رمضان الکریم ماہِ نزول قرآن حکیم

مولانا حافظ عبدالرحمن سلفی  جمعـء 29 مارچ 2024
قرآن راہ نجات اور ہمارے تمام دکھوں کا مداوا بھی ہے۔ فوٹو : فائل

قرآن راہ نجات اور ہمارے تمام دکھوں کا مداوا بھی ہے۔ فوٹو : فائل

یہ ماہ رمضان المبارک ہی تھا کہ جس کی مقدس ساعتوں میں اﷲ کا آخری پیغام ہدایت قرآن مجید آپؐ کے قلب اطہر پر نازل کیا گیا۔ سیدنا آدمؑ سے لے کر جناب عیسیٰؑ تک جتنے بھی اﷲ کے فرستادہ انبیاء و رسل دنیا میں تشریف لائے، سب کی دعوت کا محور و مرکز اﷲ کی ذات والا صفات کا تعارف تھا۔

سرزمین عرب روئے زمین پر سب سے زیادہ ظلم و ستم سے بھر چکی تھی۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ کسی قوم کی تباہی و بربادی کے جس قدر اسباب ہوسکتے ہیں وہ سب کے سب اہل عرب میں اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ رچ بس چکے تھے اور قریب تھا کہ اﷲ انہیں کسی عذاب میں مبتلا کر کے صفحۂ ہستی سے مٹا دیتا کہ اس کی رحمت جوش میں آئی اور اس نے اپنی آخری دعوت حق اور آخری چہیتے رسول امام الانبیاء رحمت للعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم کو مکۃ المکرمہ کے ایک معزز گھرانے میں پیدا فرمایا۔ یہ ماہ رمضان المبارک ہی تھا کہ جس کی مقدس ساعتوں میں اﷲ کا آخری پیغام ہدایت قرآن مجید آپؐ کے قلب اطہر پر نازل کیا گیا۔

حالاں کہ رمضان پہلے بھی آتا تھا لیکن نزول قرآن کی برکت سے ماہ رمضان کو جو تقدس حاصل ہوا وہ عظمت رمضان کو اس سے قبل حاصل نہ تھی۔ گویا رمضان اور قرآن کا تعلق اس قدر گہرا اور پختہ ہوگیا کہ دونوں ایک دوسرے کا جزو لاینفک ہوگئے۔ رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ اس ماہ مقدس کی تمام تر ساعتیں جو باعث برکت و رحمت اور مغفرت ہیں تو قرآن مجید پر کماحقہ عقیدہ و عمل کی بنیاد پر ہیں۔ چوں کہ رسالت محمدیؐ کی پہچان کا عنوان قرآن ہے۔ ابتدا ہی میں قرآن کی عظمت یوں آشکار کی گئی، مفہوم:

’’الٰم! یہ کتاب اس میں کچھ شک نہیں، ڈرنے والوں کے لیے سامان ہدایت ہے۔‘‘

’’اور یہ قرآن ایسا نہیں کہ اﷲ کے سوا کوئی ا س کو اپنی طرف سے بنا لائے۔ ہاں! ( یہ اﷲ کا کلام ہے) جو (کتابیں) اس سے پہلے (کی) ہیں۔ ان کی تصدیق کرتا ہے اور انہی کتابوں کی (اس میں) تفصیل ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں (کہ) یہ رب العالمین کی طرف سے (نازل ہُوا) ہے۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبرؐ نے اس کو اپنی طرف سے بنا لیا۔ کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو تم بھی اس طرح کی ایک سورۃ بنا لاؤ اور اﷲ کے سوا جن کو بلا سکو (ان کو ) بلا بھی لو۔‘‘

ان آیات مبارکہ میں قرآن مجید کے منزل من اﷲ اور مبنی برحق ہونے کا چیلنج دیا گیا۔ یہ ایسا کھلا چیلنج ہے جو آج تک انسانیت قبول کرنے سے عاجز ہیِ، اور کیوں نہ ہو کہ اس جیسا کوئی بنا ہی نہیں سکتا، کیوں کہ یہ رب رحمٰن کا کلام ہے۔ نزول قرآن مجید ماہ رمضان سے بالکل جُڑا ہوا ہے کہ رمضان آتا ہے تو قرآن بھی کثرت سے تلاوت کیا جانے لگتا ہے اور یہ اتنا عظیم کلام ہے کہ اس کے نزول کی رات کو کہ جس میں یہ نازل کیا گیا اسے بھی اﷲ رب العالمین نے عظمتیں اور رفعتیں عطا فرما دیں اور ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’بے شک! ہم نے اس (قرآن مجید) کو قدر (منزلت) والی رات میں نازل کیا۔ اور آپ کو کیا خبر کہ شب قدر کیا چیز ہے۔ (سو) شب قدر (خیر و برکت میں) ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ فرشتے اور جبرائیل اپنے پروردگار کے حکم سے ہر ایک انتظام کے لیے اس رات (زمین پر) اترتے ہیں۔ وہ امن و سلامتی کی رات ہے اور وہ فجر ہونے تک رہتی ہے۔‘‘ (سوۃالقدر)

یہ کتاب قرآن مجید اس قدر اہمیت و فضیلت کی حامل ہے کہ اس کے نزول کی برکت سے وہ رات بھی عظمتوں اور برکتوں والی ہوگئی کہ اس ایک رات کی خیر و برکت اس قدر وسیع ہوگئی کہ جس قدر ایک ہزار مہینوں کی عبادت و ریاضت کوئی بندہ حاصل کرسکتا ہے۔ اﷲ نے قرآن کی برکت سے امت مسلمہ کو محض ایک رات کی عبادت کا اجر و ثواب ایک ہزار مہینوں کی عبادت کے برابر عطا فرمانے کا اعلان کردیا۔ اندازہ کیجیے! ہماری زندگی میں یہ رات کتنی مرتبہ آتی ہے۔ ہم اس کے فیوض و برکات سے کس قدر فیض یاب ہوسکتے ہیں۔ یہ قرآن مجید کی برکات کا نتیجہ ہے کہ روزے جیسی عظیم عبادت میسر آئی کہ جس کے متعلق حدیث قدسی ہے کہ اﷲ فرماتا ہے: ’’روزہ میرے لیے ہے اور میںہی اس کی جزا دوں گا۔‘‘

قرآن مجید انسانی فوز و فلاح کا دائمی چارٹر ہے جس میں ایک طرف حقوق اﷲ کی پاس داری ہے تو دوسری طرف حقوق العباد کا التزام ہے۔ گویا یہ قرآن ہماری روحانی و جسمانی تسکین و شفا کا باعث ہے۔ اس میں پورا نظام حیات عطا کیا گیا ہے جس پر عمل پیرا ہوکر انسانیت اپنا کھویا ہوا وقار اور گمشدہ متاع عزیز یعنی جنت بھی حاصل کرسکتی ہے۔ قرآن راہ نجات ہے اور ہمارے تمام دکھوں کا مداوا بھی ہے۔ چناں چہ ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ اور ہم قرآن (کے ذریعے) سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل)

نزول قرآن کا مقصد: اﷲ خالق و مالک نے نزول قرآن کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’وہ اﷲ تعالیٰ بہت برکت والا ہے جس نے قرآن مجید کو اپنے بندے (محمدؐ) پر نازل فرمایا تاکہ وہ سب لوگوں کے لیے آگاہ کرنے والا ہوجائے۔ اسی اﷲ (یکتا) کی حکومت و سلطنت ہے، آسمانوں اور زمین کی، اور اس نے کوئی اولاد نہیں بنائی اور نہ کوئی اس کی سلطنت میں شریک ہے۔ اس (اﷲ) نے ہر چیز کو پیدا کیا اور مناسب اندازے پر رکھا۔‘‘ (سورۃالفرقان)

اسی طرح ایک مقام پر قرآن کی عظمت کا یوں اظہار کیا گیا:

’’ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم۔ اگر تم سمجھو تو یہ بڑی قسم ہے۔ کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے۔ (جو) کتاب محفوظ میں (لکھا ہوا ہے)۔ اس کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں۔ پروردگار عالم کی طرف سے اتارا گیا ہے۔ کیا تم اس کلام سے انکار کرتے ہو؟۔ اور اپنا وظیفہ یہ بناتے ہو کہ (اسے) جھٹلاتے ہو۔‘‘ (سورۃ الواقعہ)

مذکورہ بالا آیات قرآنی سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول قرآن کا مقصد انسانیت کے عقائد و اعمال اور اخلاق کی تطہیر کرکے رب کے پسندیدہ بندے بناکر اس کے اصل مقام جنت اور رضائے الٰہی کی شاہ راہ مستقیم پر گام زن کرانا ہے۔ تاکہ انسانیت اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرلے، جو اس کی شامت اعمال کی بنا اس کے ہاتھوں سے جاتا رہا ہے۔

یہ قرآن مجید اتنی عظمتوں اور رفعتوں کا حامل ہے کہ اگر ایمان کے جذبے کے ساتھ محض اس کی تلاوت کرلی جائے تو وہ بھی مومن کے لیے انتہائی اجر و ثواب کا باعث ہوتی ہے۔ چناں چہ اﷲ کے آخری محبوب پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس نے قرآن مجید کا ایک حرف پڑھا اس کو نیکی ملے گی اور ایک نیکی کا ثواب دس نیکیوں کے برابر ہے۔ الٰم ایک حرف نہیں ہے بل کہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور م ایک حرف ہے۔‘‘ (ترمذی‘ دارمی)

اندازہ کیجیے کہ محض تلاوت کرنے پر اس قدر اجر و ثواب ہے تو پھر سمجھ کر سیکھنے اور اس کے علوم کے حصول اور عمل پر کیا اجر و ثواب ہوگا، اس کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ قرآن سیکھنے سکھانے اور اس پر عمل کرنے سے اﷲ کا تقرب حاصل ہوسکتا ہے اور ان شاء اﷲ تعالیٰ اس کی برکت سے جنت کے حصول اور جہنم کی ہول ناکیوں سے محفوظ رہنے میں کام یاب ہوسکتے ہیں۔ جو اگر حاصل ہوگئی تو یقیناً بڑی کام یابی ہے۔

یاد رکھیے! دنیا کی مختصر زندگی بہ ہر صورت گزر ہی جائے گی لیکن اگر یہ زندگی رب کی رضا کے مطابق گزری تو دنیا و آخرت دونوں کی کام یابی ہے، وگرنہ من چاہی، شتر بے مہار زندگی یا اﷲ کی بغاوت و نافرمانی، قرآن کی تکفیر و تکذیب میں گزری تو ایسی زندگی دنیاوی لحاظ سے شاید کام یاب ہوجائے، لیکن ابدی زندگی جہنم کی نذر ہو کر خسران کا باعث ہوگی۔

اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ و مامون رکھے۔ قرآن مجید سے تعلق استوار اور مضبوط سے مضبوط تر رکھنا مؤمن کا شعار ہے۔ یہ نازل ہی اس لیے ہوا ہے کہ ہم اپنا تزکیہ کرلیں اور اپنے پالن ہار اﷲ رب العالمین کے پسندیدہ بندے بن جائیں۔ اور یہ قرآن معمولی کتاب نہیں کہ ہم اسے محض ایک کتاب سمجھیں بل کہ اس میں ہمارے لیے دنیا و آخرت کی کام رانیوں کا مکمل لائحہ عمل موجود ہے ۔ قرآن دلوں کے زنگ دور کرکے صاف شفا ف بناتا ہے۔

رحمت کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد عالی کا مفہوم ہے:

’’دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے جس طرح لوہے کو پانی لگ جانے سے زنگ لگ جاتا ہے۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اﷲ ﷺ! پھر ان کو کس طرح صا ف کیا جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: موت کو زیادہ یاد کیا کرو اور قرآن مجید کو بہت پڑھا کرو۔‘‘ (بہیقی)

’’ جو اپنے رب سے بات چیت کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ قرآن مجید پڑھے۔‘‘

’’ قرآن پڑھا کرو۔ کیوں کہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے شفیع بن کر آئے گا۔‘‘

’’میری امت کی بہترین عبادت قرآن مجید کی تلاوت ہے۔‘‘

قرآن مجید کی تلاوت کرنے والوں کے درجات: رسول رحمتؐ کا ارشاد عالی شان ہے۔

مفہوم: ’’ قرآن مجید پڑھنے والے سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتا جا اور (جنت کے ) اونچے درجات پر چڑھتا جا اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جیسا کہ دنیا میں پڑھتے تھے تمہارا جنت میں آخری درجہ وہ ہوگا جہاں تم پڑھتے پڑھتے ٹھہر جاؤ گے۔‘‘ (ترمذی)

حدیث قدسی میں ارشاد ہُوا، مفہوم: ’’اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت نے جس کو باز رکھا مجھ سے سوال کرنے سے یعنی قرآن مجید پڑھنے میں مشغول رہا، جس کی وجہ سے وہ مجھ سے سوال نہ کرسکا تو اس کو اس سے بہتر دوں گا جو مانگنے والے کو دیتا ہوں۔ یعنی مانگنے والوں سے زیادہ تلاوت قرآن مجید کرنے والوں کو دوں گا اور کلام الٰہی کی فضیلت تمام کلاموں پر ایسی ہے جیسے اﷲ تعالیٰ کی فضیلت تمام مخلوقات پر ہے۔‘‘ (ترمذی)

قرآن مجید سراسر خیر و برکت اور فوز و فلاح اور کام یابیوں و کام رانیوں کا نشان امتیاز ہے۔ اس پر ایمان لانا اس کی تلاوت کرنا اور اس کے احکامات یعنی اوامر و نواہی پر کماحقہ عمل پیرا ہونا اور صاحب قرآن‘ پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد ﷺ کی لائی ہوئی شریعت یعنی قرآن و حدیث کی اتباع و فرماں برداری کرنا دنیا و آخرت کی بھلائیوں اور نجات کا ذریعہ ہے۔ اگر ہمارا تعلق قرآن سے گہرا ہے تو اسے مزید مضبوط تر بنائیے اور اﷲ کا شکر ادا کیجیے۔ اور اگر صورت حال مختلف ہے تو فکر کیجیے اور اﷲ سے لو لگانے کے لیے قرآن سے اپنا رابطہ استوار کیجیے اور کثرت تلاوت سے اس کے ساتھ وابستہ ہوجائیے۔

ان شاء اﷲ تعالیٰ اس کے نزول کے مقاصد بھی پورے ہوں گے اور ہماری زندگی میں پاکیزہ اور صالح انقلاب برپا ہوجائے گا۔ جس کے معاشرے پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ نیز ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی بہترین سانچے میں ڈھل جائے گی اور تعلق بالقرآن کی وجہ سے انفرادی و اجتماعی کوتاہیاں‘ نیکیوں سے بدل جائیں گی اور اﷲ کی زمین پر جہاں انتہائی پاکیزہ معاشرہ تشکیل پاجائے گا اور ہر طرف امن و سکون اطمینان حاصل ہوگا وہیں اخروی زندگی جو ہمیشہ رہنے والی ہے وہ بھی سنور جائے گی اور اﷲ تعالیٰ اپنی اور اپنے حبیب محمد رسول اﷲ ﷺ کی اتباع و تابعداری اور تعلق بالقرآن کے نتیجے میں جنت کے اعلیٰ و ارفع درجات پر بھی فائز فرما دے گا۔ وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہیں جو رمضان اور قرآن سے وابستگی اختیار کرکے اپنے رب کی رضا کے حصول میں کام یاب ہوتے ہیں۔ ماہ رمضان اور قرآن لازم و ملزوم ہیں۔

رمضان المبارک میں جہاں روزے رکھ کر اﷲ کو راضی کرنے والے کام کیے جاتے ہیں، وہیں راتوں کو تراویح کا قیام کرکے قرآن سنایا اور سنا جاتا ہے۔ اسی طرح عام دنوں کی نسبت رمضان میں ذوق و شوق کے ساتھ ہر مسلمان تلاوت قرآن کی سعادت حاصل کرتا ہے۔ کاش! ہم سارا سال قرآن مجید کے ساتھ اسی طرح ربط و تعلق برقرار رکھیں اور تلاوت کے ساتھ ترجمہ و تفسیر سے بھی آگاہی حاصل کریں تاکہ ہمیں صحیح معنوں میں قرآن کے مفاہیم و مطالب سمجھ میں آجائیں اور ہم اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کو قرآن کے اسلوب کے مطابق گزار کر دنیا و آخرت کی لازوال نعمتوں کے حق دار بن جائیں۔

نزول قرآن اﷲ کی عظیم نعمت ہے‘ جو بھٹکی ہوئی انسانیت کے لیے زاد راہ اور جادۂ مستقیم ہے۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح معنوں میں قرآن کا فہم عطا فرمائے اور ہمارے عقائد و اعمال کی اصلاح فرما دے اور ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی میں قرآن کو نافذ فرما دے۔ ہماری لغزشوں اور خطاؤں سے درگزر فرمائے۔ قرآن و صاحب قرآن ﷺ کی سچی فرماں برداری کے ذریعے اپنی رضا کا حصول آسان فرما دے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔