جتنے منہ اتنی باتیں

شہلا اعجاز  پير 7 نومبر 2016
 shehla_ajaz@yahoo.com

[email protected]

’’یہ ان کی سیاست نہیں…بلکہ انجوائمنٹ ہے۔‘‘

’’نہیں نہیں…یہ آپ کی زیادتی ہے۔ وہ سیاست میں خاصے سنجیدہ نظرآتے ہیں۔‘‘ مجھے ان کی رائے سے اتفاق نہ تھا۔وہ ذرا دھیمے سے مسکرائیں۔

’’بی بی! یہ آپ کی اپنی رائے ہے۔‘‘

’’کہیں ایسا تو نہیں کہ انھوں نے مہاجر موومنٹ…میری مراد پرانی والی ایم کیو ایم پر خاصی تنقید کی تھی۔ کہیں یہ اسی کا ردعمل تو نہیں۔‘‘

’’ارے نہیں نہیں۔ بقول آپ کے پرانی والی ایک گویا متحدہ پر۔ عمران خان تو کیا ہر ایرے غیرے نتھو خیرے نے تنقید کی۔ یا یوں سمجھ لیں کہ ان پر تنقید کرنا جیسے ثواب سمجھ کر کی جاتی۔ بہرحال جتنے منہ اتنی باتیں۔ اب بھی ہو رہی ہیں پہلے بھی ہو رہی تھیں۔ لیکن میرا موقف اب بھی وہی ہے کہ یہ ان کی سیاست نہیں بلکہ انجوائمنٹ ہے۔‘‘ انھوں نے اپنی سپاری کھول کر ذرا سی منہ میں ڈالی کچھ ہمارے لیے بھی عطا کی جسے ہم نے شکریہ کے ساتھ منع کردیا۔

’’یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی عمران خان صاحب پرجوش ہیں۔ پرجوش تھے، بہادر ہیں، بات کہتے ڈرتے نہیں۔ جو دل میں آتا ہے کہہ ڈالتے ہیں‘‘

’’معذرت کے ساتھ بی بی! لحاظ ذرا بھی نہیں کرتے ہیں، ناشائستہ گفتگو بھی کرجاتے ہیں گو ان کے منہ سے اس طرح کی گفتگو سنتے کانوں میں خارش سی ہوتی ہے۔ پر ایسا ہی ہے، الزام تراشیاں خوب کرتے ہیں، چھینٹے بھی خوب اڑاتے ہیں، حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ ان کا اپنا دامن بھی کون سا اجلا ہے۔ لیکن نہیں بھئی باز نہیں آتے، اگر آپ چار کہتے ہیں تو سامنے والا بھی دو دو سنا سکتا ہے لیکن کیا کریں کہ کپتان  کی انگریزی بڑی زبردست ہے۔ اس کا فائدہ خوب اٹھا رہے ہیں۔

’’انگریزی کا فائدہ…دوسری جماعتوں کے لیڈران حضرات اور کارکنان بھی اچھی خاصی انگریزی بول لیتے ہیں سمجھ لیتے ہیں۔‘‘

’’ارے بھئی! میں بلاول کی بات نہیں کر رہی۔ خیر جانے دیں۔ لیکن سیاست کرنے کے گُر ہوتے ہیں ۔ بھئی! سیاست کا مطلب کیا ہے۔ میں اس سیاست کی بات نہیں کر رہی جو بڑے بڑے ماہرین نے مشکل مشکل الفاظوں میں الجھا الجھا کر تعریف بیان کی ہے۔ میں تو عوام ہوں۔ عوام کی زبان میں ہی پوچھ رہی ہوں کہ سیاست کا مطلب کیا ہے؟‘‘

’’میرا جواب تو عوامی ہوگا۔‘‘ مجھے بے ساختہ ہنسی آگئی۔

’’بس یہی ساری بات ہے بی بی! سیاست کرنے کے لیے اس کی الف بے جاننے کے لیے عوام میں اترنا پڑتا ہے بلکہ عوام میں سے ابھرنا ہوتا ہے۔ یہ عام انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ خدمت خلق کے جذبے سے ابھرتا ہے۔ میں آپ اور دوسرے وہ لوگ جو سڑکوں پر پیدل چلتے ہیں اپنی روزی کمانے کے لیے بسوں میں لٹک کر سفرکرتے ہیں۔ سارا سارا دن کھیتوں میں کام کرتے ہیں، تپتی دھوپ میں سر پر ٹوکرے رکھ کر سامان اٹھاتے ہیں، بیچتے ہیں، مجبور، کمزور، بے بس عوام جو اسپتالوں میں ہماری مدد کے منتظر ہیں کہ ان کو اچھی سہولتیں، ڈاکٹرز اور دوائیں میسر ہوں۔‘‘

’’لیکن انھوں نے بھی شوکت خانم اسپتال بنایا ہے، اس سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا نا؟‘‘

’’اور اس اسپتال کے لیے زمین کس نے عطیہ کی تھی، بس اب میرا منہ نہ کھلوائیے، پوچھیے آج بھی رمیز راجہ اسی پاکستان میں ہیں۔ پوچھیے کہ کپتان  نے اپنی کپتانی کے زمانے میں تمام کھلاڑیوں سے ان کے معاوضوں میں سے زبردستی اسپتال بنانے کے لیے عطیہ مانگا تھا یا نہیں۔ اور رمیز راجہ نے اعتراض کیا تھا کیونکہ ان کی اپنی ضرورت تھی تو کپتان کا ردعمل کیا تھا۔ پوچھیے…!

’’یہ خاصی پرانی بات تھی شاید۔اس وقت عمران خان جوان تھے؟‘‘

’’اجی بوڑھے بھی کہاں ہیں۔ دو شادیاں کر چکے ہیں، اب دیکھیے آپ آگے کی کیا کہانی ہے۔ میں نے شروع میں کہا تھا ناں کہ یہ سیاست نہیں ہے ۔ تو دیکھیے بات خود بخود یہاں تک آگئی۔‘‘

’’شادی کرنا گناہ تو نہیں ہے۔ اسلام میں تو چار شادیوں کی اجازت ہے۔‘‘

’’ہماری بلا سے چھ کرلیں۔‘‘ وہ چڑ کر بولیں۔

’’جوانی میں آپ بھی شاید ان کی فین تھیں۔‘‘

’’ہم سب ان کے فین تھے جب تک وہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے کھیلتے رہے، لیکن جب سے انھوں نے سیاست کا میدان سنبھالا،کبھی خود گر رہے ہیں کبھی اپنے کارکنوں کو گرا رہے ہیں۔‘‘

’’آپ کا خیال ہے کہ انھیں اپنے کارکنوں کا خیال نہیں؟‘‘

’’انھیں غریب عوام کا خیال ہی نہیں، انھوں نے خود اپنے ایک انٹرویو میں صاف کہا تھا، یہ میں نہیں کہہ رہی۔ ایک مارننگ شو میں انھوں نے بڑے مزے سے کچھ غرور سے کہا تھا کہ غریبوں کو سیاست میں آنا ہی نہیں چاہیے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں وہی وڈیرہ سسٹم۔ آپ باہر بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے پڑھ کر آئے ہو کہ صرف ان جیسے امیروں کو سیاست کرنے کا حق ہے اور ہم جیسے لوگ ان کی طرف نظریں جھکا جھکا کر دیکھیں۔ ان کی ذات میں غرور ہے جسے وہ نکال نہیں سکتے۔ یہ ان کی ذات کا حصہ ہے۔ جو شخص عام لوگوں کے لیے ایسے جذبات رکھتا ہو، وہ کیسے سیاست کرسکتا ہے۔

جب وہ جوان تھے تو اپنے لیے لوگوں کے کمنٹس کو انجوائے کرتے تھے۔ آئے دن ان کا مسل پل رہتا تھا لیکن یہ ان کی ذات کی خوبصورتی تھی کہ پھر بھی انھیں میچز کھلائے جاتے تھے۔ انھوں نے وہ زمانہ شہزادہ بن کر انجوائے کیا۔ کرکٹ کھیلتے رہے پھر کپتان بنے تو ٹیم میں اپنے راج کو انجوائے کیا۔ یاد نہیں جب ورلڈ کپ پاکستان نے نوے کی دہائی میں جیتا تھا۔ تو آصف علی زرداری سے ہاتھ تک نہیں ملایا تھا۔ بھئی! رعب تھا، خیر ہر زمانہ انجوائے کیا۔ اب ان کی عمر ڈھل رہی ہے، ایک شادی انجوائے کرنے کے بعد بور ہوئے تو دوسری کرلی۔

اب اس عمر میں کیسے حکم چلائیں ، انھوں نے تو پورے ملک کو کرکٹ کی ٹیم سمجھ لیا۔ اب اس طرح انجوائے کریں۔ لیکن بی بی! یہ پاکستان ہے، ان کی کرکٹ کی ٹیم نہیں۔ وہ امیر آدمی تھا، امیر آدمی ہے، اب وہ دھرنے دے، ریلیاں نکالے، شہر بند کرائے، مار پیٹ کرائے، ٹی وی اسٹیشن میں ہنگامہ کرائے، امیر آدمی ہے بھئی! کون پوچھتا ہے۔ لیکن یاد ہے جب کراچی میں کسی احتجاج پر جماعت ہڑتال کی کال دیتی ہے تو کپتان  چیخ کر بولتے تھے کہ شہر کراچی کو بند کرانا کسی کا حق نہیں۔ اور نجانے کیا کچھ…پر اب…اب کیا ہو رہا ہے، سارا زمانہ دیکھ رہا ہے۔ سیاست میں بھی ڈبل اسٹینڈرڈ۔ امیر لوگ ہیں بھائی، رعب ہے، ان کی انگریزی بہت اچھی ہے۔

وہ خاصی دیر تک بڑبڑاتی رہیں، فضا میں خاصی خاموشی طاری تھی، شام اداسی سے رات کی جانب بڑھ رہی تھی کہ پھر صبح بھی ہوگئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔