تماشہ ختم ہوا

راؤ سیف الزماں  منگل 16 مئ 2017

ججز نے وضاحت کی کہ انھوں نے وہ نہیں کہا جو ایک سیاستدان نے سمجھا،انھوں نے وہ بھی نہیں کہا جس کی تشریح میڈیا نے  کی ،انھوں نے وہ بھی نہیں کہا ،جس کی قانونی ماہرین نے تفصیل بیان کی ۔وہ سخت غصے میں تھے اور اس امر پر ناراض کہ ان کے فیصلے کو نہایت غلط discuss کیا گیا، غلط مفہوم پہنائے گئے،اب تک پہنائے جارہے ہیں۔

اس معاملے کو فی الفور رکنا چاہیے، لیکن معاملہ نہیں رکے گا ۔کیونکہ اپوزیشن جلدی میں ہے اسے فوری طور پر حکومت سے  استعفیٰ چاہیے، اب وہ کسی بھی ذریعے سے حاصل ہو، استعفیٰ دینا ہوگا ۔کسی بھی قیمت پر خواہ قیمت ملک وقوم ہو یا سسٹم کی بربادی، ملک کی ترقیِ داؤ پر لگ جائے،کچھ بھی ہو استعفیٰ دینا ہوگا اور وزیرِاعظم انھیں بنانا ہوگا،اس میں بھی عوام ووٹ دیں نا دیں،کوئی مسئلہ نہیں، الیکشن ہوں نہ ہوں ایک دفعہ بس ایک دفعہ آپ انھیں وزارتِ عظمیٰ دے دیں یا دلوا دیں ۔ورنہ یہی سب ہوتا رہے گا وہ باز نہیں آئیں گے، دھرنا دیں گے، ملک بند، اسلام آباد بند، معیشت کا پہیہ جام! ایک مرتبہ تو ہر قیمت پر آپ کو انھیں حکومت دینی ہوگی۔یہ خواہش ہے ہمارے بعض سیاستدانوں کی جس کی تکمیل میں وہ اس قدر آگے بڑھ گئے کہ انتہائی قابلِ احترام ججز کے فیصلے کو غلط مفہوم پہنانے لگے ،ان کے حوالے سے کچھ کا کچھ کہدیا بلکہ اپنی سوچ کو بیان کرگئے۔

عجیب ہے یہ اقتدار بھی ہزارہا سالوں سے باعثِ انتشار ، باپ بیٹے کا دشمن ، بیٹا باپ کا ، بھائی نے بھائی کو مروا دیا ،ماں نے بیٹے کو قید میں ڈلوا دیا۔لیکن پھر بھی کسی ایک کا نہ ہوا ! ہمیشہ سے بیوفا ،جس نے اسے چاہا اسے مرنا پڑا، سسکنا پڑا، رونا پڑا، گمنامی کی گہری دلدل اس کا مقدر بنی، پھر بھی انسان میں کبھی اس کی چاہت کم نا ہوئی، بلکہ وقت کے ساتھ اس محبت  میں اضافہ ہوا بے تحاشہ اضافہ۔

آج بھی دنیا بھر میں اقتدار انسانی جسم میں خون کی مانند ہے، وہ  اس کے لیے جیتا مرتا ہے ،اقتدارکسی بھی سطح کا ہو ، ملک سے لے کرگھر تک ،آفس سے لے کر سڑک تک ،جھگڑا سارا اسی کا ہے۔تو خان صاحب کا پھر کیا قصور؟ وہ تو ذرا سی تاریخ دہرا رہے ہیں ۔مجھے یاد ہے میں نے اپنے کچھ ابتدائی آرٹیکلز میں کہا تھا کہ ہم بحیثیت قوم و ملک ابھی تکمیل اور تعمیر کے مراحل سے گزر رہے ہیں، ہمیں بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا ،کافی عرصے تک ہم کچھ ایسا کرنے کی حالت میں نہیں جس سے ہمارے سرحدی دشمنوں کو ہمارے خلاف کسی طرح کی شہ ملے۔

ہمیں مضبوط نظر ہی نہیں آنا مضبوط بننا بھی ہے۔لیکن اعلیٰ ترین اداروں پر یا ان کے فیصلوں پر من پسند ردعمل ، خودساختہ تشریح کا انجام کیا ہوگا ؟ ظاہر ہے ادارے تباہ ہوجائیں گے یا ان کی وہ اہمیت اورافادیت باقی نہیں رہے گی کہ لوگ بغرضِ انصاف وہاں جائیں۔آپ اقتدار کی جنگ ضرور لڑیں ، حکومت کا حصول بھی کچھ ایسا غلط نہیںلیکن طریقہ کار کی درستگی کے ساتھ ۔

ادھر میڈیا کوکیا ہوگیا…لگتا ہے سارا ماضی سارا حال ، مستقبل بلکہ بعد ازمستقبل تک اب عیاں ہے جو انسانوں کے فہم سے بالاتر ہو میڈیا پر چلے جایے اور سن لیجیے ،دیکھ لیجیے، ہر موضوع پر بے شمار بحث موجود ، ہرخفیہ راز وہاں زیرِ بحث ، یہی حال عدلیہ کے فیصلے کا ہوا ۔جس کے جی میں جو آیا اس نے میڈیا پر اگل دیا اور میڈیا نے اسے بنا سنوارکے ایک عدد خوش شکل خاتون یا اسمارٹ سے کسی صاحب کے ذریعے عوام الناس میں پیش کردیا۔جس کے بعد ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا، اب اسے سنبھالیے، ملک پر پڑوس سے راکٹ داغے جارہے ہوں، شہری شہید ہورہے ہوں لیکن اپنے یہاں ایشوز پر زورشور سے بحث جاری،انداز فیصلہ کن۔

بولو ۔ارے بھائی ۔میرا کہنا فلاں وقت یہ تھا فلاں وقت یہ ،تم ذرا وڈیو کلپ تو نکالو نا،دکھاؤ ان بھائی صاحب کو ،لو جی گل ہی مک گئی۔کلپ چل گیا پڑوسی جل گیا ۔ایک چڑیا ایک مینا ،ایک طوطا ایک نینا ،کیا نہیں چل رہا ؟کوئی خواب کے ذریعے سے پیش بینی میں مصروف کوئی عذاب کی خبر سے لیکن ملک چل رہا ہے ۔اچھی بات بس یہی ہے۔

اب جیسے بھی چل رہا ہے، مجھے یاد ہے پاکستان آزاد ہوا تو اسے جس مسلم ملک نے تسلیم نہیں کیا وہ افغانستان تھا کیونکہ وہاں رشین نژاد حکومت تھی یا افغانستان ابتدا سے ہی سرخ انقلاب سے متاثر رہا ،لیکن جب روس نے افغانستان پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا تو یہ پاکستان تھا اور اس وقت کی سرکاری حکومت جس نے بلا وجہ اس آگ میں اپنے پورے ملک ،عوام اور خود کو جھونک دیا ۔کوئی وجہ موجود نا تھی کہ اسوقت کی  حکومت تاریخ کا ایساغلط ترین فیصلہ کرے،جس کے بعد وہ بربادی آئی ایسی تباہی جس سے ملک کبھی باہر نا آسکا۔

قوم پستی میں چلی گئی ،دہشت گردی اور دہشت گردوں نے ملک میں ڈیرے ڈال لیے، پھر بھی عقل نہ آئی ان دہشت گردوں کی باقاعدہ پرورش کی گئی ۔ ان کے مختلف گروپوں کو آپس میں لڑوایا گیا اوراسے بہترین خارجہ پالیسی قرار دیکر برسوں اس پر عمل پیرا رہا گیا،آج ملک کی مغربی سرحد سے بھی خطرات لاحق ہیں وہی افغانستان آج پاکستان پر گولے اور میزائل داغ رہا ہے ،انڈیا کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہے۔

دہشت گردی کی جو واردات پاکستان میں ہوتی ہے اس کے تمام منصوبے افغانستان میں انڈیا کے اشتراک سے تشکیل دیے جاتے ہیں ،لاکھوں جانیں دے کر ، ہزاروں گھر اجڑواکے کیا ملا ؟آج ملک کی دونوں سرحدیں غیر محفوظ ۔اس کا ذمہ کون لے گا سول قیادت یا عسکری ؟ یہی وہ عظیم خارجہ پالیسی ہے،جس کے آپ صدقے واری جاتے رہے ہیں ۔افسوس اس بات پر ہے کہ آج بھی کسی ایک نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا ،آج بھی ادارے آپس میں برسرِپیکار دکھائی دیتے ہیں ،آج بھی سیاستدانوں کو صرف اقتدارکی ہوس ہے۔

شاید وہ نہیں جانتے زمین کی اہمیت کو ،اس جائے پناہ کو ،سائبان کو جو انھیں دنیا بھر میں امن دیتا ہے ،جس سے ان کی پہچان ہے ، لیکن شاید ان کے  نزدیک پاکستان صرف ایک ایسا مقام ہے جسے جب جو اقتدار میں ہو طبیعت سے لوٹے ،اعلیٰ داموں فروخت کرے  اور پھر اگلی باری کا انتظارکرے ،بیچ میں جتنا جھوٹ بول سکتا ہے بولے جتنا مکرسکتا ہے کرے۔

کیا عجب قسمت پائی ہے وطنِ عزیز تونے، یہ ہیں تیرے رکھوالے! یہ ہیں تیرے جیالے !یہ تو تماشبین ہیں جنھیں ہر نئے دن ایک تماشہ لگانا ہے  اور پھر اسے دیکھنا ہے کہ کہانی کیسی بنی ،عوام میں اس کا کیا تاثر گیا ؟کیا وہ  مزید بیوقوف بننے کے لیے تیار ہیں یا کچھ وقفہ دے دیا جائے ان کی یاداشت پرگرد پڑنے کے لیے ۔کبھی کبھی استاد امانت علی خاں مرحوم اور میڈم نور جہاں کے گائے ہوئے وہ ملیِ نغمے یاد آجاتے ہیں ۔

اے نگارِ وطن تو سلامت رہے  یا اے راہِ حق کے شہیدو ۔۔آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوجاتے ہیںاور بہتے چلے جاتے ہیں ،بہتے چلے جاتے ہیں ،دور دور تک منزل دکھائی نہیں دیتی ، رہنماء غائب ہے۔یعنی

کیا اس لیے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگادے

میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں بلکہ تنبیہ کرتا ہوں ،آپ تماشبین ہوں گے لیکن یہ ملک تماشہ نہیں ،نہ یہ ایسا تختہ مشق ہے کہ جہاں حماقتوں کو خارجہ پالیسی کا نام دے دیا جائے۔ پاکستان ہم20کروڑ غریب ، مفلس ،نادار لوگوں کا گھر ہے، ہماری جنت ہے وہ زمین ہے جس کے لیے کہا گیا۔

زمین ماں بھی ہے محبوب بھی ہے، بیٹی بھی
میں اسے چھوڑ کے جاؤں کوئی سوال نہیں

قارئینِ کرام ! مجھے معلوم نہیںکہ جو کچھ مجھے نظر آرہا ہے وہ کوئی خوش کن خواب ہے یا میں حالتِ بیداری میں  ہوںلیکن اداروں کی حدود کے تعین کے حوالے سے مجھے حال ہی میں کچھ خوش فہمیاں لاحق ہوئی ہیں،نیوز لیکس کا معاملہ یوں تو ملکی سلامتی سے تعلق رکھتا ہے اور اسے قطعی طور پر نہیں ہونا چاہیے تھا ،دنیا بھرمیں بڑی بدنامی کا سامنا رہا ، لیکن کہتے ہیں کہ شر میں سے خیر بھی نکلتا ہے اسی طرح اس کی تفصیل میں سے کچھ مثبت پہلو اجاگر ہوئے ، میں سیاق و سباق میں نہیں جاؤں گا کیونکہ آپ جانتے ہیں کیا کہنے کو میرا دل مچل رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔