جدوجہد کی تاب ناک کہانی

نگہت فرمان  منگل 25 دسمبر 2012
قائداعظم کی نجی وسیاسی زندگی کی مشکلات اور کام یابیوں پر ایک نظر۔  فوٹو : فائل

قائداعظم کی نجی وسیاسی زندگی کی مشکلات اور کام یابیوں پر ایک نظر۔ فوٹو : فائل

کسی دانشور کا قول ہے، ’’اچھے حکم راں بری قوم کو اچھا بناتے ہیں، اگر بھیڑوں کے ریوڑ کو شیر کی قیادت مل جائے تو وہ ریوڑ کو لشکر بنا دیتا ہے۔‘‘

قائد اعظم محمد علی جناح بھی برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایسے لیڈر گزرے ہیں، جنہوں نے ریوڑ کو لشکر بنادیا تھا۔ قائداعظم مسلمانان برصغیر کے جدوجہد آزادی کے قائد 25 دسمبر  1876کو کراچی کے ایک خوش حال تاجر جناح پونجا کے ہاں پیدا ہوئے۔ انھیں چھے برس کی عمر میں مدرسے میں داخل کرادیا گیا اور دس سال کی عمر میں بمبئی کے اسکول گوگل داس تیج پرائمری اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیج دیا گیا، لیکن ایک سال بعد ہی کراچی لوٹ آئے اور سند ھ مدرسے سے 15 سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔

1892 میں بیرسٹری کا امتحان پاس کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لیے لندن چلے گئے۔ جہاں کے حالات و واقعات سے متاثر ہو کر سیاست میں دل چسپی لینا شروع کی۔ 1896ئمیں بیرسٹر بن کر جب کراچی لوٹے تو معلوم ہوا کہ والد کا کاروبار ختم ہوچکا ہے۔

پریشان ہونے کے بجائے نوجوان محمد علی جناح نے حصول معاش کے لیے مشہور وکیل ہر چند رائے روشن داس کے ماتحت کام کرنا چاہا، لیکن وہ راضی نہ ہوئے، جس کے بعد قسمت آزمائی کے لیے انہوں نے بمبئی جانے کا فیصلہ کیا۔ وہا ں پہنچتے ہی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ تین سال کے کٹھن دور کے بعد آ پ کے والد کے دوست بمبئی کے ایڈووکیٹ جنرل مسٹر میکفرسن سے ملوانے لے گئے، جنہوں نے نہ صرف خوشی سے استقبال کیا بلکہ انہی کی سفارش کی بدولت آپ کو پریزیڈینسی مجسٹریٹ کی ملازمت مل گئی۔

قائد اعظم نے برطانیہ میں قیام کے دوران حالات و واقعات کا بغور جائزہ لیا اور وہاں کی سیاسی زندگی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اسی لیے ان میں اپنے ملک کو بھی آزاد، خودمختار اور سیاسی طور پر مستحکم دیکھنے کی آرزو پیدا ہوئی۔

1896ء میں جناح نے انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کی، جو کہ اس وقت ہندوستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی۔ تاہم مہاتما گاندھی کی ہندو پرستانہ پالیسیوں کے باعث کانگریس چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ ۰۱۹۱؁ میں جناح برطانوی ہند کی امپیریل کونسل کے رکن منتخب ہوئے ۔ مسلم لیگ سے ہم دردی رکھنے کے باوجود آپ نے اس میں شمولیت سے گریز کیا، مگر 1913ئمیں مولانا محمدعلی جوہر اور سید وزیر حسین کی مشترکہ کوششیں رنگ لائیں اور آپ مسلم لیگ میں شامل ہونے پر راضی ہوگئے۔ قائداعظم کی مخلصانہ کوششوں کی بدولت آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس کے درمیان میثاق لکھنٔو طے پایا۔ 1916ء میں طے پانے والا یہ معاہد ہ خودمختاری، برطانیہ سے آزادی اور دیگر مسائل سے نمٹنے کے لیے مشترکہ معاہدہ تھا۔

قائداعظم 1924ئسے 1926ء؁ تک خاموشی سے سیاسی حالات کا جائزہ لیتے رہے اور شدید مایوس ہوئے۔ وہ 1930ء میں لندن کی دوسری گول میز کانفرنس میں شریک ہوئے، جہاں علامہ اقبال بھی موجود تھے، جنہوں نے الہٰ آباد کے جلسے صدارت میں ہندوستان میں متحدہ اسلامی ریاست کے قیام پر زور دیا تھا۔ علامہ اقبال نے قائد اعظم سے کئی ملاقاتیں کیں اور اپنا نقطۂ نظر سمجھانے کی کوشش کی، لیکن قائداعظم برصغیر کی سیاست سے اتنے بیزار ہوگئے تھے کہ واپس جانے کے بجائے لندن میں رہ کر پریوی کونسل میں پریکٹس کرنے کو ترجیح دی۔ 1933 میں لیاقت علی خان اپنی بیگم کے ہمراہ لندن گئے اور قائد اعظم کو واپس لانے کے لیے قائل کیا انہیں بتایا کہ ہمیں ایسے قائد کی ضرورت ہے جو نہ کسی کے آگے جھکنا جانتا ہو نہ بِکنا۔ مسلمانان ہند ایسے مسیحا کے منتظر ہیں جو ان کے زخموں پر مرہم رکھے۔

یہ سُن کر انہوں نے کہا کہ آپ جائیں اور حالات کا جائزہ لیں اگر ایسا ہو تو مجھے بلا لیں۔ لیاقت علی خان نے واپس آتے ہی قائد اعظم کو خط لکھ دیا۔ 1934ء میں قائداعظم ہندوستان واپس آئے اور مسلم لیگ کے مردہ وجود میں جان ڈالنے کی مہم شروع کی۔ 1935 میں بمبئی میں مسلم لیگ کے اجلاس میں انہیں یہ ذمے داری سونپی گئی کہ مسلمانوں کہ بحیثیت قوم ایک پلیٹ فارم پر مُنظّم کریں تاکہ جماعتی سطح پر صوبائی انتخابات لڑے جاسکیں۔ جناح اس ذمے داری کو احسن طریقے سے نبھانے کے لیے کوشاں ہوگئے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ آپ نے آسام سے صوبہ سرحد ہر جگہ کا دورہ کیا اور مسلمانوں کو آنے والے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں بیدا ر کیا۔

ان انتخابات میں مسلم لیگ کو مسلم اقلیت والے صوبوں میں 60 سے 70 فیصد تک کام یابی حاصل ہوئی، جب کہ مسلم اکثریت والے صوبوں میں کام یابی نہ ملنے کی وجہ یہ تھی کہ بنگالی مسلمان کرشک پرجا پارٹی کے ماتحت تھے، پنجابیوں پر یونینسٹ پارٹی حاوی تھی، جب کہ پٹھانوں کو کانگریس نے محصور کر رکھا تھا۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر پنڈت جواہر لعل نہرو نے نعرہ بلند کیا کہ اس ملک میں دو ہی پارٹیاں ہیں کانگریس اور حکومتِ برطانیہ۔ قائداعظم نے جواباََ کہا تیسری قوت بھی ہے اور وہ ہے ’’ مسلم لیگ۔‘‘ دو سال کے اندر ہی معلوم ہوگیا کہ مسلم لیگ ایسی طاقت ہے، جس سے انکار ممکن نہیں۔ 1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کے مقابل شکست کے خوف سے کانگریس اپنا امیدوار کھڑا نہ کرسکی۔

دسمبر 1937ء میں پٹنہ کے صدارتی اجلاس میں قائداعظم نے ہندوستان کے ہر مسلمان کو مسلم لیگ میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہوئے کہا،’’یہ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے۔ کسی کی ملکیت نہیں، اسے جس راہ پر چلانا چاہیں چلاسکتے ہیں۔ مسلمانوں میں کافی بیداری ہوچکی ہے۔ اب اگر ہمت سے کام لیں اور خود کو فوج کی طرح منظم کرلیں تو فتح ہماری ہوگی۔‘‘ مسلمانوں نے قائد اعظم کی اس آواز پر صدق دل سے ان کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔

1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کی بیشتر نشستوں پر کام یابی حاصل کی اور قائداعظم براہ راست اس کوشش میں مصروف ہوگئے کہ مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن حاصل کیا جائے، جس کے رد عمل کے طور پر کانگریس کے حامیوں نے گروہی فسادات کرادیے۔ لارڈ ویول کے بعد ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کا وائسرائے بن کر آیا۔ اس نے مسلم لیگ اور کانگریس کے اتحاد کرانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن جب ناکامی ہوئی تو اس نے حکومت برطانیہ کو تمام صورت حال سے آگاہ کردیا۔

15مئی 1947ء کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تمام لیڈروں کو بلا کر برطانوی حکومت کے اس فیصلے سے آگاہ کیا کہ برصغیر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے گا ہندوستان اور پاکستان اور 15 اگست 1947ء کو حکومت برطانیہ دست بردار ہوجائے گی۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اس بات کا برملا اعتراف کیا،’’مجھے اس بات کا زعم تھا کہ مجھ میں لوگوں کو اپنی بات منوانے کی بڑی صلاحیت ہے، لیکن جناح کے مقابلے میں مجھے شکست ہوئی۔‘‘

7 اگست 1947ء کو بہ ذریعہ جہاز قائد اعظم دہلی سے کراچی پہنچ گئے اور  14اگست 1947ء کو پہلے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالتے ہی ایک مرتبہ پھر کاموں میں جُت گئے۔ وہ نئی مملکت کو استحکام دینے کے لیے ہمہ وقت کوششوں میں لگے رہتے۔ انھیں تقسیم کے وقت ہونے والی خوں ریزی سے شدید صدمہ پہنچا، جس کی وجہ سے ان کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ ڈاکٹروں نے انہیں آرام کا مشورہ دیا، جن کے مشورے پر وہ 1948 میں زیارت چلے گئے۔

قائداعظم نے اپنی وفات سے دو تین روز قبل اپنے معالج پروفیسر ڈاکٹر ریاض علی شاہ کے ذریعہ قوم کو پیغام دیتے ہوئے کہا تھا،’’تم جانتے ہوئے کہ جب مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے۔ یہ مشکل کام تھا اور میں اکیلا کبھی نہیں کرسکتا تھا میرا ایمان ہے کہ یہ خدا کا معجزہ ہے کہ پاکستان وجود میں آیا۔ اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں، تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے۔‘‘ قائدِاعظم کو 11ستمبر 1948ء کو کراچی لایا گیا، جہاں وہ قوم کو روتا چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔