سپر ٹیکس کا خوشنما انجکشن

محمد عمران چوہدری  منگل 28 جون 2022
حکومت غریب کش اقدامات ترک کرے۔ (فوٹو: فائل)

حکومت غریب کش اقدامات ترک کرے۔ (فوٹو: فائل)

’’ہمیں مہنگائی تنگ نہیں کرتی۔‘‘ سپر ٹیکس کی خبر سن کر اس نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

’’مگر کیسے؟‘‘

’’بات کچھ یوں ہے کہ حکومت جب بھی ٹیکس لگاتی ہے، چاہے وہ سپر ٹیکس ہو، انکم ٹیکس ہو، خفیہ ٹیکسز ہوں، ظاہری ٹیکسز ہوں، روپے کی گراوٹ ہو، ڈیوٹیز کی بڑھوتری ہو، ہم ہر حال میں خوش حال رہتے ہیں، کیونکہ جیسے ہی حکومت ٹیکس لگاتی ہے، جتنی مقدار میں لگاتی ہے ہم کم و بیش اس سے زیادہ مقدار میں قیمتیں بڑھا دیتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے حکومت ایک روپیہ بڑھائے تو ہم سوا روپیہ بڑھا دیتے ہیں۔ تو حکومت کی طرف سے دی گئی زحمت ہمارے لیے رحمت بن جاتی ہے۔ بصورت دیگر کم ازکم ایک روپیہ تو لازمی بڑھا تے ہی ہیں، اس طرح ہم پر مہنگائی اثر نہیں کرتی۔‘‘

’’مگر پھر کوئی نیا ٹیکس لگنے پر آپ لوگ اس قدر شور کیوں کرتے ہیں؟ جیسے سپر ٹیکس کی خبر آتے ہی آپ حضرات نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے اور ایسے لگ رہا ہے کہ آپ کی جیب کاٹ لی گئی ہو؟‘‘

’’وہ اس لیے کہ کل جب ہم قیمت بڑھائیں تو عوام شور نہ مچائیں۔ اگر ہم مہنگائی، مہنگائی، ظلم ہوگیا، لٹ گئے، برباد ہوگئے کی رام لیلا نہیں کریں گے تو پھر عوام کریں گے اور ہمارے لیے اپنی چیز بیچنا مشکل ہوجائے گا۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں ہم عوام کو آنے والے وقت کےلیے تیار کررہے ہوتے ہیں۔‘‘

یہ ایک تلخ اور دلچسپ حقیقت ہے کہ مہنگائی سے کاروباری طبقہ، اعلیٰ فوجی و سول حکام، سیاستدان، ججز متاثر نہیں ہوتے۔ حکومتیں آئیں، جائیں، ڈالر اوپر جائے، نیچے آئے، پٹرول، ڈیزل، چینی، آٹا، پھل، بجلی، گیس کی قیمتیں آسمان کیا ساتویں آسمان سے باتیں کریں، انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر فرق پڑتا ہے تو صرف تین طبقات کو۔

1۔ دیہاڑی دار طبقہ، جس کی مزدوری مہنگائی کے حساب سے نہیں بڑھتی۔ اور کبھی ملتی ہے تو کبھی نہیں۔ جس کے بچے مشکل فیصلوں کی بدولت فاقوں پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جس کے پاس سرکاری اسکول کی فیس تک بھرنے کے پیسے نہیں ہوتے۔ جو بریانی کی ایک پلیٹ کی خاطر جلسے جلوسوں کا رزق بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگ مشکل فیصلوں کا سب سے بڑا شکار ہوتے ہیں۔

2۔ مہنگائی کا دوسرا بڑا شکار نجی ملازمین ہوتے ہیں۔ جن کے ہاں تنخواہ بڑھنے کی ’’کوئی صورت نظر نہیں آتی‘‘ کی کیفیت ہوتی ہے۔ تنخواہ بڑھانے کی بات کرنا ’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘ اور اگر کہیں پر بہت اچھی صورت حال ہو تو وہاں پر بھی تنخواہ بڑھاو، ورنہ اسی تنخواہ پر کام کریں گے، کیونکہ بصورت دیگر نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑسکتے ہیں۔ کچھ کمپنیوں میں تنخواہ جو پہلے ہی اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہوتی ہے، سیٹھ صاحبان تبرک کے طور پر اپنے اکاؤنٹ میں دو تین مہینے کےلیے رکھ لیتے ہیں۔

ان ہی لوگوں میں سے وہ سفید پوش لوگ ہوتے ہیں جو اہل خیر کی توجہ کے منتطر ہوتے ہیں۔ بہرحال یہ طبقہ مہنگائی سے بری طرح متاثر ہوتا ہے، کیونکہ ان کی غربت ان کے سفید کپڑوں کے پیچھے چھپے ہونے کی وجہ سے کسی کو نظر نہیں آتی۔ خود یہ کسی کو بتانے سے گریز کرتے ہیں اور سفید کپڑوں کے اس پار کوئی جھانکنے کی کوشش نہیں کرتا۔

3۔ مہنگائی سے متاثر ہونے والا آخری طبقہ سرکاری ملازمین ہوتے ہیں، جن کی تنخواہ سال کے بعد 15 فیصد بڑھا کر 150 فیصد مہنگائی کا مداوا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ طبقہ اس لحاظ سے خوش نصیب ہوتا ہے کہ اسے سال کے بعد بڑھوتری کی امید ہوتی ہے، اگرچہ آٹے میں نمک کے برابر ہی ہو۔ ان ہی لوگوں میں سے وہ بدنصیب لوگ ہوتے ہیں جو کام کرنے کی رشوت اور نہ کرنے کی تنخواہ لیتے ہیں۔ بہرحال یہ لوگ بھی مہنگائی سے متاثر ہوتے ہیں۔

لیکن اس سب کے باوجود اگر حکومت کی یہ منطق مان لی جائے کہ سپر ٹیکس صرف اور صرف امرا پر ہے، غریب پر اس کا اثر نہیں پڑے گا، پھر بھی یہ ملک کےلیے تباہی لائے گا۔ کیونکہ بچپن میں یہ لطیفہ تو آپ نے سنا ہوگا کہ ایک درخت پر دس پرندے بیٹھے ہیں، ایک کو شکار کرنے کےلیے فائر کیا تو باقی کتنے رہ گئے؟ درست جواب یہ ہوتا تھا کہ باقی اڑ جائیں گے۔ سپر ٹیکس اگرچہ دس صنعتوں پر لگایا گیا ہے لیکن یہ باقی صنعتوں کےلیے غیر یقینی کی صورتحال پیدا کرے گا اور معاشی ترقی کا پہیہ رک جائے گا۔ اس کا لامحالہ اثر غریب کو غریب تر کرے گا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت غریب کش اقدامات ترک کرے۔ اپنے اخراجات کم کرنے کےلیے اشرافیہ کی مراعات ختم کرے، جیسے مثال کے طور پر اس وقت ملک میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 80 لاکھ سے زائد افراد مفت بجلی استعمال کررہے ہیں جس سے قومی خزانے پر اربوں روپے کا بوجھ پڑتا ہے۔ اگر ایک حکم کے ذریعے مفت بجلی کی سہولت ختم کردی جائے اور محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا جائے تو نہ صرف حکومتی آمدن بڑھے گی بلکہ معاشرے میں طبقاتی تقسیم کا خاتمہ کرنے میں مدد ملے گی۔ اسی طرح مفت پٹرول، مفت ہوائی سفر اور دیگر بہت سی مفت سہولیات جو ایک محدود طبقہ استعمال کررہا ہے، کا خاتمہ کردیا جائے تو نہ صرف سپر ٹیکس کا خوش نما انجکشن لگانے ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ آئی ایم ایف کے انجکشن سے بھی نجات مل جائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد عمران چوہدری

محمد عمران چوہدری

بلاگر پنجاب کالج سے کامرس گریجویٹ ہونے کے علاوہ کمپیوٹر سائنس اور ای ایچ ایس سرٹیفکیٹ ہولڈر جبکہ سیفٹی آفیسر میں ڈپلوما ہولڈر ہیں اور ایک ملٹی اسکلڈ پروفیشنل ہیں؛ آپ کوچہ صحافت کے پرانے مکین بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔