عیدالاضحیٰ، آلائشیں، تعفن اور بارش

رضوان احمد صدیقی  منگل 12 جولائی 2022
شہر قائد کی تباہ حالی کا ذمے دار کون ہے؟ (فوٹو: فائل)

شہر قائد کی تباہ حالی کا ذمے دار کون ہے؟ (فوٹو: فائل)

عید آئی اور گزر بھی گئی۔ عیدِ قرباں کے بعد اس کی نشانیاں شہر میں جگہ جگہ نظر آتی ہیں اور ہر سال ہی یہ مسئلہ ہوتا ہے لیکن اس سال صورتحال تیز بارشوں کے باعث مزید سنگین تر ہوگئی ہے۔ جگہ جگہ پھینکی گئی آلائشیں بارش کے پانی کے تیز ریلوں میں بہہ کر گلی محلوں میں واپس پہنچ گئی ہیں اور تعفن شہریوں کا جینا دوبھر کر رہا ہے۔

سندھ حکومت اور شہری انتظامیہ نے اس سال بھی اپنی روایت قائم رکھی اور قربانی کے بعد آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کےلیے واجبی اور نامناسب انتظامات کیے۔ کئی علاقوں میں آلائشیں اٹھانے کے لیے کے ایم سی کی گاڑیاں تک نہیں پہنچیں اور شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت قریبی میدانوں یا کچرا کنڈیوں میں وہ آلائشیں پھینک دیں۔ ستم بالائے ستم شہر قائد میں تیز بارشوں کے باعث پیش آیا۔ عید کے پہلے دن ہی بارش برسنے لگی اور عید کے دوسرے روز تیز بارش کا یہ حال تھا کہ شہر کا کوئی علاقہ ایسا نہ تھا جہاں سیلابی کیفیت کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔

شہر کی گلیاں، چوراہے پانی میں ڈوب گئے، سڑک اور فٹ پاتھ کا فرق ختم ہوگیا۔ نشیبی علاقے تو ہمیشہ ہی زیرِ آب آتے ہیں لیکن اس بار شہر کے بالائی علاقے بھی پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ شہری گھٹنے گھٹنے کھڑے پانی میں سفر کرنے پر مجبور تھے۔ لیکن سب سے زیادہ بری کیفیت قربانی کے بعد گلیوں اور شاہراہوں میں پھیلے جانوروں کے خون اور تیز بہتے پانی میں آلائشوں کے تیرنے سے پیش آئی۔

کیا اس صورتحال کو محض ایک حادثہ قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیا بارشیں غیر متوقع ہیں؟ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔

بارشوں کی پیش گوئی تو بہت پہلے ہی کی جاچکی تھی، اور اس سال بارشیں بھی تیز متوقع تھیں لیکن سندھ حکومت اپنی ازلی نااہلی کی وجہ سے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی خوابِ غفلت سے بیدار نہیں ہوئی۔ کراچی میں بارش کے پیش نظر برساتی نالوں کی صفائی اور حفاظتی ہنگامی اقدامات سے پہلوتہی برتی گئی اور نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ ’’کراچی ایک بار پھر ڈوب گیا‘‘۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: بارش کراچی کےلیے زحمت کیوں ہے؟

کہاں ہیں ایڈمنسٹریٹر کراچی؟ اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کی داد وصول کرنے میڈیا کیمروں کے سامنے پہنچ جانے والے وزرا اب کہاں منہ چھپائے بیٹھے ہیں؟ کیوں کراچی کی بدحالی پر بات نہیں کی جارہی؟ شہر قائد کی تباہ حالی کا ذمہ دار کون ہے؟ کراچی کی تباہی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر یہ لطیفے بھی وائرل بھی ہیں کہ بے چاری سندھ حکومت بارشوں کی تباہی کا ذمے دار گزشتہ حکومت کو بھی نہیں ٹھہرا سکتی۔ لیکن اس لطیفے میں ہی وہ المیہ چھپا ہوا ہے جو اس شہر کی ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی خرابی کا ذمے دار ہے۔ نااہلی، بے عملی اور اپنی غلطیوں کا قصوروار کسی اور کو ٹھہرا دینا اور سب سے بڑھ کر ملک و قوم کے ساتھ مخلص نہ ہونا۔ پاکستانی عوام کے نصیب میں ایسے ہی حکمران اور سیاستدان ہیں جو گزشتہ 74 برسوں سے اس ملک کو کھوکھلا کررہا ہے ہیں۔

کوئی ایک بھی تو سیاستدان پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں ہے اور جو خلوص دل سے کچھ کرنا بھی چاہتا ہے تو اسے دیوار سے لگا دیا جاتا ہے، صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی اپنی پالیسیوں اور کارکردگی کی وجہ سے سندھ کی بدترین سیاسی پارٹی ہے، لیکن پھر بھی مستقل اقتدار میں ہے۔ عمران خان جو آج ایک حلقے کی نظر میں ’’ہیرو‘‘ بنے بیٹھے ہیں وہ بھی کراچی کو گیارہ ارب کے ’’ہوائی پیکیج‘‘ کا چونا لگا چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن کو پنجاب کے علاوہ باقی ملک سے کوئی سروکار ہی نہیں اور دیگر سیاسی جماعتیں بس نام کی ہی جماعتیں ہیں۔ ہاں ایک بھولی بسری سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ بھی ہوا کرتی تھی، جو اپنی کئی خامیوں کے باوجود بھی شہر میں تھوڑا بہت کام کروا دیا کرتی تھی، لیکن وہ بھی اب ٹکڑوں میں بٹ کر ماضی کا حصہ بن چکی ہے۔

کراچی اور سندھ کی تباہی کی ذمے دار مکمل طور پر پاکستان پیپلز پارٹی ہے اور اس پارٹی کو اب اپنی کوتاہی تسلیم کرنا ہوگی۔ خدارا خوابوں کی دنیا سے نکل آیئے اور حقیقت کا سامنا کیجئے۔ بھٹو کبھی زندہ تھا اور آج بھی عوام کے دل میں زندہ ہوتا اگر پاکستان پیپلز پارٹی کے نااہل لیڈران اپنی کوتاہیوں اور کرپشن سے اس پارٹی کا نام خراب نہ کردیتے۔ بلاول بھٹو زرداری اپنے نانا کا نام اگر زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو انھیں اس روایتی سیاست سے باہر نکلنا ہوگا۔

بہرحال بات شروع ہوئی تھی عیدالاضحیٰ اور بارشوں سے۔ آج عید کا تیسرا دن ہے۔ ان تمام تر مشکلات کے باوجود بھی شہر کے کئی علاقوں میں آج بھی قربانی کی جارہی ہے۔ شہری انتظامیہ کم از کم بارش کے پانی کی نکاسی اور آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کےلیے فوری فعال ہوجائے ورنہ آنے والوں دنوں میں یہ تعفن شہریوں کو اپنے گھر میں بھی سکون سے نہ رہنے دے گا۔

ایکسپریس بلاگز کے قارئین کو بھیگی بھیگی عید مبارک ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔