جج کسی کی بی ٹیم نہیں، عدلیہ کا احترام نہ کرنے والا کوئی توقع نہ رکھے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

ویب ڈیسک  جمعـء 24 مئ 2024
فوٹو اسکرین گریپ

فوٹو اسکرین گریپ

 لاہور: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس ملک شہزاد احمد نے کہا ہے کہ ججز کسی کی بی ٹیم نہیں ہیں، ہم کسی سے لڑائی نہیں چاہتے تاہم عدلیہ کا احترام نہ کرنے والا ہم سے کوئی توقع نہ رکھے۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے لاہور پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کی پرقار تقریب پنجاب کی عدلیہ میں آنے والے نئے ججز کی ٹریننگ کی اختتامی تقریب ہے، یہ بات باعث اطمینان ہے کہ نئے ججز میں خواتین کی تعداد، بھی موجود ہے۔

چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان پری سروس ٹریننگ مکمل ہونے کے بعد عملی انصاف کی جانب گامزن ہونگے، نئے ججز مشکل مراحل سے گزر کر آج پنجاب کی عدلیہ کا حصہ بنے ہیں جنہیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ عدل کرنا اللہ تعالی کی صفت ہے اور ایک جج اللہ کی جانب سے چنا جاتا ہے جو بے خوف لالچ سے دور، جرأت اور دانشمند ہوتا ہے، جج کا منصب نوکری نہیں ہے جس میں ملازمت کا کوئی خوف ہو۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت پنجاب کی ضلعی عدلیہ میں 14 لاکھ کے قریب مقدمات زیرالتواء ہیں، پنجاب کی عدلیہ میں نئے ججز کو شامل کرکے 1760 ججز تعینات ہیں جبکہ اب بھی 800 جوڈیشل افسران کی کمی ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ کمی کے باوجود بھی دنیا کے ساتھ مقابلے کیلیے ہمارے ججز سب سے زیادہ کام کرتے ہیں، زیرالتواء مقدمات میں کمی لانے کے لئے ویڈیو لنک سے استفادہ وقت کی اہم ضرورت ہے، پنجاب میں بہت جلد شہادتوں کے ریکارڈ اور عدالتی کارروائی کے لئے ویڈیو کی سہولت کا آغاز کیا جائے گا۔

جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے ججز پر زور دیا کہ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی پر مکمل عبور حاصل کریں تاکہ اے ڈی آر سے مکمل طور پر استفادہ کیا جاسکے، اس وقت پوری دنیا میں انصاف کے متبادل نظام قائم کردیئے گئے ہیں۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ مقدمات میں تاخیر کی بڑی وجہ ہڑتال کلچر ہے، لاہور میں گزشتہ عرصہ میں 73 دن تک عدالتیں بند کی گئیں اور صوبے کے دارالحکومت میں جنگل کا قانون نافذ کر کے عوام کو انصاف تک رسائی کے حقوق کو ختم کردیا گیا تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ 90 فیصد سے زائد وکلاء پروفیشنل ہیں، مجھے امید ہے کہ پروفیشل وکلا ہڑتال کلچر کو ختم کرنے میں ہمارا ساتھ دیں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور سپریم کورٹ کے ججز نے ہڑتال کلچر کو ختم کرنے میں بہترین کرداد ادا کیا۔ ہڑتال کی کال کے باوجود چیف جسٹس پاکستان اور سپریم کورٹ کے باقی ججز نے مقدمات کی سماعت کی، ہمیں اس منصب پر آنے کے بعد اپنی آئینی زمہ داریاں پوری کرنی ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ خوشی کی بات ہے کہ کسی ہائیکورٹ نے ہڑتال کی کال نہیں دی، انشاءاللہ عدالتوں کا تقدس برقرار رہے گا اور یہ ہڑتال کلچر ختم ہوگا۔ جسٹس ملک شہزاد نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان بانی پاکستان کے قریبی ساتھی قاضی عیسیٰ کے بیٹے ہیں، انہوں نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہمیشہ آئین و قانون کو مقدم رکھا ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے واضح کیا کہ ہم کسی کی بی ٹیم نہیں ہیں، ہم صرف اللہ تعالیٰ کو جوابدہ ہیں، یہ عدالتی نظام کسی طاقتور کے لئے نہیں بنا ہے بلکہ انصاف کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ہم کسی سے لڑائی نہیں چاہتے تاہم اگر کوئی عدلیہ کا احترام نہیں کرتا تو ہم سے بھی کوئی امید یا توقع نہ رکھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔