افغانستان چالیں اور گھاتیں

اسلم خان  جمعـء 21 ستمبر 2012
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

صدیوں سے جمود کا شکار افغانستان جس کا منظر نامہ آج تیزی سے بدل رہا ہے ۔کابل کی وادی کے پیالے میں اُصول ،نظریات ،عقائد،دوستیاں،دشمنیاں،سب کچھ باہم تحلیل ہو رہا ہے۔تہذیبوں کے تصادم کا پہلا معرکہ وسائل کے لیے ہونے والی لڑائی بن گیا ہے۔

افغانستان میں امریکا اور ا س کے اتحادی پسپائی کے بگل بجا رہے ہیں ۔ جدید ترین ٹیکنالوجی ، مہلک ترین اسلحہ اور مہارت رکھنے والی تیس سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والی افواج قاہرہ ایک دہائی تک سایوں کے تعاقب میں ہلکان ہونے کے بعد زخموں سے چورچور،اپنا بوریا بستر لپیٹ رہی ہیں۔

افغان کو ہساروں اورمرغزاروں میں گذارے ہوئے دنوں کی ہولناک یادیں ان کا تعاقب کریں گی۔ جدید تاریخ کی اس دوسری ہولناک بے نتیجہ جنگ میں امریکی قیادت میں جدید ترین اسلحہ سے لیس دنیا کے تمام قابل ذکر ممالک کی افواج نادیدہ سایوںسے اُلجھتی رہیں۔

طالبان مجاہدین یا آج کے دہشت گرد جنہوں نے تن تنہا ،جنگی امور کے ماہر شاطر حکمت کاروں کو اپنی پسند کے محاذوں پر بھٹکنے پر مجبور کردیا اور اب دُنیا کے بڑے بڑے جرنیل اپنے سینوں پر جگمگ کرتے بہادری کے میڈل سجانے والے، پیشانیوں پر داغ ندامت اور شکست رسوائی لیے محفوظ راستے کی ضمانتوں کے ساتھ واپسی کے منصوبوں کو حتمی شکل دے رہیں ہیں۔

فتح کے حصے دار بے شمار جب کہ شکست کا کوئی باپ نہیں ہوتا۔نیلگوں بوڑھا آسمان پسپائی اور رُسوائی کا منظر بیس پچیس سال کے عرصے میں دوسری بار دیکھ رہا ہے ۔

پہلے سرخ سوویت فوج کو افغان وادیوں اور کوہساروں سے بعداز خرابیِ بسیار،دریائے آموکے اُس پار جانا پڑا تھا لیکن سوویت یونین کاتخلیق کردہ چندہ شہروں تک محدود ریاستی ڈھانچہ ڈاکٹر نجیب کی قیادت میںسوویت فوج کے انخلاء کے دو سال بعدتک بروئے کار رہا تھا۔

اُس وقت سوویت یونین سے نبرد آزما مجاہدین کوامریکی قیادت میں ساری دنیا کی حمایت حاصل تھی جب کہ آج کا افغانستان یکسر مختلف منظرنامہ پیش کررہا ہے ۔جب ساری دنیا کی افواج قاہرہ ہر اعتبار سے پس ماندہ ،نیم خواندہ اورنہتے طالبان سے پنجہ آزمائی کرتے کرتے تھک کر چور ہوچکی ہیں۔الٹی گنتی شروع ہوچکی،اب تو واپسی کا سہانا خواب امن و انصاف کے نام پر اجنبی زمینوں کوفتح کرنے کے لیے نکلنے والوں کو مایوسی کے گُھپ تاریک اندھیروں میںروشنی کی کرن دکھا رہاہے۔

شاطر اور چالباز امریکی رُسوائی اور پسپائی سے پہلے مستقبل کے افغانستان کی من پسند نقش گری کرنے میں مصروف ہیں۔امریکی کسی طور پر افغانستان سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کھربوں ڈالر مالیت کی معدنیات کا تصور کرکے امریکی لالچی لومڑی کے منہ سے رَالیں بہہ رہی ہیں۔

امریکیوں نے معدنیات کی تلاش کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی (Hyperspectral Imaging) استعما ل کرتے ہوئے افغانستان کے 70فیصد علاقے کا سروے کرلیا ہے ۔امریکی جیالوجیکل سروے اور پینٹا گان کے جدید ترین جہازوںنے 28پروازوں کے ذریعے 43دن میں یہ بیش قیمت ڈیٹا اکٹھا کیا ہے ۔

سروے کے لیے استعمال کیے جانے والے ان جدید ترین طیاروں سے 44ہزار کلو میٹر پرواز کی جدید ترین آلات کے ذریعے ایسے تمام مقامات کی نشان دہی کرلی گئی ہے جہاںپرمحتاط اندازوں کے مطابق دس کھرب ڈالرمالیت کی معدنیات موجود ہیں ۔ لوہے، تانبے،کوبالٹ، سونا،لتھیم اورنوبیم جیسی دھاتوں سے مالامال افغانستان سے امریکی اپنے سینے پر بھاری پتھر رکھ کر ہی رخصت ہوں گے ۔

یہ دھاتیں افغانستان کی تقدیر بدل سکتی ہیں اور اسے دنیا میں کان کنی کا سب سے بڑا مرکز بنا سکتی ہیں ۔واضح رہے کہ اُسامہ بن لادن کا سراغ لگانے کے لیے بھی اسی ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا تھا۔

ان معدنیات کی وجہ سے امریکی ہر قیمت پر تمام فریقین سے امن چاہتے ہیں، وہ چین ہو یا روس ،ایران یا القاعدہ ،امریکی سب کو مل بانٹ کر افغان وسائل سے مزے اُڑانے کے مشورے دے رہے ہیں ۔مزار شریف سے ہرات تک ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ آخری مراحل میں ہے۔ ایران سے اپنے تمام تر اختلافات کوپس پشت ڈال کر چاہ بہار کی بندرگاہ تک رسائی کا معاہدہ کیا جا چکا ہے۔

معاملہ یہاں تک آن پہنچا ہے کہ کمانڈر جلال الدین حقانی کے نیٹ ورک کوڈیورنڈلائن سے ملحقہ مشرقی صوبوں پکتیا، پکتیکااور خوست کی ولائتوں کا انتظامی کنٹرول بلاشرکت غیرے دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے ۔اب تو امریکی القاعدہ کے سربراہ ایمن الزواہری سے براہ راست مذاکرات کے لیے مصر میں مقیم ان کے بھائی محمد الزواہری کوبھی میدان میں لے آئے ہیں ۔

کہتے ہیں کہ محمد الزواہری نے مذاکرات کے لیے یک طرفہ اور فوری جنگ بندی کی شرط رکھی ہے ۔ وہ کیامنظر ہوگا ۔جب اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ القاعدہ سے باضابطہ جنگ بندی کا اعلان کرکے مشرقی وسطیٰ میں اپنے کاسہ لیس حکمرانوں کو القاعدہ کے رحم وکرم پر چھوڑدے گا۔

افغانستان اور جنوبی ایشیائی خطے کا سب سے بڑا دعویٰ دار تو برطانیہ ہے اپنے یورپی اتحادیوں کی قیادت کرتے ہوئے انگریزوں نے بھی افغانستان کے حوالے سے تین متبادل منصوبے تیار کررکھے ہیں۔

پلان اے کے مطابق افغانستان کو حقیقی معنوں میں جمہوری ریاست بنانا اور انتظامی امور میں اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والے گروپوں اور شخصیات کی مددکرنا شامل ہے۔ اگر اس منصوبے پر عملدرآمد کیا گیا تو افغان آئین کو پارلیمانی جمہوری اصولوں کے مطابق ڈھالا جائے گا جس کے بعد صدرحامد کرزئی نمائشی سربراہ مملکت بن جائیں گے جب کہ تمام تر اختیارات وزیراعظم اور پارلیمنٹ کو منتقل ہوجائیں گے۔اس منصوبے پر عملدرآمد کا دُور دُور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا ۔

پلان بی کے مطابق اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان کو افغان نیشنل آرمی کے سپردکردیا جائے گا۔ جس کی نگرانی اور رہنمائی امریکا اور اس کے اتحادی کریں گے۔جس کا مطلب یہ ہوگا کہ راندہِ درگاہ مشرف کی ایمرجنسی پلس کا فارمولا کابل میں آزمایا جائے گا۔

اسی طرح تیسرے اورمتنازعہ پلان سی کی نقش گری قدامت پسند،کنزرویٹوپارٹی کے رُکن پارلیمان Tobias Ellwood کررہے ہیں ۔ جس پر لندن سے واشنگٹن تک تمام ایوانوں میںسوچ وبچار اور صلا ح مشورے جاری ہیں۔

یہ افغانستان کے حصے بخرے کرنے کا مذموم منصوبہ ہے ۔جس کے تحت افغانستان کو 8خود مختار ریاستوں میں تقسیم کرنے کی تجویز پر غور کیا جا رہا ہے۔جس کے تحفظ کی ضمانت برطانیہ اوریورپی اتحادی فراہم کریں گے۔

کابل،قندھار،ہرات، قندوز،خوست،جلال آباد، بامیان اور مزار شریف پرمشتمل یہ ریاستیں مقامی وارلارڈز کے سپرد کرنے کا منصوبہ ہے ۔یہ کیا طرفہ تماشاہے کہ کثیر الاقوامی یورپ کو اقتصادیات کے نام پر یورپی یونین کے پلیٹ فارم پر یکجا کردیا گیا ہے جب کہ صدیوں سے ایک اکائی میں مرتکز افغانستان کوسامراجی،نوآبادیاتی، برٹش راج کے ہندوستانی راجواڑوں کی طرز پر 8حصوں میں تقسیم کرنے کے خاکے میں خواہشوں ،جی نہیں بے لگام خواہشات کے رنگ بھرے جارہے ہیں ۔ مغرب اپنے معاشی مفادات کے لیے تمام اخلاقی، قانونی اورانسانی معیارات اور اصولوں کودائو پر لگانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے کیونکہ کمزورقوموںکی تقدیر کے فیصلے اخلاقی نہیں اقتصادی مفادات کو پیش نظر رکھ کر کیے جاتے ہیں۔

افغانستان کے مستقبل کے فیصلے واشنگٹن ،لندن یا جنیوا کے ایوانوں میں نہیں ،افغانستان کے کوہ ودَمن میں ہی ہوں گے۔ساری دُنیا کے عقل مندوں کو ایک معمولی سی بات سمجھ نہیں آرہی ہے کہ افغانستان میں امن کی کنجی صرف ایک ہاتھ میںہے،کسی کو پسند ہو یا ناپسند،وہ ہاتھ ملا محمد عمر کا ہے، اسے تلاش کرو، اس سے بات کرو۔کوئی محمد الزواہری ،کوئی ایمن الزواہری ،کوئی کچھ نہیں کر سکے گا۔

بحرانوں اور عذابوں کے اس موسم میں ایک خوشخبری!

حکومت پاکستان نے بعد از خرابی بسیار سوات کی وادی میںیورپی یونین کے 40ملین یورو کی خطیر رقم سے پن بجلی کے لیے چھوٹے چھوٹے منصوبوں کی منظوری دے دی ہے۔ یہ منصوبے قرض نہیں امداد سے مکمل کیے جائیں گے۔

ما ئیکرو ہائیڈل پاورکے ان منصوبوں کو کم از کم دو سال تک التوا ء کا شکار رکھا گیا اور صدر آصف زرداری کے مشیر خصوصی جناب سلمان فاروقی کی ذاتی مداخلت پر ان منصوبوں کومتعلقہ ادارے کے سردخانے سے نکالا گیا۔

جس کے سربراہ مبینہ طور پر ذاتی حرص و ہوس کے چکر میں اس منصوبے کی فائل دبا کر بیٹھے ہوئے تھے۔کہتے ہیں کہ دس سال قبل متبادل توانائی بورڈ کو سندھ کے ساحلی علاقوں میں ونڈمل پاور جنریشن کے لیے سروے کا ٹھیکہ دیا گیا تھالیکن اس کی بھی کوئی پروا نہ کی گئی ۔جس کی وجہ سے پاکستان آج توانائی کے بد ترین بحران سے دوچار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔