سائبر اور فون کال فراڈ محتاط رہیے

فون کال فراڈ میں ملوث مجرم شہریوں سے ان کی حیثیت کے مطابق لاکھوں روپے تک بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں


شہریار شوکت May 10, 2024
تشویشناک بات یہ ہے کہ ان فراڈیوں کے پاس عوام کا ڈیٹا بھی موجو د ہوتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان میں جہاں لوگ ڈکیتی کی وارداتوں سے پریشان ہیں، وہیں سائبر کرائمز میں بھی بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ان دنوں ایک نئے قسم کے فراڈ سے لٹیروں نے کئی لوگوں کو اپنی رقم سے محروم کردیا۔


اس نئی طرز کے فراڈ میں ملوث افراد واردات کےلیے عام شہریوں کو کال کرتے ہیں۔ انتہائی تشویشناک بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے پاس عوام کا ڈیٹا بھی موجو د ہوتا ہے جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان کا ریکی کا نظام بہت منظم ہے یا پھر ان افراد کی موبائل ریکارڈز تک رسائی ہے۔ ٹیلی فونک فراڈ میں ملوث نوسرباز اکثر اپنے آپ کو پولیس افسر ظاہر کرتے ہیں۔ یہ کسی بھی شخص کو کال ملا کر اسے اس کے نام سے پکارتے ہیں اور بعد ازاں اسے یہ بتاتے ہیں کہ ''آپ کے خاندان کا کوئی فرد ہمارے قبضے میں ہے، ہم تھانے سے بات کررہے ہیں''۔


یہ گروہ اس قدر پلاننگ سے کام کرتا ہے کہ جس شخص کے متعلق یہ بتارہے ہوتے ہیں یہ افراد کال پر اس کی آواز بھی سناتے ہیں، جس میں وہ رو رو کر خود کو بچانے کی درخواست کررہا ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں جسے کال کی جاتی ہے اس کے اعصاب پر مکمل طور پر قابو پانے کے بعد اس سے پیسوں کو مطالبہ کیا جاتا ہے اور اسے یہ کہا جاتا ہے کہ اگر مقدمہ درج نہیں کرانا چاہتے تو پیسوں کا انتظام کرو ورنہ یا تو اسے مار دیا جائے گا یا اس کیس میں حوالات میں ڈال دیا جائے گا۔


اس فراڈ میں ملوث افراد شہریوں سے ان کی حیثیت کے مطابق لاکھوں روپے تک بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں بھی کئی افراد اس فراڈ کا شکار ہوچکے ہیں۔ انجان کال کا یہ طریقہ واردات اس طرح سے ترتیب دیا گیا ہے کہ متاثرہ شخص کو سوچنے سمجھنے کا وقت ہی نہیں ملتا اور اس سے اچھی خاصی رقم بٹور لی جاتی ہے۔


بین الاقوامی ادارے کی تحقیق کے مطابق ایف آئی اے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے فراڈ میں ملوث اس گروہ میں سے اکثر افراد کا تعلق حافظ آباد، فیصل آباد، سرگودھا اور لاہور سے ہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق فون کالز سے کیے جانے فراڈ کے کیسوں کی تعداد اب ہزاروں میں پہنچ چکی ہے۔ واضح رہے کہ سائبر کرائم ونگ میں اب فائیننشل فراڈ کے کیسوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایسے کیس جعلی سم اور جعلی اکاؤنٹس کی وجہ سے بڑھ رہے ہیں، جن کی بدولت یہ گروہ شہریوں کا ریکارڈ باآسانی حاصل کرلیتے ہیں۔ سائبر کرائم نے ٹیلی کام کمپینوں کے عملے کے ایسے کئی افراد کو گرفتار بھی کیا ہے جو ڈیٹا فراہم کرنے میں ملوث ہیں۔


یہ فراڈیئے کال کرتے ہوئے وی پی این ایپلی کیشن سے اپنی کالر لوکیشن تبدیل کرلیتے ہیں جس کے باعث ان کے مقام کا معلوم کرنا کسی حد تک مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ لوگ اسمارٹ فون کے بجائے سادہ فون کا استعمال کرتے ہیں اور واردات کے بعد اسے ضائع کردیا جاتا ہے۔ یہ لوگ ایک ہی دن میں سیکڑوں نمبرز پر کال کرتے ہیں جبکہ ان کی کامیابی کی شرح 8 سے دس فیصد ہے۔


ٹیلی فون کال سے فراڈ کرنے والے کئی افراد جنھیں ایف آئی اے نے گرفتار بھی کیا اور انہیں سزائیں بھی ہوئی ہیں۔ صرف گزشتہ سال 500 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود ان وارداتوں میں کمی نہیں آرہی۔


یقینی طور پر اس فراڈ میں ملوث افراد کا تعلق بھی آئی ٹی کے شعبوں سے ہوگا۔ ملک میں بے روزگاری کی وجہ سے جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے۔ حکومتی سطح پر نوجوانوں کو تکنیکی تعلیم تو دی جارہی ہے لیکن ملازمت کے مواقعے موجود نہیں، جس کے نتائج اسی طرح نکلیں گے۔ جہاں حکومت اور ادارے ان افراد کو گرفتار کرکے کڑی سے کڑی سزا دیں، وہیں اس بات کی بھی کوشش کریں کہ آئی ٹی اور ہیکنگ کے ماہر نوجوانوں کو ملازمت کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جائے تاکہ وہ کسی منفی سرگرمی میں شامل نہ ہوں۔


یہاں یہ بات اہم ہے کہ عام شہری اس فراڈ سے کیسے بچیں؟ شہریوں کو اس طرح کے فراڈ سے بچنے کےلیے خود بھی محتاط رہنا ہوگا۔ شہریوں کو چاہیے کہ فون کال پر کسی بھی قسم کی ذاتی معلومات فراہم نہ کریں اور اگر کسی کے اغوا یا گرفتاری کے متعلق کوئی کال آئے تو سب سے پہلے اس شخص سے رابطہ کریں اور تصدیق کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ کریں۔ یہ افراد ایسے سافٹ ویئرز کا استعمال بھی کرتے ہیں جس سے نمبر بظاہر یو اے این لگتا ہے۔ اس حوالے سے بینک انتظامیہ کئی بار ہدایات جاری کرچکی ہیں کہ بینک کسی قسم کی ذاتی معلومات ٹیلی فون پر نہیں لیتا ۔شہریوں کو اس بات کو ذہن نشین کرنا ہوگا۔ آج کے اس جدید دور میں بھی معصوم لوگ ٹی وی چینلز کے گیم شو کے نام پر لٹ رہے ہیں، عوام کو اب احتیاط سے کام لینا ہوگا ورنہ مشکل حالات میں مزید پریشانی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں