’’اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا‘‘؛ پشاور کے مرتے ہوئے بوڑھے درخت

روخان یوسف زئی  اتوار 14 مئ 2023
 قدیم گھنے درختوں کی موت سے پشاور کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے
فوٹو : فائل

قدیم گھنے درختوں کی موت سے پشاور کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے فوٹو : فائل

 ایک طرف اگر ملک بھر میں شجرکاری کا موسم اور مہم چل رہیہے تو دوسری جانب ’’شجرماری‘‘ بھی جاری ہے۔ اور جہاں ہر طرف لوٹ ماری ہو وہاں اگر شجرماری بھی ہو تو یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔

گذشتہ سال یعنی 2022ء میں تو خیبرپختون خوا کے کئی علاقوں کے پہاڑوں پر ’’نامعلوموں‘‘ کے ہاتھوں پے در پے لگنے والیآگ کی وجہ سے سیکڑوں ہزاروں قیمتی درختوں کے جنگلات آگ کا ڈھیر بنادیے گئے اس پر مستزاد سوات میں غیرقانونی طور پر قیمتی درختوں کی کٹائی الگ کہانی ہے، جس پر بہت کچھ لکھا بھی گیا ہے مگر۔۔۔۔لہٰذا اپنے موضوع سے جڑی ہوئی تمہید کی روشنی میں عرض یہ ہے کہ اس کے باوجود کہ انسانی ارتقاء کی کئی کڑیاں گم ہیں۔

لیکن معلوم شدہ کڑیوں کو ملانے سے زمانہ قدیم کے انسان کی زندگی اس کے ذہنی ارتقائ، فن و ہنر، شعور اور لاشعور کے کئی رنگ ہم ان کڑیوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ انھی رنگوں میں ایک قدیم اور انمٹ رنگ انسانی زندگی اور اس کے لاشعور پر درختوں اور اس کی تاثیر کا بھی ہے۔ بقول علامہ اقبال:

ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر

کہیں معبود تھے پتھر کہیں مسجود شجر

درختوں اور پودوں کا انسانی ذہن پر اثرات اور اس کے ساتھ انسانی احساسات، تصورات اور جذبات کے بارے میں معروف ترقی پسند ادیب اور دانش ور سید سبط حسن اپنی کتاب ’’ماضی کے مزار میں لکھتے ہیں کہ ’’شجر حیات کا تصور اس ابتدائی دور کی یادگار ہے جب انسانی زندگی کا دارومدار صرف درختوں، پودوں، پتوں، پھلوں اور جڑوں پر تھا، درخت اس کی زندگی کی ضمانت تھے اور اس کے لیے خوراک طاقت اور پوشاک کا ذریعہ تھا۔

یہ سلسلہ ہزاروں برس تک جاری رہا اس لیے درخت کی اہمیت و افادیت پیدائش انسانیت سے مسلم ہے اور اس کی اہمیت انسان کے تحت الشعور میں کچھ ایسی قائم ہوئی کہ شجری دور گزرنے کے بعد بھی وہ اپنے لاشعور کو درخت کے تصور سے آزاد نہ کر سکا بل کہ اس کے خیال اور ذہن نے درخت کے اقسام اور تاثیر میں مزید اضافہ کیا اور درختوں کے ساتھ وہ خاصیتیں بھی منسوب کیں جو درخت میں بذات خود موجود نہ تھیں۔

یہی وجہ ہے کہ آج بھی جڑی بوٹی اور سلاجیت بیچنے والے اس کے ذریعے علاج کرانے کا دعویٰ کرتے پھرتے ہیں۔‘‘ اس طرح قصہ آدم میں شجر ممنوعہ کا ذکر، یا ذکریا علیہ السلام کا درختکی کوکھ میں پناہ لینے کا قصہ، قرآن مجید میں سدرۃ المنتہیٰ اورطوبیٰ کے درخت کا نام اور ذکر۔ جیسا کہ رحمان بابا اپنے ایک شعر میںفرماتے ہیں

دہ دطوبیٰ دہ اونے سیوریم خوخ نہ دے

ستا دمخ پہ لمبوسوے کباب خوخخ یم

(مجھے طوبیٰ درخت کا سایہ پسند نہیں، اس کے مقابل تیرے چہرے کے شعلوں میں جل کر کباب ہونا زیادہ پسند کرتا ہوں)گوتم بدھ کی برگد درخت تلے ’’گیان‘‘ حاصل کرنے کی روایت اور اسی طرح زمانہ قدیم میں درختوں کی عبادات اسے جنات اور دیوتاؤں کا مسکن سمجھنا بل کہ پختونوں کے معاشرے میں بعض لوگ اب بھی ’’انجیر‘‘ کے درخت کو مقدس اور جنات کا ٹھکانا گردانتے ہیں۔ اس درخت کی شاخ کو نہیں توڑتے اور نہ ہی اس کی لکڑی کو جلاتے ہیں۔

اس طرح ’’تریک‘‘ کا درخت جسے پشتو زبان میں ’’سریخ‘‘کہتے ہیں، کے متعلق صدیوں سے پختونوں میں یہ روایت بہتمشہور ہے کہ اس درخت (تریک، سریخ) نے پیغمبر اقدس ﷺکو لاحق سخت بخار کو اپنے بدنپر لینے کی دعا کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عصر کے وقت اس درخت کے پتے اور شاخیں مرجھائے ہوئے رہتی ہیں، جس کی عکاسی اور ذکر پشتو شاعری کے عوامی صنف اس ٹپہ میں بھی کیا گیا ہے۔

مازیگر ہر بوٹے تازہ وی

زہ لکہ سریخ ہر مازیگر تبہ کی یمہ

(عصرکے وقت تمام پودے ترو تازہ رہتے ہیں جب کہ میں تریک (سریخ) کی مانند ہر روز عصر کے وقت بخار میں مبتلا رہتا ہوں)۔ یہی وجہ ہے کہ پختون معاشرے میں ’’تریک‘‘ کے درخت کو اب بھی کسی حد تک تقدس اور احترام کی نظرسے دیکھا جاتا ہے پختونوں کے قدیم حجروں میں اس درخت (تریک،سریخ) کی موجودگی لازم و ملزومسمجھی جاتی تھی۔

اب بھی پرانے حجروں میں ایسے بہت کم حجرے آپ کو ملیں گے جہاں ’’تریک‘‘ کا درخت موجود نہ ہو۔ ہمارے اپنے گاؤں موضع جلسئی (صوابی) میں پانچ چھ مشترکہ حجرے اب ایسے بھی پائے جاتے ہیں جہاں تریک کا درخت موجود ہے۔ آج کے اس دورجدید میں بھی قبائلی ضلع کرماور افغانستان کے صوبہ ننگر ہار کے لوگ عموماً بڑے سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ کرزندگی کو درپیش مسائل اور مشکلات کے بارے میں بحث مباحثہ کرتے ہیں۔

پختونوں میں ایک مشہور ضرب المثل ہے جو علامتی طور پر درخت کی جانب سے کہی جاتی ہے،کہ ’’اگر کلہاڑے کا دستہ میرے اپنے تن (وجود) سے نہ ہوتا تو یہ کبھی مجھے اس طرح جڑ سے نہیں اکھاڑتا‘‘ اگر اس ضرب المثل پر غور کریں اور اسے آج ہم اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنے ماحول اور فطرت پر منطبق کریں تو اسحقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتے کہ مذکورہ ضرب المثل میں ایک طویل تجرباتی کہانی بولتی نظر آرہی ہے کیوں کہ درخت جسے ہم اپنی تہذیب و ثقافت میں ایک علامت کے طور پر استعمال کرتے چلے آرہے ہیں۔

اس درخت پر کلہاڑا خود وار نہیں کر سکتا اور نہ اسے کوئی مافوق الفطرت قوت درخت پر وار کرنے کے لیے مجبور کرتی ہے چاہے وہ لکڑہارا یا کوئی اور ہو، وہی درخت جس نے ابتدا سے لے کر آج تک بھوکے انسان کو خوراک دی،برہنہ انسان کو اپنے پتوں اور چھالوں سے ڈھانپ کر اس کی ستر پوشی کی۔

جس نے انسان کو سخت بادوباراں سے اپنے دامن میں بچایا، تپتے صحراؤں اور سورج کی تیز تپش سے اپنی گھنی ٹھنڈی چھاؤں میں ہوا کی زبان سے لوریاں سنا کر میٹھی نیند سلایا، وہی درخت جو تھکے ماندے انسان پر ہمیشہ سایہ فگن رہا، جس نے انسان کو صبر واستقامت زمین سے اپنی جڑوں کے ذریعے خوراک اور سفر کرنے کا طریقہ اور اپنی اونچائی سے اڑان کا حوصلہ دیا وہی درخت، جس نے انسان کے ذوق جمال کو اپنی سرسبزی وشادابی سے تسکین و مسرت بخشی، وہی درخت جو انسان کے تن بدن سے نکلی ہوئی زہریلی گیس (کاربنڈائی آکسائیڈ ) کو اپنے اند ر جذب کرکے اس کے بدلے انسان کو زندہ رکھنے کی خاطر زندگی کی حرارت (آکسیجن) مہیا کرتا ہے مگر افسوسکہ وہی انسان جو درختوں کے سائے اور اس کی تاثیر میں ہزاروں لاکھوں سال کی زندگی کا طویل ارتقائی سفر طے کرکے موجودہ شکل اور مقام تک آپہنچا ہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی طاقت، علم، فکر اور دانش کا دعوے دار بھی ہیمگر ہم آج صرف اپنے صوبے کے دارالحکومت گندھارا تہذیب کا مسکن، پھولوں اور باغوں کے شہر پشاور میں ان گنتی کے چند باقی قدیم درختوں کی موجودہ حالت دیکھیں تو ان درختوں کی تاریخی اہمیت اور ثقافتی شناخت کرنے والا ہر حساس طبیعت کا مالک سوائے رونے اور افسوس کے اور کر بھی کیا سکتا ہے؟

اس زمانے کے پشاور کا تصور کریں جب ظہیرالدین محمد بابر جیسے حکم راں یہاں گینڈوں کا شکار کھیلنے آیا کرتے تھے اور جنہوں نے یہاں کے باغوں اور خوب صورت گھنے دار درختوں کا ذکر اور تعریف اپنی خودنوشت ’’تزک بابری‘‘ میں کی ہے۔

اس پشاور کو اپنے تصور میں لائیں جہاں لیڈی ریڈ نگ اسپتال کے سامنے کھڑے پیپل کیدرخت کے نیچے شام کو شہر کے نوجوان، بچے اور ادھیڑ عمر کے افراد کشتی دیکھنے اور کچھ دیر کے لئے آپس میں گپ شپ لگانے کی خاطر اکھٹے ہوا کرتے تھے اور اس میل میلاپ اور اٹھنے بیٹھنے سے یہاں کے باشندوں میں یگانگت، اتحاد، پیار اور محبت بڑھتیچلی جاتی تھی۔ پشاور کا مشہور اور تاریخی مقام ’’چوک یادگار‘‘ جس کے سینے پر آج سنگ مرمر اور سیمنٹ کا ایک نا قابل برداشت بوجھ پڑا ہوا ہے ایک ایسا بوجھ جس کے تلے اب چوک یادگار جیسا قدآور اور مضبوط چوک اپنی سانس بھی بڑی مشکل سے لے رہا ہے۔

یہاں پیپل کا وہ چہرہ اور وہ آنکھیں جن میں یہاں کی بے شمار تاریخی، رومانی اور تہذیبی تصویریں موجود تھیں آج شہریوں کی لاپرواہی اور شہر میں بڑھتی ہوئی آلودگی نے اس چشم دید گواہ کو بھی وقت سے پہلے اندھا اور بوڑھا کر دیا ہے۔ آج وزیرباغ، لیڈی ریڈنگ اسپتال، گورا قبرستان میں واقع پولیس چیک پوسٹ کے قریب کھڑے بوڑھے درختاور ہشت نگری کے رام پورہ بازار کے علاوہ پورے پشاور شہر میں کسی دوسری جگہ پرانا درخت موجود نہیں رہا۔

اس طرح پشاور کے قریب گاؤں بڈہ بیر کی وجہ تسمیہ بھی یہ بتائی جاتی ہے کہ مہاتما بدھ نے اسی جگہ بیر کے درخت کے نیچے گیان حاصل کیا تھا جو کہ صرف ایک روایت ہے جب کہ تاریخ اس بارے میں خاموش ہے۔ پشاور شہر میں آج بھی بعض مقامات پر گنتی کے جو چند پرانے درختزندگی کی آخری سانسیں لے رہے ہیں۔

ان میں زیادہ تر پیپل کے درخت رہ گئے ہیں چوںکہ پیپل کی ایک اساطیری اورمذہبی اہمیت بھی ہے یہاں تک کہ بعض روایتوں میں یہ بھی ذکر پایا جاتا ہے کہ مہاتما بدھ نے برگد کے سائے تلے نہیں بل کہ پیپل کے نیچے عرفان کے لیے آسن جمایا تھا شاید ایک وجہ یہہو کہ پشاور شہر میں زیادہ تر تجارتی کاروبار کرنے والوں کا تعلق ہندو مذہب سے تھا یعنی دکانوں اور بازاروں میں اکثریت ہندوؤں کی تھی۔

اس لیے یہاں کے اکثر بازاروں اور اہم جگہوں پر پیپل کے درخت کھڑے ہوئے نظرآرہے ہیں جن میں کچھ درخت کاٹ دیے گئے اور کچھ درختوں کی حالت ایسیہے کہ جن کی دیکھ بھال کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے ان کی حالت بھی قابل رحم ہے۔ درخت چاہے کسی بھی قسماور کسی بھی نام کسی بھی خطے کا ہو، اسے مذہب، رنگ نسل یا جغرافیائی طور پر تقسیم نہیں کرنا چاہیے کیوںکہ:

’’کہیں معبود تھے پتھر کہیں مسجود شجر‘‘

درخت قدرت کا وہ تحفہ ہے جو رب ذوالجلال نے کائنات کی خوب صورتی کے لیے اس زمین کو دیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب درخت کی ٹھنڈی چھاؤں کی قدر ہوا کرتی تھی لکڑیکی قدر ہو تی تھی۔ آج تو یہ قدر صرف ٹمبرمافیاکے اسمگلروں کو ہی معلوم ہے۔

حکم راں اور بالائی طبقے سے تعلق رکھنے والوں نے درخت کی خوب صورتی کو سمجھتے ہوئے اسے اپنے محلات، بنگلوں اور شاہراہوں تک محدود کررکھا ہے، حالاں کہ ماضی میں پختون حکم رانشیر شاہ سورینے تمام راستوں، شاہراہوں بالخصوص جی ٹی روڈ کے دونوں جانب درخت لگائے اور شاید اسی وجہ سے یہ شعر تخلیق ہوا ہو کہ

سفر ہے شرط مسافر نواز بہیترے

ہزار شجر سایہ دار راہ میں ہیں

شاعروں نے اسے شعروں کی زینت بنایا اور مصوروں نے اپنے رنگوں سے کاغذ پر اس کا عکس اتاراانگریز شاعرورڈ زورتھ کے نزدیک تو درختعالم ہیں جو انسان کو علم پہنچاتے ہیں۔

اس کے ایک خزاںرسیدہ پتا سے آپ اتنا کچھ جان سکتے ہیں، جتنا کہ آپ تمام دنیا کے داناؤں سے بھی نہیں سیکھ پاسکتے بہرحال آئن اسٹائن کے سامنے درخت سے سیب کیا گرا کہ سائنس اور فطرت آمنے سامنے مقابلے پر اتر آئیں اس جنگ میں کس کو فتح ہوئی کس کو شکست یہ ہم نہیں جانتے شاید وقت بتادے لیکن ریل گاڑی کی ایجاد کے بعد اس درخت کے جسم کو سائنس کی بھٹی سے گزار کر ٹیکنالوجی نے فطرت کو اپنے شکنجے میں لے لیا اس کا نتیجہ دنیاکی گرد اوزون کی تہہ میں شگاف کی شکل میںنکلا آلودگی سے بچاؤ کے لیے کائناتمیں دنیا کے گرد جو چادر تنی تھی۔

سائنس اور آلودگی نے اس میں سوراخ کردیا جس سے کئی منفی موسمی تغیرات رونما ہوئے اس کے اثرات سے پشاور بھی بچ نہیں سکا۔ یہاں کبھی باغوں اور شاہراہوں میں گھنے درخت ہوا کرتے تھے۔ لیکن بلندوبالا پلازوں اور شاہراؤں کی ازسرنو تعمیر اور کشادگی نے انہیں کاٹ کر ایندھن بنا ڈالا اور اس ایندھن میں آج پشاور کے باشندے جل رہے ہیں۔

آج پشاور میں شاذونادر ہی آپ کو کہیں خوب صورت، تناور اور گھنے درخت نظرآئیں گے، یہی وجہ ہے کہ پشاور کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے لوگوں میں اس شہر کی مٹی سے وہ پیار اور تعلقنہیں رہا جو کبھی پہلے ہوا کرتا تھا۔

یہی دیا ہے ہمیں آج کے اس ترقی یافتہ جدید دور، گلوبل ویلیج، اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی فراوانینے؟ پشاور کے علاوہ سوات جسے پاکستان کاسوئٹزرلینڈ کہا جاتا ہے اور وہاں جو خوب صورت قیمتی گھنے جنگلات تھے 2010ء میں وہاں رونما ہونے والے طالبان کے ہاتھوں نہ صرف اسکولوں کو بموں سے اڑایا گیا بل کہ وہاں کے قیمتی جنگلاتکو بے دردی سے کاٹا گیا اور بے حد نقصان پہنچایا گیا، جس کی وجہ سے اربوں روپے کی قیمتی درختیں راگ کے ڈھیر بن گئے تھے۔

ساتھ صوبے کے بیش تر علاقوں کے نہروں اور سڑکوں پر شیشم جیسے قیمتی درختیں بھیدیمک اور گونڑ کا خوراکبن چکا ہے کئی علاقوں میں دن دہاڑے اس قومی سرمائے کو بے دردی سے لوٹا جارہا ہے۔ مگرپوچھنے والا کوئی نہیں۔

درختوں کے حوالے سے چند اشعار

اس بار جو ایندھن کے لیے کٹ کے گراہے
چڑیوں کو بہت پیار تھا اس بوڑھے شجر سے
………
اسے نہ کاٹیے تعمیر قصرکی خاطر
کہ اس درخت میں ایک فاختہ کا جالا ہے
………
وہ پیڑکاٹ کے لکڑی کو بیچ کر خوش تھا
پھر اس کے بعد کڑیدوپہر میں جلتا تھا
………
یہ اک شجر کہ جس پہ نہ کانٹا نہ پھول ہے
سائے میں اس کے بیٹھ کے رونا فضول ہے
………
وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا
………
بچھڑ کے تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپ
اڑا دیئے ہیں پرندے شجر پہ بیٹھے ہوئے
………
شجر نے پوچھا کہ تجھ میں یہ کس کی خوشبو ہے
ہوائے شام الم نے کہا اداسی کی
………
ہر شخص پر کیا نہ کرو اتنا اعتماد
ہر سایہ دار شے کو شجر مت کہا کرو
………
ایک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایا جائے

عجیب درد کا رشتہ تھا سب کے سب روئے
شجر گرا تو پرندے تمام شب روئے
………
چلے جو دھوپ میں منزل تھی ان کی
ہمیں تو کھا گیا سایہ شجر کا
………
میں اک شجر کی طرح رہ گزر میں ٹھہرا ہوں
تھکن اتار کے تو کس طرف روانہ ہوا
………
اڑ گئے سارے پرندے موسموں کی چاہ میں
انتظار ان کا مگر بوڑھے شجر کرتے رہے
………
تھکن بہت تھی مگر سایہ شجر میں جمال
میں بیٹھتا تو مرا ہم سفر چلا جاتا
………
سفر ہو شاہ کا یا قافلہ فقیروں کا
شجر مزاج سمجھتے ہیں راہ گیروں کا
………
بھلے ہی چھاؤں نہ دے آسرا تو دیتا ہے
یہ آرزو کا شجر ہے خزاں رسیدہ سہی
………
پرندے لڑ ہی پڑے جائیداد پر آخر
شجر پہ لکھا ہوا ہے شجر برائے فروخت
………
لگایا محبت کا جب یاں شجر
شجر لگ گیا اور ثمر جل گیا

تم لگاتے چلو اشجار جدھر سے گزرو
اس کے سائے میں جو بیٹھے گا دعا ہی دے گا
………
اس شجر کے سائے میں بیٹھا ہوں میں
جس کی شاخوں پر کوئی پتا نہیں
………
مکاں بناتے ہوئے چھت بہت ضروری ہے
بچا کے صحن میں لیکن شجر بھی رکھنا ہے
………
آ مجھے چھو کے ہرا رنگ بچھا دے مجھ پر
میں بھی اک شاخ سی رکھتا ہوں شجر کرنے کو
………
جل کر گرا ہوں سوکھے شجر سے اڑا نہیں
میں نے وہی کیا جو تقاضا وفا کا تھا
………
عرش بہاروں میں بھی آیا ایک نظارہ پت جھڑ کا
سبز شجر کے سبز تنے پر اک سوکھی سی ڈالی تھی
………
برسوں سے اس میں پھل نہیں آئے تو کیا ہوا
سایہ تو اب بھی صحن کے کہنہ شجر میں ہے
………
پرانے عہد کے قصے سناتا رہتا ہے
بچا ہوا ہے جو بوڑھا شجر ہماری طرف
………
میرے اشجار عزادار ہوئے جاتے ہیں
گاؤں کے گاؤں جو بازار ہوئے جاتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔