کامران فیصل ہلاکت: چیف جسٹس کوتفصیلات سے آگاہ کردیا گیا

غلام نبی یوسفزئی  اتوار 20 جنوری 2013
جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے ورنہ تفتیشی افسران کااعتماداٹھ جائے گا،اسرارالحق،ظفرعلی شاہ فوٹو: آن لائن/ فائل

جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے ورنہ تفتیشی افسران کااعتماداٹھ جائے گا،اسرارالحق،ظفرعلی شاہ فوٹو: آن لائن/ فائل

اسلام آباد: قومی احتساب بیورو کے تفتیشی افسر کامران فیصل کی موت کا معاملہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے نوٹس میں لا یا گیا ہے۔

ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ کامران فیصل کی موت کے بارے میں اخبارات میں شائع تمام رپورٹس چیف جسٹس کے نوٹس میں لائی جاچکی ہیں اور اس حوالے سے مناسب وقت پر آرڈر بھی جاری کیا جا سکتا ہے تاہم اس وقت کیس کے تمام پہلووں کا جائزہ لیا جا رہا ہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سابق ایڈیشنل رجسٹرار حامد رضا کے قتل کے 5 سال اور 9 ماہ بعد ایک اور قتل سپریم کورٹ کیلیے چیلنج بن گیا ہے۔

سینیئر قانون دانوں کا موقف ہے کہ اگر  عدالت عظمٰی کے حکم پر  اہم نوعیت کے مقدمات پر کام کرنیوالے افسران  میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا تو آئندہ کوئی سرکاری افسر ہائی پروفائل کیسوں میں ہاتھ نہیں ڈالے گا۔ سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر میاں اسرار الحق نے کامران فیصل کی موت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ موت کی اصل وجہ انکوائری کے بعد معلوم ہوگی لیکن شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں۔

3

اس  معاملے کی جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے تاکہ اصل حقائق سامنے آسکیں ۔ انھوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین کے تحفظ کیلیے سپریم کورٹ کا کردار لائق تحسین ہے لیکن سپریم کورٹ اپنی حد میں رہ کر کام کرتی ہے ،کسی کی جان و مال کا تحفظ انتظامیہ کی ذمے داری ہے ۔ انھوں نے کہا کہ نیب کے انکوائری افسر کی موت سے بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے ، ان کا جواب آنا ضروری ہے ورنہ جرائم کی تفتیش کرنیوالے افسران کا سسٹم پر اعتماد اٹھ جائے گا ۔

سینیئر قانون داں اور مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر سید ظفر علی شاہ نے بتایا کہ رینٹل پاور کیس کی چند  سماعتوں کا جائزہ لینے کے بعد ایک بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ کامران فیصل کی موت خود کشی کا نتیجہ نہیں ، نیب حکام نے ان کے حوالے سے سپریم کورٹ میں غلط رپورٹ پیش کی تھی۔ ظفر علی شاہ نے بتایا کہ تفتیشی افسر کو راستے سے ہٹانے میں ملوث لوگوں کو بے نقاب کرنا مشکل نہیں لیکن اس کیلیے جوڈیشل انکوائری  لازمی  ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔