یورپ کا سردار؛ جرمنی

ذوالفقار احمد چیمہ  جمعرات 29 جون 2017
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

کُرہ ارض میں امریکا کے علاوہ مغربی یورپ دنیا کا وہ خطّہ ہے جو سائنس اور ٹیکنالوجی میں پوری دنیا سے آگے نکل چکاہے اور اگر یہ پوچھا جائے کہ ترّقی کی دوڑ میں مغربی یورپ میں سرِ فہرست کونسا ملک ہے تو ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر ہر باخبر شخص کے منہ سے ایک ہی نام نکلتا ہے جرمنی۔  معاشی ترقّی کے لحاظ سے بلاشبہ جرمنی یورپ کا سب سے درخشاں ستارہ بھی ہے اور جدید مشینری کے اعلیٰ معیار کا استعارہ بھی۔

جرمنی اعلیٰ کوالٹی کا دوسرا نام ہے، یہی وجہ ہے کہ چین کی پراڈکٹس جو دنیا بھر کی مارکیٹوں پر قبضہ کرچکی ہیں جرمنی کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں۔ جرمنی کی مارکیٹوں میں جس نے بھی داخل ہونے کی کوشش کی اسے اس کی “Quality” کی مضبوط چٹانوں سے ٹکرا کر واپس لوٹنا پڑا۔ کاروں میں مرسیڈیزاوربی ایم ڈبلیو کا کوئی مقابلہ نہیں اور ان کی monopolyکو ابھی تک چیلنج نہیں کیا جاسکا۔ جرمنی کے پالیسی سازوں کا کہنا ہے کہ جرمنی کو ترّقی کے اوجِ کمال تک پہنچانے میں وہاں کے نوجوان کے فنّی ھُنر (Technical Skill)کااہم کردار رہا ہے۔

پاکستان میں قومی سطح پر Skill Development کے سب سے بڑے ادارے نیوٹیک (NAVTTC) کے ساتھ پچھلے کئی سال سے جرمنی کے بڑے خوشگوار تعلّقاتِ کار استوار ہیں جرمنی ہی کا سرکاری ادارہ GIZ ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم و تربیّت میں ہمارا پارٹنر ہے اور کئی سالوں سے فنّی تعاون فراہم کررہا ہے، GIZکے اعلیٰ حکّام پہلے بھی دعوت دے چکے تھے کہ پاکستان کے سکل ڈویلپمنٹ سیکٹر کے پالیسی سازوں کو جرمنی کا وہ سسٹم دیکھنا چاہیے جو جرمن انڈسٹری کو اعلیٰ معیار کے ھنرمند فراہم کررہا ہے اور جس کے نتیجے میں جرمنی پوری دنیا کو ایسے بلند معیار کی مشینری مہیّا کر رہا ہے جس پر دنیا بھر کے لوگ آنکھیں بند کرکے اعتبارکرتے ہیں۔

سالِ رواں کے آغاز میں جرمنی کی جانب سے پھر دعوت دی گئی کہ ’’ اب پاکستان کے TVETسیکٹر کا دنیا بھر میں تعارف ہوچکا ہے اور یہ درست سمت میں چل پڑا ہے اب وقت ہے کہ آپ جرمنی کے سسٹم کا مشاہدہ کرکے اس سے مزید مستفید ہوں‘‘ لہٰذا دعوت قبول ہوئی اور اس سیکٹر میں مرکز اور صوبوں کے سینئر حکّام اور انڈسٹری کے نمائندوں پر مشتمل وفد ترتیب دیا گیا، جو مئی کے وسط میں جرمنی کے لیے روانہ ہوا۔

ائرپورٹ پر پہنچے تو لاؤنج میں ایک ہمدم دِیرینہ سے ملاقات ہوگئی جنہوں نے دورۂ جرمنی کا سن کر ہٹلر کے حوالے سے دو واقعات سناکر طبیعت نہال کردی۔

کہنے لگا “دوسری جنگِ عظیم میں جرمنی اور جاپان اتحادی افواج کو دھکیلتے ہوئے ہندوستان کے قریب آن پہنچے تو انگریزوں نے جنگ میں جھونکنے کے لیے مقامی افراد کی بھرتی شروع کردی۔ اسی سلسلے میں ایک انگریز میجر مقامی تحصیلدار کے ساتھ سرگودھا کے ایک گاؤں میں پہنچا، گاؤں کو اکٹھا کیا گیا تو انھوں نے کہا ہمارے بڑے (مَہرصاحب) ہمیں جو کہیں گے ہم اُس پر عمل کریں گے۔

مَہر صاحب کو اُن کے ڈیرے سے بلوایا گیا، مَہر صاحب کا کُرتا (قمیض) کندھے پر تھا اور مویشی چرانے والی چھڑی ہاتھ میں تھی۔ تحصیلدار نے انگریز میجر کی بات کا اردو ترجمہ کرتے ہوئے کہا “مَہر صاحب! ملکۂ معّظمہ کا پیغام ہے کہ ہٹلر جیسے ظالم شخص کو شکست دینے کے لیے آپکی مدد کی ضرورت آن پڑی ہے اسلیے آپ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کروا کر اپنا حصّہ ڈالیں”۔مہر صاحب جو نیچے بیٹھ کر غور سے سُن رہے تھے، اُٹھ کر کھڑے ہوئے کرُتے کو دوسرے کندھے پر رکھا اور چھڑی کی ٹیک لگا کر تحصیلدار سے کہنے لگے  “صاحب ! جے جنگ دا فیصلہ ساڈے جئے ڈنگر چارن والیاں تے ای آ پیا اے تے ملکہ ہوراں نوں آکھو اوہ ہٹلر نال صلح ای کرلیَن” (ملکہ صاحبہ سے کہیں کہ اگر جنگ کا فیصلہ ہم جیسے مویشی چرانے والوں نے ہی کرنا ہے تو بہتر ہے وہ ہٹلر سے صلح کرلیں)۔

پھر سنانے لگا کہ “دوسری جنگِ عظیم کے دوران ہمارے گاؤں سے اشرف نام کا ایک لڑکا بھی فوج میں بھرتی ہوگیا شام کو اس کی ماںتندور پر روٹیاں لگوانے گئی تو بیٹے کی بھرتی پر ریمارکس دیتے ہوئے دوسری عورتوں سے کہنے لگی سُنیا اے ہٹلر وی بڑا ڈاہڈا اے تے میرا اچھُّو وی بڑا  ہَتھ چھُٹ اے۔ ویکھوں ہون کی بَن دا اے اللہ خیر ای کرے” (سنا ہے کہ ہٹلر بھی بڑا سخت گیر ہے اب اس کی مخالف فوج میں شامل ہونے والا میرا بیٹا بھی بڑا لڑاکا ہے۔ اب دیکھیں کیا بنتا ہے اللہ خیر کرے)  “۔

مگر آج کا جرمنی ہٹلر کا جرمنی نہیں نہ آج کے جرمنوں کی اکثریت ہٹلر سے اپنا کوئی ناطہ جوڑنا چاہتی ہے۔ آج کا جرمنی ایڈنیور، ولی برانٹ اور انجیلا مرکل کا جرمنی ہے۔  اُس حیرت انگیز ملک میں داخل ہونے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ جرمنی کیا تھا اور یہ سپر پاور کیسے بنا؟

انیسویں صدی تک جرمنی کئی ریاستوں پر مشتمل تھا جس میں پرشیا سب سے بڑی ریاست تھی۔ متحد نہ ہونے کی وجہ سے ریاستیں کمزور تھیں جو اکثر جارحیّت کا نشانہ بنتی رہیں۔ انیسویں صدی کے آغاز میں فرانس کے حکمران نپولین نے حملہ کرکے جرمنی کے ایک بڑے حصّے کو روند ڈالا۔ اس جارحیّت کے اثرات سے نکلنے کے بعد پرشیا (جو سب سے بڑی ریاست تھی اور کوئلے کے ذخائر اور تجارتی راہداریاں بھی اسی کے قبضے میں تھیں)نے ترقی کے راستے پر گامزن ہونے کا عزم کیا۔ پرشیا نے 1898ء میں ایک ایسا ٹیرف سسٹم رائج کیا جس کے تحت خام مال پر ڈیوٹی ختم کردی گئی اور مینوفیکچرڈ اشیاء پر بھاری ڈیوٹی عائد کردی گئی۔

اس کے تحت صوبوں کے درمیان کھلی تجارت کی حوصلہ افزائی کی گئی، روتھ شیلڈ سے قرضہ لیا گیا جس کی مدد سے صنعتی پیداوار میں حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر …قوموں کی تقدیر بدلنے میں چند افراد ہی فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں اس وقت کے وزیرِ خزانہ ایڈولف ددن موٹز نے معیشت کی بہتری میں بنیادی کردار ادا کیا۔ تجارت اور صنعت کے وزیر پیٹروِل ہیلم نے ٹیکنیکل کمیشن تشکیل دیا اور برلن ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ کے نام سے فنّی تربیّت کا پہلا ادارہ قائم کیا جس نے جرمنی کی صنعتی ترقی میں تاریخی کردار ادا کیا۔

جرمنی کی کسٹمز یونین Zol Kerein) ( نے بھی جرمنی کی صنعت کے لیے نئے راستے اور نئے امکانات تلاش کیے، اس کی وجہ سے خام مال کی سپلائی جاری رہی اور اس طرح جرمن صنعت ترّقی کے زینے چڑھتی گئی۔ اس دوران بینک قائم ہونا شروع ہوگئے جن سے انڈسٹری کو مہمیز ملی۔ ٹیکسٹائل کے شعبے میں سب سے پہلے 1782ء میں مشینی پیداوار کا تجربہ کیا گیا۔ 1783ء میں کپڑے کاسب سے پہلا کارخانہ قائم ہوا۔

اس کے بعد لوہے کے کارخانے لگانے کی طرف توجہ دی گئی۔ 1796ء میں لوہے کی پہلی فرنس قائم کی گئی۔ 1810ء میں 46ہزار ٹن لوہا پیدا کیا جاتا تھا 1850ء میں اس کی پیداوار ساڑھے پانچ لاکھ ٹن تک پہنچ گئی۔ اسی دوران اسٹیم انجن ایجاد ہوا جس کے بعد ریلوے لائن بچھائی گئی۔

1835ء میں ریل صرف نیورمبرگ اور فرتھ کے درمیان چلتی تھی پہلے پہل جرمنی ریل انجن برطانیہ یا بیلجئم سے درآمد کرتا تھا پھر اس نے خود ریل انجن بنانا شروع کر دیئے۔ پرشیا کی قیادت میں 1871ء میں جرمن متحد ہوا اور اس کے ساتھ ہی ملک میں صنعتی انقلاب برپا ہوگیا۔ جرمنی کے متحد ہونے کے بعد لوہے اور ہیوی مشینری کی پیداوار شروع ہوئی۔1879ء میں جرمنی لوہے کی پیداوار میں پورے یورپ سے آگے نکل گیا۔

بیسویں صدی شروع ہونے سے پہلے جرمنی اپنے حیرت انگیز صنعتی انقلاب کے بل بوتے پر برطانیہ کو پچھاڑ کر یورپ کی سب سے بڑی صنعتی قوت بن  چکا تھا اور اب وہ امریکا سے مسابقت کی تیاریوں میں تھا۔ اس دوران بجلی کی پیداوار میں جرمنی میں سیمنز اور جنرل الیکٹرک کمپنی جیسی بین الاقوامی کمپنیاں قائم ہوئیں۔ اس کے بعد کیمیل، فارماسیوٹیکل، ڈائز، سینتھیٹکس اور زرعی مشینری میں جرمنی نے معجزے دکھانے شروع کردیئے۔

Dye میں Bayer  اور Hoeschtجیسی کمپنیاں وجود میں آئیں اور پھر جرمنی آٹو موبیل یعنی (کاروں) کے میدان میں بھی سب کو مات دے گیا۔ دنیا میں سب سے پہلی کاریں جرمنی میں ہی تیار ہوئیں۔ Daimlerاورمرسیڈیز پوری دنیا میں  بہت مقبول ہوئیں۔

جرمنی کے اس حیرت انگیز صنعتی انقلاب میں سب سے بڑا کردار تعلیم اور فنّی ھنر مندی نے ادا کیا۔ حکومت نے علم کے فروغ اور فنّی ھنرمندی کو ترجیحِ اوّل بنالیا جس کے نتیجے میں ٹیکنیکل اداروں نے بڑے بڑے محقق ریسرچر اور موجد پیدا کیے جنہوں نے نئی نئی ایجادات کرکے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ ٹیکنیکل ٹریننگ سے جرمنی کے صنعتی شعبے کو انتہائی ماہر اور تربیّت یافتہ ورکر اور ٹیکنیشن میّسر آئے جنہوں نے ملک کی صنعتی  ترقی کو اوجِ کمال تک پہنچادیا۔

غلبہ ، قبضہ اور دولت اور اقتدار میں اضافہ…  انسان کی سرشت اور جبلّت میں ہے زمانۂ قدیم ہو یا اکیسویں صدی کا جدید دور… طاقتور حکمرانوں اور سلطنتوں نے کمزور ملکوں کو تاخت و تاراج کرکے ان پر قابض ہونا اپنا حق سمجھا ہے۔ انیسویں صدی کا جرمنی جب معاشی اور فوجی طاقت کے لحاظ سے یورپ کی سب سے بڑی قوّت بن گیا تو اس کے حکمرانوں کو پوری دنیا پر راج کرنے کا شوق چر ایا، لہٰذا وہ شوقِ جہانگیری کی تکمیل کے لیے اپنے ہمسایہ ملکوں پر  چڑھ دوڑے اور پھر دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اس جنگ میں کود پڑیں۔ 1914ء سے شروع ہوکر 1918ء تک جاری رہنے والی اس پہلی عالمی جنگ میں پہلی بارانسانوںکا فضاؤں اور سمندروں کی تہوں میںبھی ٹکراؤہوا۔  (جاری ہے)

نوٹ : حادثہ ِ احمد پور شرقیہ سے ہر شخص غم زدہ ہے۔ اس سے ایک طرف سیکڑوں گھرانے برباد ہوئے ہیں اور دوسری طرف پوری دنیا کے سامنے ہماری معاشرتی پستی بے نقاب ہو گئی ہے۔ کیا باوقار قوموں کے باشندوں کا طرز ِ عمل ایسا ہوتا ہے ؟ کیا وہ گرے ہوئے خطرناک تیل پر ٹوٹ پڑتے ہیں؟ کہاں ہیں معاشرے کی تربیت کرنے والے معلّم، مصلح اور قومی رہنما؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔