امن اور تہذیب کے نام پر۔۔۔ (آخری حصہ)

شبانہ یوسف  جمعـء 18 جولائی 2014

جس سے ایک بات یہ بھی واضح ہورہی ہے کہ مسئلہ سرمایہ داری نظام سے کہیں زیادہ مذہبی تعصب کا ہے جس کو فلسطین کے تناظر میں دیکھیں تو اور بھی واضح ہوجاتا ہے جہاں ننھے ننھے بچوں اور نہتے لوگوں کی لاشوں کے ڈھیر لگائے جارہے ہیں اور یہی حال عراق اور افغان جنگ میں دہشت گردی کو روکنے کے نام پر کیا جا رہا ہے یہ واضح مسلم نسل کشی ہورہی ہے، جس کو سرمایہ داری کی آئیڈیالوجی میں پنہاں کیاجا رہا ہے۔

سرمائے کا حصول بھی اتنا ہی مقدم ہے جتنی کہ مسلم نسل کشی کے لیے جنگ کو مقدم رکھا جا رہا ہے ۔جنگ کے لیے سرمایہ درکار ہوتا ہے اور جنگ کے نتیجے میں سرمائے کا حصول بھی ہوتا ہے ۔ لہذا مغربی عیسائیت اور یہودیت کی مشترکہ جنگ کا مقصدمسلم نسل کشی کے ساتھ ساتھ ان کے وسائل اور ذخائر پر قابض ہونا بھی ہے ، تاکہ ایک طرف تو لوگ اس دھوکے میں رہیں کہ یہ جنگ سرمایہ داروں کی جنگ ہے تو دوسری طرف مسلم نسل کی مالی طاقت بھی چھین لی جائے، مگر اس کی حقیقت میں یہودی و عیسائی مذہبی انتہا پسندی کارفرما ہے، کیونکہ وسائل کی جنگ ہوتی تو اس کا نشانہ بھارت بھی بنتا۔

’’امن‘‘ کا مسئلہ ہوتا تو کشمیر کے مسئلے کو بھی حل کیا جاتا یا بھارت میں بھی اقوامِ متحدہ کی افواج’’ امن‘‘ کے قیام کے لیے اترتیں۔ یا کوئی اور غیر مسلم ریاست بھی سرمایہ داری کی دہشت کا شکار ہوتی، مگر ایسا نہیں ہے۔ مذہبی تعصب کا ایک ثبوت حال ہی میں ابو غریب جیل کی ایک وڈیو اور تصاویر ہیں جو سوشل میڈیا پر پیش کی گئی ہیں جس کو امریکا کے کسی بھی نشریاتی ادارے نے ریلیز کرنے سے انکار کیا ہے ، اس میں جنگی قیدیوں کے ساتھ کیا جانے والا سلوک  مذہبی تعصب کی واضح نمائندگی کر رہا ہے۔

امن کا راگ الاپتی اقوامِ متحدہ کی آنکھیں کشمیریوں کا نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ سے بہنے والے خون کیوں نہیں دیکھ رہی؟ امریکا اور اس کی اتحادی افواج کو فلسطین میں ہونے والی  اسرائیل کی دہشت گردی اور مسلم نسل کشی اس لیے دکھائی نہیں دے رہی کہ یہ خود انھی کی طرف سے کی جانے والی سب سے بڑی ریاستی دہشت گردی اور تشدد کی شرمناک مثال ہے۔اس کا حل بھی تشدد ہی ہونا چاہیے مگر جب ان پر تشدد کا خیال بھی ظاہر کیا جائے تو  یہ لوگ کہنے لگتے ہیں کہ مذاکرات ہی کے ذریعے کوئی بھی جنگ ختم ہوتی ہے، مگر مذاکرات پر ایسے استحصالیوں کو آمادہ کرنے کے لیے تشدد ضروری ہے۔

ایسے مسائل کا عملی حل فرانس فینن کا تشدد کا فلسفہ کسی حد تک پیش کرتا ہے، فرانز کی تشدد کی آئیڈیالوجی کو تیسری دنیامیں اسی لیے بہت پذیرائی ملی کہ وہ پسے ہوئے طبقات کے پسے ہوئے جذبات کی نہ صرف ترجمانی کرتی ہے بلکہ  ان پر ظلم و جبر کرنے والوں پر واپس اسی طرح ظلم و جبر کا پیغام بھی دیتی ہے اور تیسری دنیا کے  لوگوں کی نفسیات کی وہ تہہ بھی کھول کرقابض قوتوں کے سامنے رکھتی ہے  جس میں ان کے لیے ویسی ہی نفرت اور ظلم کرنے کی خواہش پوشیدہ ہوتی ہے جو ان پر کیا جا رہا ہوتا ہے۔

فرانز کی کتاب ’’ افتادگانِ خاک‘‘ جو مغربی قابض جنونیوں کے ظلم کرنے کی نفسیات کا پردہ چاک کر  رہی  تھی ، کی مقبولیت کودیکھتے ہوئے  مغرب  والوں نے بہت سی تحریری مزاحمت کی ،تشدد کی آئیڈیالوجی کے مقابل مذاکرات کی اہمیت پر زور دینے والے خیالات پر مبنی تحاریر کو اہمیت دی ۔یہی وجہ ہے کہ حناآرنلڈ کی کتاب ’’تشدد‘ کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے کیونکہ حنا ،فرانز کی تشدد کی آئیڈیالوجی کو اپنی کتاب میں یہ کہہ کر مسترد کرتی ہے کہ تشدد کے مقابل تشدد لانے سے مزید تشدد بڑھتا چلا جاتا ہے اور دنیا میں ہونے والی تمام جنگوں اور تنازعات کا آخری حل مذاکرات ہی میں ممکن ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔

حنا کا یہ نقطہ ٹھیک ہے کہ جنگی تنازعات کا حل بالآخر مذاکرات میں ہوتا ہے مگر مذاکرات کی میز تک آنے پر ایک طاقتور جابر ، ظالم اور استحصالی کو اس کے مقابل کھڑی ہونے والی دوسری طاقت ہی مجبور کرتی ہے۔تاریخ گواہ ہے کے مذاکرات کبھی بھی طاقتور اور کمزور کے مابین نہیں ہوتے بلکہ دو طاقتوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ اس لیے دنیا میں جہاں جہاں بھی مزاحمت ہورہی ہے وہ اپنے جائز ہونے کا جواز اپنے اندر رکھتی ہے کہ مزاحمت کا لفظ خود اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ان پر ظلم کیا جارہا ہے، جس کے بدلے میں مزاحمت کار سامنے آئے ہیں۔

اس وقت عرب اور افغانستان سمیت دوسری مسلم ریاستوں کا المیہ یہ ہے کہ ان پر حملے ہورہے ہیں مگر دفا ع نہیں ہورہا یعنی حملہ آور تو موجود ہیں دفاعی قوت کی عدم موجودگی سوال ہے ۔ تشدد کا جواب تشدد سے دینے کے لیے مالی اور افرادی قوت درکار ہوتی ہے خصوصاََ جدید معاشروں میں سرمائے کی طاقت سے بہت کچھ ممکن ہے اور اس طاقت کا مرکز مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے کیا وجہ ہے کہ مذہبی شناخت کا  دنیاوی مرکز سمجھی جانے والی ملوکیت مغرب کی طرف سے ہونے والے ظلم پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے؟

اس سوال کا جواب تلاش کرنے لگیں تو تاریخ عرب شاہی کے کردار کا پردہ  چاک کررہی ہے جو اس ظلم کے بیج بونے اور پنپنے کے لیے سازگار حالات مہیا کرنے میں مغرب کے برابر کھڑی اس وقت بھی کھڑی تھی اوراسرائیلی بھڑیے کی چیڑ پھاڑ سرِ عام  جاری  ہے مگر یہ’’مقدس گائے‘‘  اب بھی خاموش کھڑی ہے ،جب کہ اس بھڑیے کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے اس کے مقابل تشدد کا عمل آراء ہونا ضروری ہوچکا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔