لال لگام

شیخ جابر  پير 5 مئ 2014
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

وہ خواتین کا جھگڑا تھا۔ ویسا ہی جیسا کہ خواتین کا جھگڑا ہوتا ہے۔ خواتین بہت حساس ہوتی ہیں۔ کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر فطرت نے خواتین میں یہ حساسیت نہ رکھی ہوتی تو شاید انسانیت کا گلشن کب کا مرجھا کر ختم ہو چکا ہوتا۔ یہ عورت ہی ہے جس کے احساس اور احسان سے گُل ہائے رنگا رنگ نمو پاتے ہیں، اور یہ گلشن سر سبز، شاداب اور آباد رہتا ہے۔ ان خواتین کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہوتی ہیں، چھوٹے چھوٹے گِلے شِکوے اور چھوٹی چھوٹی لڑائیاں بھی۔ وہ بھی ایک چھوٹی سی لڑائی تھی۔ نئی آنے والی پڑوسن نے پرانی رہنے والی کو پُرانا سمجھ کے باجی کہنا شروع کر دیا تھا۔

بس انھیں یہ بات بُری لگ گئی تھی ’’مجھ سے کم از کم آٹھ سال بڑی ہے اور مجھے باجی کہتی ہے‘‘ خواتین ہی پر کیا منحصر مرد حضرات بھی کم نہیں۔ بس میں سفر کے دوران ایک صاحب کھڑے ہوئے تھے، انھیں نشست پیش کرتے ہوئے دوسرے صاحب نے کہا ’’چچا یہاں بیٹھ جائیں‘‘ وہ برا مان گئے۔ عزیز رشتے داروں میں یقیناًآپ کا سابقہ ایسے افراد سے پڑا ہو گا جو اپنے چھوٹوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ انھیں، دادا، دادی، نانا، نانی، پھپھو یا خالہ وغیرہ کہہ کر پکارا جائے۔ خاص کر رشتے کے پوتا پوتی اور نواسوں کو۔ اس طرح کی کئی مثالیں آپ کو روزمرہ میں نظر آئیں گی۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ کیا عمر کا بڑھنا ایک جرم ہے؟ سزا ہے؟ یا کوئی بری بات ہے؟ یا یہ کوئی چھوت کا مرض ہے؟ آخر ہم اس سے اتنے شرمندہ سے کیوں رہتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے بزرگ اپنی بزرگی پر فخر کیا کرتے تھے۔ آج کے بزرگ اپنی بزرگی پر شرمندہ نظر آتے ہیں، آخر کیوں؟

سابقہ اور موجودہ ادوار میں کئی طرح سے فرق ہے۔ ایک فرق یہ بھی ہے کہ یہ دور سامانِ تعیش کا دور ہے۔ آسانی، آسائش اور حصولِ لذت کا دور ہے۔ جدیدآسائشات اور ایجادات پر ایک نظر دوڑائیں۔ آپ پائیں گے کہ یہ ہمیں دنیا میں مگن اور منہمک کردیتی ہیں۔ ان کے استعمال سے لذت کوشی میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ہم ان کے خوگر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پھر انھیں ترک کرنا تو در کنار انھیں چھوڑنے کے تصور ہی سے ہماری روح تک کانپ جاتی ہے۔ ان میں مگن اور مبتلا ہو کر ہم موت کو بھول جاتے ہیں۔ حالاںکہ موت وہ حقیقت ہے جس سے انکار اور فرار ممکن نہیں۔ لیکن آج کی آسائشات میں گھِرا انسان اپنی زندگی کی سب سے بڑی سچائی سے منہ موڑ لیتا ہے۔

وہ اپنی ہی موت کو فراموش کر بیٹھتا ہے۔ دورِجدید کا انسان آسائشات کے حصول کے لیے کھپتا رہتا ہے اور زیادہ کی َہوَس ختم ہونے ہی میں نہیں آتی۔ وہ ساری زندگی، نہ ملنے والی آسائشات کے تعاقب میں ختم کر دیتا ہے۔ جدید دور کی آسائشات اور آسائشات کا خواب انسان کو قبر، حشر اور آخرت کی یاد سے دور لے جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہمیں موت، قبر، حشر، ان تذکروں ہی سے وحشت ہوتی ہے۔ کیوں؟ ہم صرف اور صرف جینا چاہتے ہیں، جوان رہنا چاہتے ہیںاور لذاتِ دنیوی سے لطف کشید کرتے رہنا چاہتے ہیں۔ لیکن لذات سے بہرہ مند ہونے کی بھی ایک عمر ہوا کرتی ہے۔ جب قویٰ مضمحل ہو جائیں تو لذات بھی روکھی پھیکی معلوم دیتی ہیں۔ انسان دنیا سے اور دنیا کی لذات سے سب سے زیادہ اپنے دورِ جوانی ہی میں متمتع ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ہر فرد جوان ہی رہنا چاہتا ہے۔

ہر فرد کو جوان رکھنے کے لیے آج ایک پوری صنعت وجود میں آ چکی ہے۔ ’’اینٹی ایجنگ انڈسٹری‘‘۔ ’’بی سی سی ریسرچ‘‘ مارکیٹنگ ریسرچ کا ایک لیڈنگ ادارہ ہے۔ بی سی سی کی رپورٹ کے مطابق اس صنعت کی 2013 میں مالیت کا اندازہ 261.9 بلین ڈالر تھا۔ محض پانچ برس میں اس صنعت نے 162 بلین ڈالر کا ریکارڈ اضافہ کیا ہے۔ اسی طرح امریکن سوسائٹی اوف پلاسٹک سرجنز کے مطابق ’’بٹالینم ٹریٹمنٹ‘‘ میں 2000 سے 2012 تک 680% اضافہ ہوا ہے۔ چہرے کی جُھریوں اور ماتھے کی شکنوں کے لیے یہ ایک نیا اور موثر طریقہ ہے۔ ’’بوٹکس کاسمیٹکس‘‘ کے طریقے پر محض چند انجیکشن ہی حیرت انگیز نتائج کے حامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ’’بوٹکس‘‘ کی عالمی مارکیٹ 2018 تک 2.9 بلین ڈالر تک جا پہنچے گی۔

نیز ’’فیشل ایستھیٹکس‘‘ کی عالمی مارکیٹ ایک اندازے کے مطابق 4.7 بلین ڈالر تک جا پہنچے گی۔ جس میں سے صرف امریکا کا حصہ 2 بلین ڈالر کا ہو گا۔ امریکن سوسائٹی اوف پلاسٹک سرجنز کے مطابق 2012 میں امریکیوں نے صرف کاسمیٹک ٹریٹمنٹ پر 11 بلین ڈالر خرچ کیے۔ 2011 کے مقابلے میں یہ 5.5 فی صد اضافہ تھا۔ ذرایع ابلاغ ہمیں بتاتے ہیںکہ آپ کو جوان رہنا چاہیے، جوان نظر آنا چاہیے۔ یہ ہی زندگی ہے۔ جدید سائنس نے آپ کے تا دیر جوان رہنے کو آسان کر دیا ہے۔ پلاسٹک سرجری، ڈرماٹولوجی اور کاسمیٹولوجی آج کل اسی طرح کی خدمات میں زیادہ مصروف ہیں۔

امریکا اور یورپ کی طرح خود وطنِ عزیز میں عمر کے بارے میں لوگوں کی حساسیت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کا اندازہ آپ میڈیکل اور جرنل اسٹورز، کاسمیٹکس کی دکانوں اور مالز میں بڑھتی ہوئی ’’عمرکُش مصنوعات‘‘ کی تعداد سے بھی لگا سکتے ہیں۔ یہاں اس حقیقت کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ ان مصنوعات کا استعمال کبھی بھی کسی کی بھی جوانی نہیں لوٹا سکتا، نہ ہی لَوٹاتا ہے۔ انتہائی مہارت سی کی گئی مہنگی ترین سرجری بھی چند ماہ سے زیادہ آپ کے ساتھ نہیں چلتی۔ بوسٹن یونی ورسٹی اسکول اوف میڈیسن کے پروفیسر ڈاکٹر تھامس پرلز کہتے ہیںعمر ِرفتہ کی واپسی ممکن نہیں۔ ڈاکٹر اسکاٹ نیو مین، سینٹ جانز ریور سائیڈ ہاسپٹل نیو یارک کے پلاسٹک سر جری کے چیف ہیں، آپ پارک ایوینیو مین ہٹن میں بھی پریکٹس کرتے ہیں، آپ کا کہنا ہے کہ فطری طور پر چہرے کی ساخت 10 برس تک درست رہتی ہے، جب کے مصنوعی طور پرکی گئی چہرے کی مہنگی سے مہنگی مرمت بھی 12 سے 18 ماہ میں ماند پڑ کر ختم ہو جاتی ہے، بٹالینم ٹاکسن انجیکشنز کا اثر بھی زیادہ سے زیادہ 120 دن تک رہتا ہے۔

اس عرصے کے بعد پھر وہی جھریوں زدہ شکل نکل آتی ہے۔ یہاں تک کہ آپ اس عمل کے عادی ہو جاتے ہیں۔ تصور کیجیے بال کٹوانے کے عمل کو یا بالوں کو رنگنے کو۔ اس شعبے کے ماہر کی یہ رائے بہت کچھ کہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جو ہزارہا افراد کو مجبور کیے دے رہے ہیں کہ وہ نوجوان نظر آنے کی مصنوعی کاوشوں کو باوجود ناکامیوں کے جاری رکھیے رہیں۔ جس طرح خضاب لگا کر ہم سب سے زیادہ خود ہی کو خوش فہمی میں مبتلا کرتے ہیں، جس طرح لال لگام گھوڑی کوجوان نہیں کر سکتی، اسی طرح جدید سے جدید کاسمیٹکس بھی شباب لَوٹا نہیں سکتیں۔ آپ کا چہرہ آپ کی آنکھیں، آپ کی چال ڈھال، آپ کی نشست و برخاست سب کچھ، سب کچھ بتانے کے لیے کافی ہے۔ بلکہ کافی سے بھی زیادہ ہے۔ اور یہ کوئی راز نہیں ہم سب ہی جانتے ہیں۔ پھر آخر کیا ہے جو ہم مانتے نہیں۔ آخر ہمارے فیصلے ہمارے کیوں نہیں رہ پاتے۔ کون ہے جو نئی نئی صنعتوں کے اجرا اور فروغ کے لیے ہمیں استعمال کیے جا رہا ہے۔ اس حوالے سے سائنس دانوں کی رائے بھی لائقِ توجہ ہے۔ اس ’’عمر کُشی‘‘ کے زیادہ تر طریقوں اور ادویات کو ماہر سائنس دانوں کا اعتبار حاصل نہیں۔

سوال یہ ہے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہم یہاں ہمیشہ کے لیے نہیں آئے پھر آخر ہم یہاں ہمیشہ رہنے کی کوششوں میں کیوں مصروف رہتے ہیں؟

نہیں ہے مرجع آدم اگر خاک
کدھر جاتا ہے قد خم ہمارا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔