سینیٹ الیکشن کے بعد

اصغر عبداللہ  منگل 24 مارچ 2015
mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

[email protected]

سینیٹ الیکشن تمام ہو چکے اور ن لیگ اپنی دیرینہ خواہش اور تمام تر کوشش کے باوجود اپنا چیئرمین سینیٹ نہیں لا سکی۔ پیپلزپارٹی کے رضا ربانی چیئرمین سینیٹ کا منصب سنبھال چکے ہیں۔ سینیٹ میں ن لیگ کے لیڈر آف دی ہاوس اسحق ڈار اور پیپلزپارٹی کے اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن ان کے ذاتی دوست ہی نہیں، ان کے صلاح کار بھی ہیں۔ یوں سینیٹ میں یہ جو نئی ٹرائیکا وجود میں آئی ہے، نوازشریف کے نقطہ ء نظر سے تسلی بخش ہے، کیونکہ دھرنا تحریک کے دوران اس ٹرائیکا نے ان کی حکومت کو ریسکیو کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ رضا ربانی کا نام نوازشریف سے رضامندی لے کر ہی تجویز کیا گیا، ورنہ آصف زرداری کی پہلی ترجیح سابق وزیر داخلہ رحمان ملک اور دوسری ترجیح سابق وزیر قانون فاروق اے نائیک تھے۔

ستم یہ ہے کہ ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ بھی ن لیگ کے بجائے جے یو آئی لے اڑی ہے، سینیٹ میں جس کے صرف 5 ممبران ہیں۔ اس طرح مولانا فضل الرحمن نے سینیٹ الیکشن میں سب سے بہتر کھیلا ہے۔ پہلے انھوں نے جے یو آئی کو پیپلزپارٹی، ق لیگ اور اے این پی کے اتحاد میں ظاہر کر کے ن لیگ کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کیا، پھر بلوچستان کے کوٹہ پر جے یو آئی کے ڈپٹی چیئرمین کے لیے ’زرداری نواز مک مکا‘ پیدا کر کے ق لیگ کو بھی ششدر کردیا۔ حالانکہ اول اول یہ ق لیگ کے چار پکے ووٹ تھے، جنکی بنا پر پیپلزپارٹی کو ن لیگ پر عددی اور نفسیاتی برتری حاصل ہوئی تھی، اور آصف زرداری نے ن لیگ کے وفد کو، دوٹوک لفظوں میں پیغام دے دیا تھا کہ اگر ن لیگ کو پیپلزپارٹی کا امیدوار قبول نہیں، تو پھر جو بھی فیصلہ ہو گا، الیکشن میں ہوگا۔

نواز شریف سینیٹ الیکشن سے پیچھے ہٹ گئے توآصف زرداری نے ق لیگ سے بالا بالا ڈپٹی چیئرمین کے عہدے پر درون خانہ مولانا فضل الرحمن سے معاملہ طے کر لیا۔ حالانکہ ق لیگ کو توقع تھی کہ ڈپٹی چیئرمین کے لیے آصف زرداری بلوچستان سے ق لیگی خاتون امیدوار کی حمایت کریں گے۔ چوہدری شجاعت حسین نے اسلام آباد اپنی رہایش گاہ پر ’’اپوزیشن‘‘ کا مشترکہ اجلاس بھی کیا، لیکن مولانا فضل الرحمن کو رام نہ کر سکے کہ آصف زرداری ان سے ڈپٹی چیئرمین کے عہدے کی ہامی بھر چکے تھے۔ سو، سینیٹ الیکشن میں مولانا فضل الرحمن کی ماہرانہ سیاست کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہے۔ن لیگ سینیٹ میں بھلے اپنا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین نہیں لاسکی، تاہم پنجاب میں اپنی نشستوں کے علاوہ اپوزیشن (پی ٹی آئی، ق لیگ، پیپلزپارٹی) کی ایک یقینی نشست بھی اچک لے گئی۔

پنجاب میں پی ٹی آئی، ق لیگ اور پیپلزپارٹی کے مجموعی ووٹ، پنجاب سے سینیٹ کی ایک نشست کے لیے درکار ووٹوں سے بھی زیادہ تھے۔ یہ نشست بھی اگر ن لیگ لے گئی ہے، تو اس کے ذمے دار عمران خان ہیں۔ یہ درست ہے کہ اگر پی ٹی آئی الیکشن میں حصہ لے بھی رہی ہوتی تو یہ نشست خود نہیں لے سکتی تھی کہ اس کے ووٹوں میں مطلوبہ اضافہ ممکن نہ تھا، تاہم اگر وہ چوہدری شجاعت حسین کی حمایت کرتی تو ق لیگ، پیپلزپارٹی کو ساتھ ملا کے یہ نشست بہ آسانی جیت سکتی تھی۔ یہ بات اب راز نہیں کہ پنجاب سے پیپلز پارٹی کے امیدوار ندیم افضل چن کو جو 27 ووٹ ملے، وہ ق لیگ کی ان کے لیے چلائی گئی مہم ہی کا نتیجہ ہیں، ورنہ ان کو تو پیپلزپارٹی کے اپنے 8 ووٹ ملنا بھی مشکل تھا، کہ قبل ازیں پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر منظور وٹو بھی سینیٹ کا الیکشن لڑنا چاہتے تھے۔ وہ چوہدری برادران سے حمایت مانگنے بھی آئے تھے۔

چوہدری برادران نے ان کو ٹال دیا۔ اس کے برعکس ندیم افضل چن سے، ماضی میں ان کا ذاتی تعلق بھی رہا ہے، لہٰذا ان کے لیے انھوں نے بھرپور مہم چلائی، بلکہ الیکشن مہم کے دوران بیش تر وقت ندیم افضل چن انھی کے گھر پائے گئے۔ پنجاب سے ن لیگ کے جو ووٹ ندیم افضل چن کو ملے، حقیقتاً وہ چوہدری پرویز الٰہی کے رابطوں کا نتیجہ ہیں۔ لہٰذا، اگر چوہدری شجاعت حسین پنجاب سے اپوزیشن کے متفقہ امیدوار ہوتے تو وہ مطلوبہ ووٹوں سے کہیں زیادہ ووٹوںسے جیت سکتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ن لیگ کے ناراض ارکان سے جب چوہدری برادران ندیم افضل چن کی حمایت کے لیے کہتے تو وہ مضطرب ہو جاتے تھے۔ان کی رائے یہ تھی کہ چوہدری شجاعت حسین کو خود سے الیکشن لڑنا چاہیے، یا ق لیگ ہی سے کسی کو نامزد کرنا چاہیے۔ نظر بظاہر یہ آتا ہے کہ ن لیگ کے علاوہ پی ٹی آئی بھی پنجاب سے چوہدری شجاعت حسین کو سینیٹر منتخب ہوتے دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔ چنانچہ اس نے جان بوجھ کر پنجاب سے اپوزیشن کی یقینی نشست ن لیگ کے پاس جانے دی۔

عمران خان کا دعویٰ تھا کہ خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی کامیابی کے بعد سب کچھ بدل چکا ہے۔ ان کا یہ دعویٰ مگر سچ ثابت نہیں ہوا۔ سینیٹ الیکشن میں کرپشن کا شور اگر سنائی دیا، تو صرف خیبر پختون خوا میں سنائی دیا، اور اس حوالہ سے پی ٹی آئی کے منتخب ارکان ہی پر الزامات عائد کیے گئے؛ بلکہ سب سے پہلے پی ٹی آئی کے چیئرمین ہی کی طرف سے واویلا کیا گیا کہ ان کے ارکان کی بولی لگائی جا رہی ہے۔ انھوں نے یہ دھمکی بھی دی کہ اگر ان کو پورے ووٹ نہ ملے تو وہ کے پی کے اسمبلی توڑ دیں گے، اس کے لیے ان کو آصف زرداری سے باقاعدہ ٹیلے فون کر کے تعاون کی درخواست کر نا پڑی۔

عمران خان نے نواز شریف کو بھی یہ پیش کش بھی کر دی کہ سینیٹ الیکشن میں سیکرٹ بیلٹ ختم کرنے کی صورت میں، وہ چیئرمین سینیٹ کے لیے ن لیگ کو ووٹ دیں گے۔سینیٹ الیکشن کے روز پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں بغیر کسی بدمزگی کے، پولنگ مناسب وقت کے اندر اندر ختم ہو گئی، لیکن کے پی کے میں پورا دن پولنگ کے نام پر دھما چوکڑی مچی رہی۔ ستم یہ ہے کہ پولنگ کے دوران کئی ارکان نے انتخابی قواعد کی کھلے عام خلاف ورزی کی، لیکن اسمبلی کے اندر اور باہر ان کو روکنے والا یا پوچھنے والا کوئی نہ تھا۔ کے پی کے سینیٹ الیکشن میں جو چھینٹے اُڑے ہیں، حقیقتاً اس سے پی ٹی آئی حکومت کی اخلاقی ساکھ متاثر ہے۔

قصہ کوتاہ یہ کہ سینیٹ الیکشن کے نتیجہ میں نواز شریف اور آصف زرداری کی سیاسی پوزیشن مزید مستحکم ہو گئی ہے۔ پنجاب میں ایک نشست ن لیگ کو، اور کے پی کے میں ایک نشست پیپلزپارٹی کو اضافی مل گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کو مزید ایک اضافی نشست بلوچستان سے بھی حاصل ہو گئی کہ نو منتخب آزاد سینیٹر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ ن لیگ اور ق لیگ، دونوں کو بلوچستان میں دھچکا لگا کہ ن لیگ کو ایک نشست کم ملی، جب کہ ق لیگ کو جو واحد نشست مل سکتی تھی، وہ بھی نہ مل سکی۔ سینیٹ الیکشن کے دوران پی ٹی آئی ۲۲ ترمیم کی آڑ میں اسمبلیوں میں واپس جانے کو تیار تھی۔

ن لیگ کو چونکہ اس مرحلہ پر اس کی واپسی سے نقصان تھا، لہٰذا اس نے پی ٹی آئی کو ر استہ نہیں دیا، لیکن اب جب کہ سینیٹ میں بغیر کسی تیسری پارٹی کے، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے مجموعی ووٹ 50 سے اوپر ہوچکے ہیں، ن لیگ نے ڈھیلا ڈھالا جوڈیشل کمیشن بنا کے پی ٹی آئی کو واپسی کا راستہ دے دیا ہے۔ یوں پیپلزپارٹی، ن لیگ اور پی ٹی آئی تینوں پھر سے ایک ہی صفحہ پر آ چکی ہیں، اور اپوزیشن کی سیاست پر جو مُردنی، مئی 2014ء میں ق لیگ کی قیادت اور طاہر القادری کے جاں نثار کارکنوں کے بروئے کار آنے سے پہلے طاری تھی، پھر سے اس پر چھا چکی ہے۔ شاعر نے کہا تھا،

تیرگی ہے کہ امنڈتی ہی چلی آتی ہے
شب کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو جیسے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔