بارش کراچی کےلیے زحمت کیوں ہے؟

وقار احمد شیخ  جمعرات 14 جولائی 2022
ذرا سی بارش میں شہر کا حال برا ہوجاتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ذرا سی بارش میں شہر کا حال برا ہوجاتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

کہاں تو یہ حال تھا کہ پورے پاکستان میں بارشیں ہونے اور کراچی کو ’’نظرانداز‘‘ کئے جانے پر شہری بادلوں سے شکوہ کناں تھے کہ وہ بھی سندھ حکومت کی طرح کراچی سے بے اعتنائی برت رہے ہیں اور سمندر کے کنارے بسے ’’پیاسے کراچی‘‘ کو چھوڑ کر ہر جگہ ’’برس‘‘ رہے ہیں۔ لیکن یہ کیا ہوا؟ بادلوں نے کراچی پر ذرا سی نظرِ التفات کیا ڈالی بارش کے منتظر وہی شہری اب دہائی دیتے نظر آرہے ہیں۔ اور کچھ تو باقاعدہ دعا بھی مانگ رہے ہیں کہ ’’اے اللہ! کراچی میں بارش نہ ہو۔‘‘

آخر کیا وجہ ہے کہ برسات کے عاشق اپنے محبوب کے دیدار سے گریزاں ہیں؟ ابھی چند دن ہی تو ہوئے ہیں جو بادلوں نے اپنی چھب دکھائی ہے، ورنہ اس گرم موسم میں کڑکتی دھوپ اور حبس نے شہریوں کو بلبلا رکھا تھا۔ بادل تھے کہ پورے پاکستان میں برس رہے تھے، لیکن کراچی کی زمین، جو گزشتہ سال بھی کم بارشیں ہونے کے باعث بالکل ’’خشک‘‘ ہوچکی ہے، اس سال بھی برسات کے لیے ترس رہی تھی۔ اور اب جبکہ مقابلتاً نہایت ’’معمولی‘‘ بارش ہوئی ہے، کراچی کے شہری پریشان ہیں کہ جب چند بوندوں نے شہر کا یہ حال کردیا ہے تو مستقل بارش رحمت کے بجائے زحمت ہی بن جائے گی۔

گزشتہ دنوں کی بارشوں نے کراچی کا جو حال کیا ہے اس کی وجہ سے بارش شہریوں کےلیے ایک ڈراؤنا خواب بن گئی ہے۔ اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کراچی کے لیے بارش ہمیشہ رحمت کے بجائے زحمت میں بدل جاتی ہے۔ کراچی میں بسنے والوں کے لیے یہ ’’زحمت‘‘ صوبائی اور شہری حکومت کی ناقص حکمت عملیوں کی پیداوار ہے۔ بارش کے پانی پر چٹکلے تو چھوڑ دیے جاتے ہیں کہ ’’زیادہ بارش ہوتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے‘‘ لیکن کبھی آنکھوں کا پانی مرنے پر غیرت جاگنے کی بات نہیں کی جاتی۔ شاید ’’ناقص حکمت عملی‘‘ کی بات بھی ہم غلط کہہ گئے کیونکہ نقص تو تب ہوتا جب کوئی حکمت عملی بنائی جاتی، یہاں تو ہمیشہ سے ہی عمل کا فقدان رہا ہے۔ شہر بس اللہ کے آسرے پر ہی تو چل رہا ہے۔ کوئی بھی ایک منصوبہ جو عقلی بنیاد پر بنایا گیا ہو؟

کیا صوبائی، کیا وفاقی حکومت، کراچی کے معاملے میں سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے محسوس ہوتے ہیں۔ یا دوسرے الفاظ میں ہر ایک کا رویہ ’’کراچی دشمن‘‘ محسوس ہوتا ہے۔ سمجھ سے بالا ہے کہ اس شہر سے یہ دشمنی کیوں نباہی جارہی ہے؟ یہی شہر تو آپ سب کا پیٹ بھر رہا ہے، اسے ہی ختم کردو گے تو جیو گے کیسے؟

چھوڑیے جی، اب دل کے پھپھولے کیا پھوڑیں۔ کون سا ایوان میں بیٹھے ان بے حس نمائندگان کو عوام کی مشکلات کا خیال آنے والا ہے۔ عوام کے یہ نمائندے اگر واقعی عوام سے تعلق رکھتے تو ہی انھیں احساس ہوتا کہ اس شہر میں بسنے والوں کے کیا مسائل ہیں۔ پانی کی قلت، بجلی کی لوڈشیڈنگ، بڑھتی مہنگائی، ٹوٹی سڑکیں، ٹریفک کا اژدہام، کون کون سے دکھ کو روئیں؟ یہ نمائندے ایسی کسی بھی پریشانی سے کبھی گزرے ہی نہیں۔ شاہانہ انداز میں اپنے گھر اور دفتر سے باہر نکلتے بھی ہیں تو پروٹوکول میں بڑی گاڑیوں میں انھیں ان راستوں پر لے کر جایا ہی نہیں جاتا جہاں عوام موجود ہو۔ شاہراہیں بلاک کرکے ان کے لیے ہر طرح کا ٹریفک روک دیا جاتا ہے تاکہ ’’بادشاہ سلامت‘‘ کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ یا مہنگائی کس چڑیا کا نام ہے، انھیں اس بات کا علم ہی کیسے ہوسکتا ہے کہ سرکاری مراعات تو موجود ہی ہیں اور پھر جس قدر کرپشن سے پیسہ بنالیا ہے اس میں تو سات پشتیں عیاشی کرسکتی ہیں۔ پھر بھلا ’’عوام‘‘ کےلیے سوچ کر کیوں ہلکان ہوا جائے؟

بہرحال بات چھڑی تھی بارش کی۔ گزشتہ ہفتے پیر کے دن بادلوں نے شہریوں سے بس چھیڑچھاڑ ہی کی تھی، لیکن منگل کو کراچی کے بیشتر علاقوں میں بادل خوب برسے، لیکن اس ’’برسنے‘‘ نے شہریوں کی حالت پتلی کردی۔ ہر گلی اور چوراہا پانی میں ڈوب گیا۔ شہری ٹریفک میں پھنس گئے۔ وہ مہنگا فیول، جسے پیٹ کاٹ کر اپنی گاڑیاں چلا رہے ہیں، ٹریفک جام میں پھونک دینے کے بعد بھی کئی گھنٹوں تک اپنے گھروں پر نہیں پہنچ سکے۔ اور یہ حال کراچی کے کسی ایک علاقے کا نہیں تھا، بلکہ پورا کراچی ہی ایسی صورت پیش کررہا ہے۔ برساتی نالے ہیں کہ صفائی نہ ہونے کی وجہ سے ابلے پڑ رہے ہیں۔ جب پانی کی نکاسی ہی نہ ہوگی تو گلیاں اور شاہراہیں ہی زیر آب آئیں گی۔ لیکن یہ سادہ سی بات بھی ایوان میں بیٹھے لوگوں کو سمجھ میں نہیں آتی۔

ہمیشہ برساتی نالوں کی صفائی مون سون کا موسم شروع ہونے پر نمائشی طور پر کی جاتی ہے، پیشگی حکمت عملی کبھی نہیں اپنائی جاتی۔ چھوٹے موٹے برساتی نالے تو چھوڑیے، شہر میں جو بڑے نالے تھے، تجاوزات کے بعد انہیں بہت چھوٹا کردیا گیا ہے۔ لیاری ایکسپریس وے جس نالے کے ساتھ بنایا گیا ہے وہ نالہ اب کئی جگہوں پر بہت مختصر ہوکر نالی کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ گلشن اقبال میں امتیاز سپر اسٹور کے برابر میں اگر اس نالے کا جائزہ لیا جائے تو مٹی ڈال کر وہ نالا بالکل ہی ختم کردیا گیا ہے اور ایک مختصر سی نالی بہہ رہی ہے۔ اب ایسے میں اگر پانی کا زیادہ بہاؤ ہوتا ہے تو کیا وہ متصل آبادی میں داخل نہیں ہوگا؟

عید کے دنوں میں ہونے والی بارش نے شہریوں کو دہرا عذاب دکھایا جب نالے تو ابل ہی پڑے اور شہر کے پوش علاقوں کی گلیاں اور شاہراہیں بھی کسی دریا کا منظر پیش کررہی تھیں، اس پر مستزاد قربانی کے جانوروں کی جگہ جگہ پھینکی گئیں آلائشیں بارش کے پانی میں تیرتی ہوئی گلیوں محلیوں میں پہنچ گئیں اور ہر جگہ گندگی کے ساتھ تعفن کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

بارش کے بعد کی خبریں ہی دیکھ لیجئے۔ کہیں نالے ابل رہے ہیں، نشیبی علاقے زیر آب آگئے، سڑکوں پر گھٹنے گھٹنے پانی کھڑا ہے، نکاسی آب کا نظام درہم برہم ہے، شہری پریشان ہیں، وغیرہ وغیرہ۔

شہر کے حوالے سے حکمت عملی کا یہی فقدان ہے جس نے چھوٹے چھوٹے مسائل کو بھی بڑے عذاب کی صورت دے دی ہے۔ اب ایسے میں بارش جیسی رحمت شہریوں کے لیے زحمت میں تبدیل ہوتی ہے تو اس کے ذمے دار مکمل طور پر اس شہر کے اسٹیک ہولڈرز، صوبائی اور وفاقی حکومت ہے۔ اللہ ہمیں ایسے حکمرانوں سے نجات دلائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

وقار احمد شیخ

وقار احمد شیخ

بلاگر جامعہ کراچی سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ کالم نگاری کے علاوہ کہانیوں کی صنف میں بھی طبع آزمائی کرتے رہے ہیں۔ اپنے قلمی نام ’’شایان تمثیل‘‘ سے الگ پہچان رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔