنگ لڑتی جنگلی حیات

آصف محمود  پير 6 جون 2022
جنگلی حیات چولستان میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ (فوٹو: فائل)

جنگلی حیات چولستان میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ (فوٹو: فائل)

ہماری گاڑی تیزی سے بہاولپور کی طرف رواں دواں تھی۔ لاہورسے روانہ ہوئے دو گھنٹے ہوچکے تھے اور ہم لاہور، ملتان موٹروے استعمال کرتے ہوئے بہاولپور جارہے تھے، جہاں چند گھنٹے قیام کے بعد ہمیں قلعہ دراوڑ اور پھر اس سے آگے صحرائے چولستان میں بھارتی بارڈر تک جانا تھا۔

دوپہر کے 12 بج چکے تھے جب ہم بہاولپور پہنچ گئے۔ یہاں ایک مقامی ہوٹل میں مختصر قیام تھا۔ فریش ہونے کے بعد کھانا کھایا اور احمد پور شرقیہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ایئرکنڈیشن گاڑیوں میں یہ احساس نہیں ہورہا تھا کہ باہر کا درجہ حرارت کتنا ہے، لیکن اس دن لاہور میں پارہ 44 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا تھا۔ ہم لوگ تقریباً دو گھنٹے میں قلعہ دراوڑ پہنچ گئے۔ میں یہاں چند ماہ پہلے بھی آچکا تھا لیکن اس وقت سردیوں کا موسم تھا، لیکن آج یہاں ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی آگ میں تپتے صحرا میں آئے ہوں۔ یہاں سے اب تقریباً 100 کلومیٹر آگے چولستان کا سفر تھا اور ہمیں بھارتی بارڈر کی طرف جانا تھا۔

ہماری منزل بجنوٹ تھی۔ بجنوٹ بھی 1300 سال پرانا قلعہ ہے۔ یہ قلعہ دراوڑ سے تقریباً 90 کلومیٹر دور صحرا میں دشوار گزار راستوں پر موجود ہے اور اس تک پہنچنے کا دوسرا راستہ بہاولپور سے تقریباً ایک سو پچانوے کلومیٹر براستہ چنن پیر سے ہے، جس میں تقریباً پچپن کلومیٹر پکی سڑک اور باقی ایک سو چالیس کلومیٹر کچا راستہ ہے، جس پر کئی جگہوں پر ریت کے ٹیلے ہیں۔ ماہرین آثارقدیمہ بتاتے ہیں کہ اس قلعے کا پہلا نام قلعہ ونجھروٹ تها۔ یہ قلعہ راجہ ونجھا نے تعمیر کرایا تھا۔

بارش نہ ہونے کی وجہ سے 29 ہزار مربع کلومیٹرز پر پھیلے صحرا میں تین ہزار ٹوبے خشک ہوچکے ہیں۔ کئی علاقوں میں مختلف این جی اوز اور حکومتی اداروں کی طرف سے پائپ لائنوں اور واٹرٹینکوں کے ذریعے پانی پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جھلسا دینے والی گرمی میں چرواہے اور مویشی مالکان پانی کی تلاش میں کبھی آبادیوں کی طرف نقل مکانی کرنے پر تو کبھی واپس اپنے مویشی واٹر پائپ لائنوں سے بنائے گئے تالابوں پر لے آتے ہیں۔ اس صحرائے چولستان میں سفر کے دوران ایسے کئی مناظر دیکھنے کو ملے۔

بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے چولستان میں ان دنوں خشک سالی کا راج ہے۔ جانور تو جانور انسان بھی پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں۔ پانی کے قدرتی ذخائر، ٹوبے ریت کی چادر اوڑھ چکے ہیں۔ چولستان کے تقریباً علاقوں کے 1100 ٹوبوں میں سے 95 فیصد خشک ہوچکے ہیں۔ خشک سالی بڑھنے کی وجہ سے جانوروں کےلیے چارہ بھی ناپید ہوگیا ہے، جبکہ جنگلی جڑی بوٹیاں تک سوکھنے لگی ہیں۔

چولستان میں جانوروں کی تعداد غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 20 لاکھ سے زیادہ اور دو لاکھ عوام ہیں۔ یہاں چار پائپ لائنوں، جن میں 92 کلومیٹر کی پائپ لائن کھالڑی تا چک نمبر 108 ڈی بی، 87 کلومیٹر کی چک نمبر 111 ڈی این بی تا نواں کوٹ، 43 کلومیٹر کی کھتڑی ڈاہر تا طوفانہ اور 54 کلومیٹر کی میر گڑھ تا چوڑی میں 24 گھنٹے پانی کی فراہمی بغیر کسی تعطل کے جاری ہے اور ان چار پائپ لائنوں سے یومیہ 34 ہزار سے زائد انسان اور 60 ہزار جانور مستفید ہورہے ہیں، جو کہ لاکھوں جانوروں کےلیے ناکافی ہے اور اس کے علاوہ پنجاب حکومت کی جانب سے چولستانیوں کو پانی کی فراہمی کےلیے پانچ ایکسٹینشن پائپ لائنیں، جن میں 35 کلومیٹر نواں کوٹ تا غرارہ، 25 کلومیٹر ڈیرواڑ تا کنڈی والا، 72 کلومیٹر کڈوالا تا بناں چوکی، 45 کلومیٹر ڈھوری تا سوڈکا، ساڑھے 27 کلومیٹر رسول سر تا بجنوٹ مکمل ہوکر ٹیسٹنگ کے مراحل میں ہیں۔

ہم اس علاقے میں سیروتفریح کی غرض سے نہیں آئے تھے بلکہ اپنی ٹیم کے ساتھ ایک اہم مقصد کےلیے 50 ڈگری درجہ حرات میں یہاں آئے تھے۔ ہماری گاڑیوں میں پانی کے درجنوں گیلن اور جنگلی حیات یعنی جانوروں، پرندوں کےلیے غذا اور برتن موجود تھے۔ ہم لاہور سے یہ سامان لے کر آئے تھے اور ہمارا فوکس جنگلی حیات خاص طور پر اس علاقے میں پائی جانے والے ہرنوں اور جنگلی پرندوں کےلیے پانی اور غذا کا انتظام کرتا تھا، کیونکہ حکومتی ادارے اور این جی اوز کا فوکس انسانوں اور لائیو اسٹاک کو بچانا ہے جبکہ بدرمنیر جن کی زندگی کا طویل عرصہ جنگلی حیات کی کنزرویشن اور بحالی میں گزرا ہے، انہیں چولستان میں پائی جانے والی جنگلی حیات کی فکر لاحق تھی، اس لیے اس شدید ترین گرمی میں ہم لوگ یہاں آئے تھے۔

یہاں ہم نے مختلف مقامات پر جھاڑیوں کے نیچے اور جہاں کہیں کسی درخت کے کوئی آثار تھے، ان کے نیچے گڑھے کھود کر وہاں پلاسٹک کے برتن دبائے اور ان میں پانی ڈال دیا، گھنی جھاڑیوں کے نیچے دانہ بھی ڈال دیا تھا۔ لیکن مجھے یہاں دور دور تک کوئی جنگلی جانور دکھائی دے رہا تھا اور نہ ہی کوئی جنگلی پرندہ تھا۔ اپنا تجسس مٹانے کےلیے میں نے بدرمنیر سے پوچھا کہ ہم اتنی دور آئے ہیں اور یہاں پانی، غذا کا انتظام کررہے ہیں لیکن یہاں تو کوئی جانور اور پرندہ نہیں ہے؟ انہوں نے بتایا کہ اس وقت چونکہ دوپہر کا وقت ہے، ابھی دوپہر ڈھلنے میں کچھ وقت ہے۔ جیسے ہی سورج ڈھلنا شروع ہوگا مختلف جھاڑیوں میں چھپے جانور اور پرندے باہر نکلیں گے۔ جانوروں اور پرندوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ قدرتی صلاحیت دی ہے کہ وہ عموماً اسی جگہ قیام کرتے ہیں جہاں انہیں پانی اور غذا ملنے کی امید ہوتی ہے۔ میں نے ان سے یہ بھی پوچھا کہ یہ برتن ہم نے ریت میں گڑھے کھود کر کیوں رکھے ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ اگر ہم انہیں ایسے ہی رکھتے تو جانور اور پرندے ڈرتے کہ شاید انہیں کسی شکاری نے پکڑنے کےلیے ایسا کیا ہے، لیکن جب زمین کی سطح کے برابر ہیں تو وہ اسے قدرتی پانی کا ذخیرہ سمجیں گے۔ پلاسٹک کے برتن ہونے کی وجہ سے پانی جذب نہیں ہوگا اور جھاڑیوں کے نیچے اس لیے رکھے ہیں کہ پانی زیادہ دن تک رہ سکے گا۔ اس کے علاوہ ہمارے بعد بھی اگر کسی کا یہاں سے گزر ہوتا ہے یا بارش ہوتی ہے تو وہ پانی ان برتنوں میں ذخیرہ ہوجائے گا، ورنہ تو بارش کا پانی ریت میں ہی جذب ہوکر رہ جاتا ہے۔

مقامی لوگوں سے بات چیت کے دوران معلوم ہوا کہ خشک سالی کی وجہ سے جب انسان اور مویشی یہاں سے ہجرت کرجاتے ہیں تو جنگلی جانور اور پرندے بھی اپنی زندگی کی بقا کےلیے دوسرے علاقوں میں چلے جاتے ہیں، خاص طور پر ہرن جب پانی اور غذا کی تلاش میں اپنے مسکن سے نکل کر آبادیوں کا رخ کرتے ہیں تو یہ بھوکے، پیاسے ہرن خود شکار ہوجاتے ہیں۔ جنگلی حیات یہاں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔

ہمیں شہروں کے اندر بھی پرندوں کےلیے اپنے گھروں کے صحن اور چھتوں پر پانی اور دانے کا انتظام کرنا چاہیے۔ اپنے بچوں کو یہ عادت ڈالیے کہ وہ پرندوں کےلیے یہ کام کریں۔ گھر میں بچی ہوئی روٹی کے بھورے بنالیں، کوئی بچا ہوا پھل جیسے سیب، تربوز، کیلا یہ چیزیں چھت پر سائے میں رکھ دیں، پرندے کھائیں گے اور دعائیں گے۔

ہم شام تک اس کام میں لگے رہے۔ تقریباً ڈیڑھ درجن مقامات پر جانوروں اور پرندوں کےلیے پانی اور غذا کا انتظام کیا تھا۔ کم وبیش چار گھنٹے اس تپتے چولستان میں گزارنے کے دوران وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوا تھا۔ سورج ڈھلنے کے ساتھ ساتھ چولستان کی زندگی بدلنا شروع ہوجاتی ہے۔ انسان اور مویشی اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں اور چولستان کے ان صحراؤں میں کالے ہرن، چنکارہ ہرن اٹکھیلیاں کرتے ہیں اور تلور سمیت کئی پرندوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ ہماری گاڑیاں واپس قلعہ دراوڑ کی طرف رواں دواں تھیں اور ہمارے پیچھے دن بھر آگ برسانے والا سورج غروب ہورہا تھا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔