سب سے بڑی توہین عدالت تو وہ تھی

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 14 ستمبر 2022
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

کسی قانون دان سے کسی آئینی اور قانونی نقطے پر رائے دریافت کی جائے تو اسے اپنی پسندوناپسند سے بالاتر ہوکر رائے دینی چاہیے۔ ایس ایم ظفر صاحب کی رائے objective ہوتی ہے۔ چوہدری اعتزاز صاحب ایک قابل وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ دانشور اور مصنف بھی ہیںالبتہ کسی قانونی اور آئینی نقطے پر رائے دیتے ہوئے بعض اوقات وہ اپنی پسند اور ناپسند کو بھی سامنے رکھتے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے آئین کے آرٹیکل 163-A کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ میں بھیجے گئے صدارتی ریفرنس کے بارے میں کسی اینکر کے پوچھنے پر چوہدری صاحب نے دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ ’’وزیرِاعظم کے خلاف ان کے منحرف ارکان کے ووٹ کاؤنٹ ہوں گے۔‘‘ میں نے اپنی تحریروں میں چوہدری صاحب کی رائے کا حوالہ بھی دیا، مگر جب سپریم کورٹ کا فیصلہ مختلف آیا اور اس فیصلے سے مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت ختم ہوگئی تو ہمارا خیال تھا کہ اعتزاز احسن صاحب اس  فیصلے کی تائید نہیں کریں گے مگر انھوں نے اس متنازعہ فیصلے کی حمایت کی‘ اس سے میں اور کئی اور لوگ حیران بھی ہوئے۔

چند روز پہلے کسی ٹی وی اینکر نے ان سے عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کے مقدمے کے ممکنہ نتائج کے بارے میں پوچھا تو چوہدری صاحب نے یاد دلایا کہ سب سے بڑی توہینِ عدالت تو نوازشریف دور میں اُس وقت ہوئی تھی جب سپریم کورٹ پر حملہ ہوا تھا مگر اُس کے ساتھ رعایت برتی گئی۔

پروگرام کے بعد مجھے لاہور سے ایک سینئر وکیل کا فون آیا کہ آپ کو 1990 والا وہ واقعہ یاد ہے‘ جب پیپلز پارٹی کے ورکرز نے لاہور ہائیکورٹ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی، ملکی تاریخ کی سب سے بڑی توہینِ عدالت تو وہ تھی، وہ واقعہ بھی سن لیں! 1990میں کرپشن کے مختلف مقدمات کے سلسلے میں بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کی مختلف عدالتوں میں پیشیاں شروع ہوگئیں، ایسی ہی ایک پیشی کے سلسلے میں بے نظیر صاحبہ کو لاہور ہائیکورٹ میں بھی پیش ہونا تھا۔

وہ اقتدار سے ہٹنے کے بعد ایک ملزم کی حیثیت سے لاہور آرہی تھیں، لہٰذا پی پی پی کی مقامی قیادت نے اسے سیاسی شو میں بدلنے کے لیے ورکروں کوکال دے دی کہ وہ بی بی کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے مقررہ تاریخ پر ہائیکورٹ پہنچ جائیں۔ 1990 میںبینظیر صاحبہ بھی متحرک تھیں اور ان کے ساتھ ان کی پارٹی بھی زندہ تھی اور جیالوں میں جوش و خروش بھی بہت تھا۔

پولیس نے انتظامات کے لیے کئی میٹینگیں کیں۔ ایس ایس پی اسرار احمد صاحب اور میں بطور ایس پی سٹی لاہور، ہائیکورٹ کے رجسٹرار محترم عبدالحفیظ چیمہ صاحب (جو بعد میں ہائیکورٹ کے جج بنے) سے ملے اور ان سے درخواست کی کہ ہائیکورٹ حکم نامہ جاری کردے کہ مقررّہ تاریخ کو عام لوگوں کا ہائیکورٹ میں داخلہ بند ہوگا۔ رجسٹرار صاحب نے تو اتفاق کیا مگر چیف جسٹس صاحب نے داخلہ بند کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ہمارے لیے سب ملزم ایک جیسے ہیں، ویسے بھی ہم سائلوں اور وکلاء کے لیے inconveniance پیدا نہیںکر سکتے۔

پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ بے نظیر صاحبہ کے آنے سے پہلے ان کے مقامی لیڈر جلوسوں کی صورت میں کورٹ نمبر1کے سامنے پہنچنا شروع ہوگئے، صبح دس بجے تک ہائیکورٹ کا احاطہ جیالوں سے بھر گیااور موچی دروازے کی جلسہ گاہ کا نقشہ پیش کرنے لگا۔ دو روز پہلے پی پی پی کے شاعر محسن نقوی کی نظم ’’ روزنامہ ’’مساوات‘‘ کے صفحہ اوّل پر چھپی تھی ’’یا اللہ یا رسول، بے نظیر بے قصور‘‘ اُس روز ہر جیالے کی زبان پر یہی نعرہ تھا۔

ہائیکورٹ کے عملے اور پولیس نے غیر متعلقہ افراد کو کمرہ عدالت کے اندر جانے سے روکنے کی کوشش کی مگر پی پی پی کے لیڈروں اور ورکروں نے ہلہ بول دیا،انھوں نے کورٹ نمبر۱ کے شیشے اور کھڑکیاں توڑ دیں اور وہ ڈائس پر چڑھ گئے ، ساڑھے دس کے بعد کمرۂ عدالت کے ڈائس پر جج صاحبان کے بجائے پی پی کے جیالوں کا قبضہ تھااور کچھ جیالے ڈائس پر جج صاحبان کی میز پر کھڑے ہوکر نعرے لگارہے تھے اور جج صاحبان ریٹائرنگ روم میں سہمے ہوئے بیٹھے تھے۔

کورٹ روم کے اندر مجھے پیپلزپارٹی کے کچھ سینئر رہنما نظر آئے تو میں نے اُن سے درخواست کی کہ دیکھیں آپ کے ورکرز عدالت کا وقار مجروح کررہے ہیں، آپ انھیں روکیں، مگر کسی نے میری بات پر کوئی توّجہ نہ دی، تمام لیڈر ورکرز کے جوش و جذبے، اور اس پاورشو پر خوش تھے۔ وہ سب سمجھتے تھے کہ ان حالات میں کسی جج کے لیے بے نظیر کو سزا دینا ممکن نہیں ہوگا۔ اسرار صاحب نے بے بسی سے میری طرف دیکھ کر کہا، باہر دیکھیں، ان کے کچھ معقول لیڈر نظر آئیں تو انھیں کہا جائے کہ وہ عدالتِ عالیہ میں یہ سب کچھ نہ کریں۔

ایک پرانے واقف وکیل سے بات کی تو انھوں نے صاف بتادیا کہ ’’پارٹی اپنے لیڈر کا ٹرائل نہیں ہونے دے گی اور یہ جو ہو رہا ہے یہ حکمتِ عملی کا حصہ ہے‘‘ باہر نکل کر دیکھا تو احاطے میں اعتزاز احسن، جہانگیر بدر‘ ملک احد اور پیپلز پارٹی کے ایک دو سینئر وکلاء برآمدے میں نظر آئے تو میں نے انھیں کہا،’’ اتنی توہین تو کبھی کسی نے مجسٹریٹ یا پٹواری کے دفتر کی نہیں کی جتنی عدالتِ عالیہ کی جا رہی ہے۔‘‘ وہ کوئی جواب دیے بغیر اندر چلے گئے۔اتنے میں بے نظیر بھٹو بھی ڈیوڑھی سے گزر کر عدالتِ عالیہ کے اس احاطے میں پہنچ گئیں تو نعروں کی شدت میں اور اضافہ ہوگیا۔

بینظیر صاحبہ کو پیپلز پارٹی کے ورکرز اور سول لباس میں ملبوس پولیس کمانڈوز اپنے حفاظتی حصار میں برآمدے تک تو لے آئے مگر وہاں اس قدر ہجوم تھا کہ بالکل stampede کی کیفیت تھی جس میں دم گھٹنے سے موت واقع ہونے کا بھی امکان ہوتا ہے،اب ہمارے نزدیک بی بی کی جان کا تحفظ تھا لہٰذا حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے پولیس نے کورٹ نمبر1 کے ریٹائرنگ روم کی کھڑکی توڑ کر راستہ بنایا اور بینظیر صاحبہ کو کھڑکی کے ذریعے ریٹائرنگ روم میں پہنچا دیا۔ وہاں انھیں جسٹس راشد عزیز صاحب نے خوش آمدید کہا اور کافی پلاکر رخصت کردیا اور مقدمے کی کارروائی غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔

بے نظیر صاحبہ کی پیشی پر پارٹی کے لیڈروں اور ورکرز نے جس طرح عدالتِ عالیہ کی عزت و توقیر کو پامال کیا، اس پر غیرجانبدار وکلاء افسوس اور دکھ کا اظہار کرتے رہے۔ میڈیا اور وکلاء کا دباؤ بڑھا تو ہائیکورٹ نے ’’نوٹس‘‘لے لیا۔چوہدری اعتزاز حسن، جہانگیربدر، احدملک وغیرہ کے علاوہ ایس ایس پی اور ایس پی سٹی کو توہینِ عدالت کے نوٹس جاری کردیے گئے۔

مقدمہ سننے کے لیے پانچ رکنی بینچ بنا، پولیس کی اسپیشل برانچ نے سارے واقعے کی وڈیو بنائی ہوئی تھی جو بھری عدالت میں چلا کر دیکھی گئی۔سب سے پہلے بنچ کے سربراہ جسٹس ارشاد حسن(جوبعد میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی بنے) نے کہا کہ ایک ملزم میرا رشتے دار ہے لہٰذا میں اس بنچ میں نہیں بیٹھوں گا۔ وڈیو دیکھ کر بنچ کے ایک اور رکن جسٹس خلیل رمدے نے حسبِ روایت بڑھک ماری’’مسٹر اعتزاز احسن آپ دیکھ رہے ناں،چوہدری صاحب اور ان کے ساتھی خاموشی سے بیٹھے رہے۔ پانچ رکنی بینچ نے کسی کو سزا نہیں دی اور اس پہلی اور آخری تاریخ کے بعد کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ اس واقعے کے سات سال بعد جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے دس ساتھی جج ان کے خلاف ہوگئے۔

اُس وقت ایک پیشی پر مسلم لیگ ن کے ورکرز سپریم کورٹ کی عمارت میں جا گھسے اور انھوں نے وہاں نعرے بازی کی۔ جناب ایس ایم ظفر سمیت کئی وکلاء اور جج صاحبان نے اپنی کتابوں میں اُس ہنگامہ آرائی کا ذکر کیا ہے اور اسے حملے کا نہیں stormingکا نام دیا ہے، اس کی مذمت بھی کی ہے مگر یہ بھی لکھا ہے کہ اس میں کوئی شیشہ اور کوئی گملا نہیں ٹوٹا تھا ۔ اگر آج کے پرائیویٹ چینل لاہور ہائیکورٹ میں ہونے والی اُس توڑ پھوڑ کی فلم چلادیں توقوم سپریم کورٹ والے واقعے کوبھول جائے گی۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے واقعے کی خود سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے انکوائری کی اور طارق عزیز، اختر رسول سمیت کئی ممبران اسمبلی کو سزا ہوئی اور ان کا سیاسی کیریئر ختم ہوگیا مگر لاہور ہائیکورٹ پر حملے اور بے توقیری کا شاید کسی کو یاد بھی نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔