چند معروضات

مزمل سہروردی  بدھ 10 اپريل 2024
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ ابراہیم خان نے اپنے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کیا ہے۔ان کی ریٹائرمنٹ 14اپریل کو ہے۔ لیکن عید الفطر کی چھٹیوں کی وجہ سے فل کورٹ ریفرنس عید سے قبل منعقد کیا گیا ہے۔

اپنے خطاب میں انھوں نے کہا ہے کہ وہ اپنے فیصلوں پر روز آخرت خود کو احتساب کے لیے پیش کریں گے۔ یہ ہمارے ایمان کا بنیادی جز ہے کہ ہم سب نے روز محشر اپنے تمام اعمال کا حساب دینا ہے، نیکیوں کا بھی اور گناہوں کا بھی۔ کوئی استثنا بھی نہیں ہوگا، روز محشر احتساب و حساب دینے سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور نہ بچ سکتا ہے۔

یہ اٹل سچ ہے لہٰذا اس کا ذکر غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصہ میں ان کے بعض فیصلوں کا جھکاؤ ایک سیاسی جماعت کی طرف ہونے کا تاثر دیا گیا ہے۔لگتا ہے‘  شاید انھیں اس تاثر پر اعتراض بھی ہے۔ میں اس تاثر کے سچ یا جھوٹ ہونے پر ابھی بات نہیں کرنا چاہتا کیونکہ یہ مناسب موقع نہیں ہے۔

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ نظام انصاف کی بنیاد ہے کہ انصاف صرف ہونا نہیں چاہیے بلکہ ہوتا نظر بھی آنا چاہیے۔ فرض کریں کہ اگر کسی جج یا ججز کے فیصلے انصاف کے مسلمہ معیار پر پورا نہیں اترتے تو اس میں کس کی کوتاہی ہے؟ تفتیش کی خامی ہے،وکیل کیس کو درست طریقے سے نہیں لڑسکا یا فیصلہ دینے والا اختیارات کا غلط استعمال کرگیا۔

ایسے سوالات اور نظام انصاف کی کمزوریاں برسوں سے چلی آرہی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ججز کو کسی ایک طرف جھکاؤ کے پہلو کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ اگر جج سمجھتا ہے کہ اس نے انصاف کیا ہے تو لوگوں میں یا میڈیا میںجھکاؤ کا تاثر کوئی معنی رکھتا بلکہ اس کا ذکر ہی نہیںہونا چاہیے ۔

میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ جب پی ٹی آئی کی رہنما زرتاج گل کی ضمانت لینے کے لیے رات گئے عدالت کو کھلوایا گیاتھا تو اس پر باتیںلازم ہونا تھیں ‘ جھکاؤکا تاثر بھی ابھرنا تھا، کسی کی زبان بندی تو نہیں کی جاسکتی۔ بہرحال محترم چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے پختون روایات کے تحت رات کو عدالت کھول کر زرتاج گل کو ضمانت دی۔

میں نے تب بھی نقطہ اٹھایا تھا کہ محترم ججز صاحبان علاقائی روایات کے تحت فیصلے کرنے اور عدالت کو چلانے کا حلف نہیں اٹھاتے بلکہ آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنے کا حلف اٹھاتے ہیں۔ پنجابی، سندھی، پختون یا بلوچی روایات پر کاربند رہنے کا کوئی حلف نہیں لیا جاتا ہے۔ فہمیدہ حلقوںکا یہ استدلال بھی درست لگتا ہے کہ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ ایک کیس میں نامزد خاتون ملزمہ کو رات گئے ضمانت لینے کی سہولت ہوگی ۔ آئین میں تو مرد اور عورت برابر ہیں، حقوق بھی برابر ہیں۔

اگر زرتاج گل کو صبح عدالتی اوقات کار کے دوران ضمانت ملتی تو کسی کو تاثر بنانے کا موقع ہی نہ ملتا‘ رات کو گھر سے آنے کی وجہ سے لوگوں نے خصوصی رعایت کا تاثرپیدا کیا حالانکہ ضمانت ملزم کا حق ہوتا ہے، کوئی عدالت قانونی جواز کے بغیر ضمانت سے انکار نہیں کرتی لیکن زرتاج گل کی قانونی ضمانت پر بھی جھکاؤ کا تاثر پیدا ہوگیا۔میں نے یہ واقعہ اس لیے لکھا ہے کہ محترم چیف جسٹس نے خود کہا ہے کہ ان کے فیصلوں سے ایک جماعت کی حمایت کا غلط تاثر لیا گیا ہے۔

یکساں نظام انصاف ہی وہ کسوٹی ہے ، جو ہر قسم کے تاثر کو ختم کرتی ہے۔ اب عام فہم لوگ قانون کی نزاکتوں، باریکیوں اور معاملے کی اہمیت و حساسیت کو تو نہیں سمجھتے ، وہ جو بظاہر نظر آتا ہے، اس پر بات کرتے ہیں، اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ اگر ایک خاتون کو اس کے عورت ہونے کے احترام میں رات گئے بھی ضمانت مل سکتی ہے تو تمام خواتین کو ایسی سہولت ملنی چاہیے۔

آئین وقانون میں کسی بھی ملزم کو دوسرے ملزم پر فوقیت یا ترجیح حاصل نہیں۔ میں نے یہ مثال صرف تاثر کی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے لکھی ہے۔ ایسا تاثر لاہور ہائی کورٹ کے بارے میں بھی قائم ہوا تھا‘ جب وہ بانی پی ٹی آئی کے لیے رات گئے تک عدالت کھلی رہی۔ میں ایسی کئی اور مثالیں دے سکتا ہوں۔ لیکن بات واضح کرنے کے لیے ایک ہی مثال کافی ہے۔

فل کورٹ ریفرنس سے پہلے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے چیف جسٹس پاکستان کو اپنی سپریم کورٹ میں تعیناتی نہ ہونے کے حوالے سے بھی ایک خط لکھا تھا۔ جس میں یہ نکتہ اٹھایا گیا تھا کہ ان کے لیے جگہ موجود تھی لیکن ان کی تعیناتی نہیں کی گئی۔ ان کے مطابق یہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ کا جج بننا ان کا حق تھا اور انھیں ان کے اس حق سے محروم کیا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ سنیارٹی میں ان کا پہلا نمبر تھا۔

اگر سپریم کورٹ میں کوئی بھی تعیناتی ہوتی تو ان کا پہلا حق بنتا تھا۔ان سے پہلے جسٹس وقار سیٹھ مرحوم کو بھی سینئیر ہونے کے باجود سپریم کورٹ کا جج نہیں بنایا گیا تھا بلکہ ان سے جونئیرز کو پروموٹ کر دیا گیا۔ انھوں نے تواس پر سپریم کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی تھی‘ اور نقطہ اٹھایا کہ سپریم کورٹ میں جونئیر ججز کی تعیناتی غلط ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس وقت جسٹس وقار سیٹھ مرحوم کا ساتھ کیوں نہیں دیا گیا۔ جب سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال سپریم کورٹ میں سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کر کے جونئیر ججز کو لار ہے تھے ۔

کیا تب آواز اٹھائی گئی؟ حالانکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیا ل کو خط لکھ رہے تھے کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی کے لیے کوئی اصول ہونا چاہیے۔ تب ان کے اس موقف کی حمائت نہیں کی گئی تھی۔ آج تو صورتحال ویسی نہیں بلکہ مختلف ہے کیونکہ تاحال سپریم کورٹ میںکسی جونئیر ججز کو پروموٹ نہیں کیا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔