40ارب روپے کے نئے ٹیکس آئی ایم ایف سے اوورکمٹمنٹ کا نتیجہ ہیں!!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 16 نومبر 2015
حکومتی و اپوزیشن اراکین و ٹیکس ماہرین کی ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

حکومتی و اپوزیشن اراکین و ٹیکس ماہرین کی ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

حکومت نے 40 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے جس پر تمام حلقوں میں تحفظات پائے جارہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ اس سے عوام مزید مشکلات کا شکار ہوجائیں گے۔’’40 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی اپوزیشن جماعتوں کے ارکین اور ٹیکس ماہرین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

رانا افضل ( پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ قومی اسمبلی و رہنما پاکستان مسلم لیگ (ن))

حکومت ملک میں ٹیکس وصولیوں کو بڑھانے کیلئے ٹیکس ریفارمز میں بہتری کی کوشش کررہی ہے۔حکومت کی کوششوں کے باعث گزشتہ دوسالوں کے دوران چھ سو ارب روپے سے زائد ٹیکس ریونیو اکٹھا ہوا ہے۔ان دو سالوں میں ڈائریکٹ ٹیکس میں ڈیڑھ فیصد اضافہ جبکہ ان ڈائریکٹ ٹیکس میں ڈیڑھ فیصد کمی آئی ہے۔بدقسمتی سے ا س وقت اپوزیشن اور تاجر برادری حکومت کو تنقید کا نشانہ بنارہی ہیں کہ موجودہ دور حکومت میں ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ تاثر بالکل غلط ہے۔ گزشتہ 67 سالوں میں اس ملک کا جو بھی حال ہم نے دیکھا ہے اس میں ہرسیاسی اور عسکری دورِ حکومت کا کردار رہا ہے لہٰذا کسی ایک جماعت کواس کا ذمہ دار نہیں ٹہرایا جا سکتا۔1998ء میں مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں جی ڈی پی کی شرح13 فیصد تھی لیکن 2013ء میںجب ہمیں حکومت ملی تو اس وقت ملک کی مجموعی جی ڈی پی کی شرح صرف 5 فیصد تھی۔تو کیا اب مسلم لیگ (ن) پہلی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنائے اور اس کے حل کے لیے کوئی کام نہ کرے ؟ملک کو درپیش معاشی و دیگر مسائل ہم سب کیلئے چیلنج ہیں لہٰذاجب تک ہم مل کر قومی سوچ کے تحت ان مشکلات کا حل تلاش نہیں کرتے اس وقت تک مسائل پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔

ملکی ضروریات پورا کرنے کے لیے حکومت کو ٹھوس اور مشکل فیصلے لینا پڑتے ہیں۔ اس ضمن میں حکومت نے اب چالیس ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے لہٰذا اب اپوزیشن اور تاجروں کو تنقید کی بجائے قومی سوچ کے تحت حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔ گزشتہ 67سالوں میں کسی بھی حکومت نے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی لیکن موجودہ حکومت اس حوالے سے اقدامات کررہی ہے کیونکہ جب تک ہر صاحب استطاعت شخص کو ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں کیا جائے گا تب تک یہ نظام درست سمت میں نہیں چل سکتا۔ موجودہ حکومت نے جو ٹیکس ڈائریکٹری شائع کی ہے اس میں حکومتی وزارء کی بڑی تعداد شامل ہیں۔ ٹیکس ڈائریکٹری میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اہم پارٹی رہنماوں اور وزارء کے نام شامل ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ حکومت ٹیکس ریفارمز اور ٹیکس ریونیو بڑھانے کیلئے نان فائلزر کے خلاف بلا تفریق کارروائی کر رہی ہے۔

میرے نزدیک ٹیکس ریونیو کو بڑھانے کیلئے زراعت اور تجارت دومرکزی شعبے ہیں۔ ان شعبوں میں ٹیکس نظام کو بہتر بنانے کیلئے تمام سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ اور قومی شناختی نمبر سے لنک کیا جارہا ہے تاکہ کسی کو بھی ٹیکس نیٹ ورک سے بھاگنے یا چھپنے کا موقع نہ مل سکے۔اس ضمن میں حکومت کمپیوٹرائزڈ سنٹرل ڈیٹا ویئر ہاوسز بنا رہی ہیں تاکہ قومی شناختی کارڈ کے ذریعے بینک اکاونٹس اور پراپرٹی کا سرغ لگایا جا سکے۔یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ حکومت نے ملکی ضروریات کے پیش نظر چالیس ارب روپے کے ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے لہٰذااس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ ٹیکس انجوائے منٹ کیلئے نہیں بلکہ ملکی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے لگائے جارہے ہیں۔

اسد عمر (چیئرمین قائمہ کمیٹی قومی اسمبلی برائے صنعت وپیداوار و رہنما پاکستان تحریک انصاف)

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اکثرکہتے ہیں کہ نیشنل اکنامک ایجنڈا ہونا چاہیے۔تمام وفاقی وزراء میں سے اسحاق ڈار واحد وزیر ہیں جو معاملات سلجھانے کے لیے بات چیت کرتے ہیں اور انفرادی طور پر کوشش بھی کرتے ہیں لیکن وہ ادارہ جاتی جمہوری نظام کو استعمال نہیں کرتے۔ میرے نزدیک اسحاق ڈارملک کے ڈپٹی وزیر اعظم ہیں۔ نجکاری ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ موجودہ حکومت کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہ کسی بھی مسئلے پر سٹیک ہولڈرز کواعتماد میں نہیں لیتی۔ میرے نزدیک پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے سے پاکستان کی تقدیر نہیں بدلے گی۔جولائی 2013ء میں اس معاہدے پر ایم او یو سائن ہوا لیکن حکومت نے اس حوالے سے کسی سے بات چیت نہیں کی۔ حکومت کے اس رویے کی وجہ سے سی پیک ،کالاباغ ڈیم کی طرح متنازعہ بنتا جا رہا تھا، اس پر بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں جب تک طوفان کھڑا نہیں ہوا اس وقت تک حکومت نے کسی کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ پھر آصف علی زرداری کے آگے آنے پر تمام سیاسی جماعتوں کو بلاکر اعتماد میں لیا گیا اور اس طرح یہ مسئلہ حل ہوا۔

اگر حکومت پہلے ہی اس مسئلے پر سب کو اعتماد میں لیتی تو یہ نوبت نہ آتی۔ حکومت انڈائریکٹ ٹیکسوں پر انحصار کر رہی ہے۔ لوگوں سے جینے کا حق چھین لیا گیا ہے،ہر مہینے ٹیکس کی شرح تبدیل ہوتی ہے جبکہ پٹرولیم اور بجلی پر ٹیکسوںکی یلغار کر دی گئی ہے اوراس پر بھی پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے لہٰذااگر حکومت معنی خیز کام کرے گی تو سوال اٹھیں گے۔ اب 40ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا دیئے گئے ہیں لیکن اس مسئلے پر پارلیمنٹ میں بحث نہیں کی گئی۔ تمام ٹیکس مڈل کلاس اور غریبوں پر عائد کئے گئے ہیں لہٰذا ہم کسی بھی صورت اس کی حمایت نہیں کریں گے۔ میرے نزدیک ٹیکس کے نظام کی بہتری کے لیے ایف بی آر میں ریفارمز ہونی چاہئیں۔

سلیم مانڈوی والا (چیئرمین قائمہ کمیٹی سینٹ برائے خزانہ و رہنما پاکستان پیپلز پارٹی)

موجودہ حکومت نے گزشتہ اڑھائی سالوں میں 650ارب روپے کے ٹیکس عوام پر عائد کیے۔اب حکومت 40ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے جارہی ہے لہٰذا پاکستان پیپلز پارٹی، پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اس کی مخالفت کرے گی۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا مقصد قرضہ لینا نہیں بلکہ معاشی صورتحال کو بہتر کرنا ہوتا ہے۔ میرے نزدیک آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے وعدوں میں غلطی کی گئی ہے۔ سینٹ کی فنانس کمیٹی نے آئی ایم ایف کے حکام سے ملاقات کی ہے، ملاقات کے دوران آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول اور قرضے کی واپسی سمیت دیگر امور زیر غور لائے گئے۔ آئی ایم ایف سے قرضے کا حصول ایک بینک سے قرضہ لینے کے مترادف ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف حکام نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کو بتایا کہ ہم کسی ملک پر دباؤ نہیں ڈالتے لیکن ان سے یہ ضرور پوچھتے ہیں کہ جو پیسہ وہ قرضے کی صورت میں لے رہے ہیں اسے واپس کیسے کریں گے۔ اس کے جواب میں قرضہ لینے والی حکومت خود قرضے کی واپسی کا طریقہ کار بتاتی ہے۔

موجودہ حکومت نے قرضے کی واپسی کے لیے آئی ایم ایف سے نومبر تک سٹیل ملز کی نجکاری اور اگلے سال مارچ میں پی آئی اے کی نجکاری کا وعدہ کیا جو نہیں کرنا چاہیے تھا۔ان وعدوں کے پیچھے یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ حکومت نے قومی اسمبلی میں اپنی پوزیشن دیکھ کرآئی ایم ایف سے اوور کمٹمنٹ کی،جو اب اس کے اپنے کنٹرول میں بھی نہیں ہے اور بھر جب حکومت کمٹمنٹ پوری نہیں کرپاتی تو تکلیف ہوتی ہے۔ یہ افسوسناک بات ہے کہ ٹیکسوں کی بھرمار سے ہماری برآمدات کم ہوگئی ہیں جبکہ لارج سکیل مینوفیکچرنگ سمیت دیگر پیداوار وںمیں بھی کمی آئی ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی اپنے دور میںآئی ایم ایف کے پاس نہیں گئی۔ اس وقت انتخابات قریب تھے اور آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا فیصلہ سیاسی تھا۔

شاہد حسین اسد ( ممبرپالیسی ان لینڈ ریونیو ایف بی آر)

ایف بی آر ٹیکس ریفارمز سے متعلق اہم اقدامات اٹھا چکی ہے ۔ اس ضمن میں صوبوں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت بھی کی گئی ہے ۔ پہلی بار ایف بی آر نے ٹیکس فائلرز اور نان فائلرز میں تفریق کی ہے جس میںانکم ٹیکس گوشوارے جمع کروانے والوں پر ٹیکس کی شرح کم جبکہ ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والوں پر ٹیکس کی زیادہ شرح عائد کی ہے۔ موجودہ مالی سال کے پہلے کوارٹر میں ایف بی آر کے پاس 640 ارب روپے اکٹھے کرنے کا ٹارگٹ تھا مگر وصولی 93 فیصد کے حساب سے 6 سو ارب روپے کی گئی البتہ پچھلے سال کے مقابلے میں 62.3 ارب روپے زیادہ وصول کیے گئے ہیں ۔ ٹیکس ادا کرنے والوں کو 21.5 ارب روپے واپس کیے گئے ہیں جبکہ گزشتہ سال 8.9 ارب روپے ادا کیے گئے تھے۔ ٹارگٹ کے حصول کی ناکامی کی بڑی وجہ برآمدات پر سیلز ٹیکس کی کم وصولی ہے۔ جولائی سے ستمبر تک برآمدات میں 12.5 فیصدکمی واقع ہوئی ہے۔ آئل ریفائنری اور آئل مارکیٹنگ کی مقامی سیلز ٹیکس سے وصولی بالترتیب 14 اور32 فیصد کم رہی ہے جبکہ کھاد کی مقامی سیلز ٹیکس کی وصولی 64 فیصد کم رہی ہے۔

ادارے کے ذمے 210 ارب روپے کے واجبات باقی تھے جو آہستہ آہستہ ادا کیے جارہے ہیں ،بینکوں کے ذریعے لوگ اربوں روپے نکلواتے ہیں مگر ٹیکس ادا نہیں کرتے لہٰذا اب زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس کے دھارے میں لانے کے لئے بینکوں سے بھی معلومات حاصل کی جارہی ہیں ۔ این ٹی این نمبر تقریباً ختم ہو چکا ہے،ٹیکس ادا کرنے والے لوگوں کا شناختی کارڈ نمبر ہی ان کاٹیکس رجسٹریشن نمبر ہے اور اب لوگ اپنا شناختی کارڈ نمبر چند منٹ میں ٹیکس نمبر کے طور پر رجسٹرکر وا سکتے ہیں۔ اس وقت تمام مالی و کارباری ٹرانزیکشنز شناختی کارڈ نمبر کے ذریعے ریکارڈ کی جارہی ہیں اور ایف بی آر ان تمام ٹرانزیکشنز کو لوکیٹ کر سکتا ہے۔انکم ٹیکس نان فائلرز کو تین لاکھ کے قریب نوٹس جاری کیے جا چکے ہیں۔اس کے علاوہ ہم ٹیکس نیٹ سے بھاگنے والوں کا سراغ بھی لگارہے ہیں۔

آڑھتی اور دیگر ذرائع سے آمدنی حاصل کرنے والے اور اپنے اثاثے اور جائیداد چھپا نے والوں کو تلاش کیا جارہا ہے اور ان کی ٹرانزیکشن کو شناختی کارڈ نمبر کے ذریعے لنک کیا جارہا ہے تاکہ کسی کو بھی ٹیکس نیٹ سے بھاگنے کا موقع نہ ملے۔ ایف بی آر کے اقدمات کے نتیجے میں 21اکتوبر 2014ء تک75 ہزار ٹیکس فائلر زکا اضافہ ہوا۔ 31 اکتوبر2014ء تک ایک لاکھ 17ہزار انکم ٹیکس گوشوارے جمع ہوئے جبکہ رواں برس 31اکتوبر 2015ء تک دو لاکھ ترانوے ہزار انکم ٹیکس گوشوارے جمع ہوئے جو ایک بڑی کامیابی ہے۔ 2011ء میں انکم ٹیکس فائلرز کی تعداد سات لاکھ تھی جو2015ء میں بڑھ کر9 لاکھ ہوچکی ہے۔ ود ہولڈنگ ٹیکس کے حوالے سے تاجروں کی طرف سے ہمارے پر کافی دباؤ ہے لیکن اس کے باوجود حکومت نے ودہولڈنگ ٹیکس پرہمارا ساتھ دیا ۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/11/IMF-exp-forum.jpg

عبداللہ یوسف (سابق چیئرمین ایف بی آر)

دنیا کا پہلا مسئلہ قرضے کا کرائسزہے۔ریونیو کولیکشن اور ریفنڈ بہت کریٹیکل معاملہ ہے۔ پبلک سیکٹر لاسز کی وجہ سے مالیاتی خسارہ بڑھتا جا رہا ہے لہٰذا ریونیو موبلائزیشن کی ایمرجنسی عائد کی جائے اور ایف بی آر کو چوبیس گھنٹے کام کرکے ٹیکس ریفارمز کرنی چاہئیں۔ٹیکس کے نظام کی بہتری کیلئے انتظامی ریفارمز کے ساتھ ساتھ ٹیکس پالیسی میں بھی ریفامز کی جائیں۔میرے نزدیک انتظامی اصلاحات کے لئے ہمیں کسی دوسرے ملک کا ماڈل اپنا لینا چاہیے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) جب اقتدار میں آئی تو میں نے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو تجویز دی تھی کہ ترکی کے ماڈل کو رول ماڈل کے طور پر اپنا لیں۔ اس طرح 10سالوں میں ہماراجی ڈی پی ڈبل ہو جائے گا۔ اس وقت ٹیکس گیپ 79فیصد ہے،اسے کنٹرول کرنے کے لیے ایف بی آر کے سسٹم کو آٹو میشن پر منتقل کیاجائے۔ ٹیکس کے نظام کی بہتری کے لئے سیاسی وِل کی ضرورت ہے لہٰذا اگر ٹیم ورک کیا جائے تو مسائل کافی حد تک کم ہو سکتے ہیں۔

اجمل بلوچ (صدر آل پاکستان انجمن تاجران)

یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ تاجر ٹیکس ادا نہیں کرتے۔تاجر ایف بی آر کی مشکل ڈاکومنٹیشن اور عملے کی کرپشن سے خوفزدہ ہیں ورنہ تاجر برادری انکم ٹیکس کیلئے پرفارما جمع کروانے کیلئے تیار ہے۔ اس وقت واپڈا کے پاس ساٹھ لاکھ افراد کی معلومات یعنی ہر فرد کا شناختی کارڈ نمبر اور ایڈریس موجود ہے اور تاجر بجلی کے بلوں پر انکم ٹیکس چارجز ماہانہ ادا کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بجلی کے بل پر انکم ٹیکس کس قانون کے تحت لیا جارہا ہے اور پھر جب تاجروں کے بجلی کے بلوں میں انکم ٹیکس لگاکر سالانہ ان سے رقم وصول کی جارہی ہے تو حکومت یہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ تاجر ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ حکومت کی جانب سے لگایا گیا ود ہولڈنگ ٹیکس غیر قانوی ہے۔ تاجر روزانہ بینک میں ٹرانزیکشن کرتے ہیں، یہ رقم ان کی انکم یا منافع نہیں ہے بلکہ سیل ہے اور سیل پر حکومت کیسے ٹیکس لگا سکتی ہے۔

حکومت کی انہی غلط پالیسیوں اور ایف بی آر کے نچلے عملہ کی کرپشن کے نتیجے میں انکم ٹیکس فائلرز کی تعداد چودہ لاکھ سے کم ہوکر آٹھ لاکھ رہ گئی ہے ۔ریٹرن ٹیکس کی ادائیگی کے لئے تاجروں اور صنعتکاروں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جبکہ آڈٹ کی پالیسی پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور ریجنل ٹیکس کے افسران کو نظرثانی کرنی چاہیے۔ حکومت فی الفور اس ٹیکس کو واپس لے اور تاجر برادری کو امتحان میں نہ ڈالے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان بھر کی تاجر برادری حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہو اور اب اگر تاجر برادری سڑکوں پر آئی تو واپسی ممکن نہیں ہو گی۔حکومت کی جانب سے ہر قسم کی بینکنگ ٹرانزیکشن پر ظالمانہ ودہولڈنگ ٹیکس 0.6 فیصد عائد کیاگیا جس کو حکومت نے بعد میںعارضی طور پر 0.3فیصد کر دیاتھا۔ آل پاکستان انجمن تاجران نے فیصلہ کیا ہے کہ ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح کوئی بھی ہو ہم قبول نہیںکریں گے ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ حکومت ودہولڈنگ ٹیکس سے جو ہدف پورا کرنا چاہتی اس سے کہیں زیادہ اب تک نقصان ہو چکا ہے۔

عبدالرؤف عالم (صدارتی امیدوار برائے ایف پی سی سی آئی)

حکومت کو نئے ٹیکس فائلرز کے لئے مراعات کا اعلان کرکے ٹیکس ریونیو اکٹھا کرنے کے لیے دوستانہ ماحول بنایا جائے۔ یہ افسوسناک بات ہے کہ جو بزنس کمیونٹی ٹیکس دے رہی ہے اسی کو جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے جو سراسر زیادتی ہے لہٰذا چھاپوں اور گرفتاریوں کا یہ سلسلہ بند کیا جائے۔ یہ باعث افسوس ہے کہ بیس کروڑ آبادی والے ملک میں صرف چند لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں۔ ٹیکس نیٹ ورک بڑھانے کے لئے حکومت کو چاہیے کہ تمام چیمبرز کو آن بورڈ لے اور اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے ہماری تجاویز پر عمل کرے ۔ توانائی بحران سے معیشت پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اس بحران کے خاتمے کے لیے کوئلے کااستعمال بڑھانا ہوگا۔ کوئلے پر منتقلی، امپورٹ بل اور بجٹ خسارہ کم کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ ہے اور اس طرح ملک کو بین الاقوامی آئل مارکیٹ کے عدم استحکام سے بھی بچا یا جاسکتاہے۔ہمیں سمجھنا چاہیے کہ تیل پر دارومدار کم کرکے اور کوئلے پر انحصار بڑھائے بغیر ملکی معیشت خطرے کی زدمیں رہے گی۔ بجلی گھروں کی بتدریج کوئلہ پر منتقلی سے اربوں ڈالر کی بچت ہو گی جبکہ ڈیموں کی تعمیر سے ہزاروں میگاواٹ سستی بجلی بنائی جا سکے گی۔

یونان کی قرضوں کی واپسی کی صلاحیت میں مسلسل کمی کے باوجود مختلف عالمی ادارے اسے قرضے دیتے رہے جس کے نتیجے میں وہ دیوالیہ ہو گیا۔ ایسی صورتحال سے بچنے کیلئے پاکستان کو احتیاط کی ضرورت ہے اور قرضوں پر انحصاربالکل ختم کرنا چاہیے۔اس وقت پاکستانی معیشت مستحکم ہو رہی ہے لیکن آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر ملک ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھنے کے قابل نہیں اور قرضے نہ ملنے کی صورت میںتیل بھی درآمد نہیں کر سکے گا جس سے ملک کاسارا نظام رک جائے گا لہٰذا اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے کوئلہ بہترین ہتھیار ہے۔یہ افسوسناک بات ہے کہ تھر کے صحرا میں23 سال قبل دنیا کے چھٹے بڑے کوئلے کے ذخیرے کی دریافت کے باوجود اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔یہ خزانہ کئی صدیوں تک پاکستان اور اس خطے کے ممالک کی توانائی کی تمام ضروریات پوری کر سکتا ہے مگر ابھی تک اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ تھر کول سے فائدہ اٹھانے کے لئے وفاقی کول منسٹری قائم کرنے سے معاملات بہتر ہو سکتے ہیں۔ توانائی کی وجہ سے دیوالیہ ہونے سے بہتر ہے کہ مقامی وسائل استعمال کئے جائیں۔بھارت سمیت کئی ممالک میں پاکستان سے کم کوئلہ ہے مگر کوئلے کی الگ وزارتیں قائم ہیں۔کوئلہ دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ایندھن ہے۔بھارت میںکوئلے کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے اور 2025ء میں یہ امریکہ سے بازی لے جائے گا۔

خالد چوہدری (سابق نائب صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)

کسان پیکیج کی مانیٹرنگ کی جائے اوراس میں شفافیت اور چھوٹے کاشتکاروں کے مفادات کو اولیت دینے کو یقینی بنایا جائے۔ وزیر اعظم کاشتکاروں کے مسائل سے آگاہ ہیں ۔ اس لیے انہوں نے کاشتکاروں کی مشکلات کے خاتمے کیلئے 341 ارب روپے کا پیکیج دیا ہے۔ مراعات یافتہ طبقے کو اس پیکیج کو ہائی جیک کرنے کی اجازت نہیں دیں گے بلکہ کاشتکاروں کو مزید مراعات دلوانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ مسائل کے حل کے لیے آٹھ سال قبل سر اٹھانے والے گردشی قرضے کا مستقل حل تلاش کیا جائے کیونکہ اس کی موجودگی میں نہ توصنعت و تجارت ترقی کر سکتی ہے اور نہ ہی سرمایہ کاروں کو راغب کیا جا سکتاہے۔چھ سو ارب روپے کایہ قرضہ سرمایہ کاروں کو ہراساں کرنے کے علاوہ ملک کی عالمی درجہ بندی کیلئے بھی خطرہ ہے ۔ اگر گردشی قرضے کو ختم اور ٹیکس نیٹ کونہ بڑھایا گیا تو یہ قرضہ بے لگام ہو کر معیشت کو روند ڈالے گا۔ ہم چاہتے ہیں کہ قرضے کی ادائیگی کیلئے عوام پر بوجھ بڑھانے کے بجائے اصلاحات کی جائیں اور نادھندگان سے وصولی کی جائے۔میرے نزدیک پاور سیکٹر کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ضروری ہو گیا ہے جس کے لئے سخت فیصلوں کی ضرورت ہے۔ پاور سسٹم کی کمزوریوں سے سالانہ 200 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے جبکہ قرضوں پر 40 ارب روپے سود بھی ادا کیا جا رہا ہے۔

بجلی کی تقسیم کے نقصانات 18.2 فیصد یا 50 ارب روپے ہیں جبکہ مختلف صارفین کے ذمے 628 ارب روپے واجب الادا ہیں جن میں سے 268 ارب روپے مختلف وفاقی اور صوبائی محکموں کے ذمے ہیں۔ حکومت اور آئی ایم ایف نے تین سال میں گردشی قرضہ ختم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جسکے مطابق 2016-17 ء میں گردشی قرضہ 218 ارب روپے اور اس سے اگلے سال 204 ارب روپے کی سطح پر لایاجائے گا جبکہ پاور کمپنیوں کی جانب سے وصولیوں میں پانچ فیصد اور نقصانات میں1.5 فیصد کمی کی جائے گی جو خوش آئندبات ہے تاہم اس میں کاروباری برادری اور عوام کے مفادات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔2015 ء میں حکومت کے کل اخراجات میں سے 40 فیصد اخراجات قرضوں کی واپسی اور سود کی ادائیگی پرہوئے ، 17 فیصد رقم ترقیاتی امور پر صرف ہوئی جبکہ 22 فیصد رقم دفاع کے لیے خرچ کی گئی۔ وزیر خزانہ ودہولڈنگ ٹیکس کے معاملے پر جلد از جلد فیصلہ کریں تاکہ تاجر احتجاج کے بجائے یکسوئی سے کاروبار کر کے ملکی ترقی میں اپنا مثبت کرداد ادا کر سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔