سندھ میں فنڈز کے استعمال اور بھرتیوں پر پابندی

جی ایم جمالی  منگل 5 فروری 2013
سپیکر سندھ اسمبلی نثار احمد کھوڑو نے واضح کیا تھا کہ خالی اسامیوں پر بھرتیاں کرنا حکومت کا قانونی حق ہے۔ فوٹو: ایکسپریس/فائل

سپیکر سندھ اسمبلی نثار احمد کھوڑو نے واضح کیا تھا کہ خالی اسامیوں پر بھرتیاں کرنا حکومت کا قانونی حق ہے۔ فوٹو: ایکسپریس/فائل

کراچی: سندھ پاکستان کا پہلا صوبہ بن گیا ہے ، جس نے اگلے روز الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہدایت پر صوبے میں نئی بھرتیوں اور ترقیاتی فنڈز کے استعمال پر پابندی عائد کردی ہے ، جس کی وجہ سے صوبے میں زبردست بحران پیدا ہوگیا ہے ۔ ایسی پابندی نہ تو وفاقی حکومت نے عائد کی ہے اور نہ ہی تینوں صوبوں پنجاب ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے اس طرح کا کوئی اقدام کیا ہے ۔ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے اور مسلم لیگ (ن) الیکشن کمیشن کو مضبوط بنانے کی حامی ہے ۔ اس نے دیگر سیاسی مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے ساتھ اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ کے سامنے احتجاجی دھرنا بھی دیا ہے لیکن پنجاب حکومت نے الیکشن کمیشن کی ہدایت پر سندھ حکومت کی طرح نئی بھرتیوں اور ترقیاتی فنڈز کے استعمال پر ابھی تک پابندی عائد نہیں کی ہے ۔ یہ بات سوچنے والی ہے ؟

پابندی عائد کرکے سندھ حکومت نے عجلت کا مظاہرہ کیا ہے ۔کیونکہ اس حوالے سے بھی اسے وفاقی حکومت کی کوئی ہدایت نہیں تھی اور نہ ہی پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت نے صوبائی حکومت کو ایسا کرنے کے لیے کہا تھا ۔ وفاقی وزیر مذہبی امور سید خورشید احمد شاہ کی سربراہی میں وفاقی حکومت کے ایک وفد نے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم سے ملاقات کی تھی اور انہیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ عام انتخابات کے شیڈول کے اعلان سے قبل الیکشن کمیشن ایسی پابندی کے احکامات جاری نہ کرے کیونکہ پابندی سے حکومت کے انتظامی امور معطل ہوجائیں گے ۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کا مؤقف ہے کہ الیکشن شیڈول سے پہلے الیکشن کمیشن کو ایسے احکامات جاری کرنے کا اختیار بھی نہیں ہے۔

اسپیکر سندھ اسمبلی نثار احمد کھوڑو نے (جو اس وقت قائم مقام گورنر سندھ ہیں ) کچھ دن پہلے ہی واضح کردیا تھا کہ خالی اسامیوں پر بھرتیاں کرنا حکومت کا قانونی حق ہے۔ اگر اس کام میں رکاوٹ ڈالی گئی تو حکومت عدلیہ سے رجوع کرے گی ۔ سندھ کے وزیر قانون محمد ایاز سومرو ، وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن اور دیگر وزراء بھی کم و بیش اسی طرح کے خیالات کا اظہا کرچکے ہیں ۔ سندھ حکومت کی طرف سے ایک مرحلے پر صوبائی محکمہ قانون کو یہ بھی ہدایت کردی گئی تھی کہ وہ الیکشن کمیشن کے ان احکامات کو چیلنج کرنے کے لیے کیس تیار کرے ، الیکشن کمیشن کی طرف سے اس بات پر زور نہیں دیا گیا ، لہٰذا حکومت سندھ بھی خاموش رہی ۔

تاہم یہ بات تو واضح ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت اور قیادت بھرتیوں اور ترقیاتی فنڈز کے استعمال پر پابندی لگانے کے حق میں نہیں تھی لیکن اچانک سندھ حکومت نے31 جنوری 2013 کو ایک نوٹیفکیشن جاری کردیا ، جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنے 21 جنوری 2013 کے ’’ پریس ریلیز‘‘ میں یہ ہدایت کی ہے کہ تمام وزارتوں ، محکموں اور اداروں میں ہر قسم کی بھرتیوں اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز کے اجراء پر پابندی عائد کردی جائے اور جو فنڈز پہلے جاری کیے گئے ہیں ، انہیں منجمد تصور کیا جائے ۔ چیف سیکریٹری نے تمام محکموں کے انتظامی سربراہوں ، ڈپٹی کمشنرز ، خود مختار اور نیم خود مختار اداروں ، کارپوریشنز اور لوکل کونسلز کے انتظامی سربراہوں کو ہدایت کی کہ وہ الیکشن کمیشن کے احکامات پر اس کی روح کے مطابق عمل کریں ۔ چیف سیکریٹری سندھ کے اس اچانک نوٹیفکیشن نے سب کو حیران کردیا ۔ سندھ حکومت میں شامل لوگوں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ ایسا ہونے والا ہے ۔

پاکستان پیپلزپارٹی کی سیاسی طاقت کا مرکز سندھ ہے ۔ بے روزگاری پر قابو کے لیے گذشتہ چار سال سے مسلسل ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو ملازمتیں فراہم کرنے کا سلسلہ جاری تھا اور رواں سال بھی اس ضمن میں مختلف اخبارات کے ذریعے اشہارات شایع کرکے تحریری اور انٹرویوز کا سلسلہ مکمل کیا جاچکا تھا ، صرف تقرر نامے جاری کرنے تھے جبکہ ترقیاتی فنڈز کے اجراء میں بھی تیزی آگئی تھی ۔ صدر مملکت آصف علی زرداری تمام ترقیاتی منصوبوں پر خصوصی توجہ دے رہے تھے اور کراچی میں ایک ماہ کے قیام کے دوران مختلف ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لیتے رہے اور ہدایت کی کہ تھی کہ مارچ سے قبل تمام ترقیاتی منصوبے مکمل کیے جائیں ، ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا ، ہمیشہ سے ایسا ہوتا آیا ہے ۔

سیاسی جماعتیں اپنے ووٹرز کو یہ احساس دلاتی ہیں کہ وہ ان کے لیے کام کر رہی ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر رہی ہے ۔ اس سے پہلے ایک آمر جنرل پرویز مشرف کی چھتری تلے ایک حکومت نے اپنی مدت پوری کی تھی ۔ اسے اس لیے جمہوری قرار نہیں دیا جاسکتا کہ 2002 کے عام انتخابات میں دو بڑی مقبول سیاسی جماعتوں کی قیادت کو انتخابات سے باہر رکھا گیا تھا ۔ اس حکومت نے بھی اپنے آخری دنوں میں بڑے پیمانے پر نوکریاں دیں اور آخری دنوں میں ترقیاتی کام کرائے ۔ اس وقت الیکشن کمیشن نے ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کی تھی ۔ گزشتہ سندھ حکومت کی بدقسمتی یہ تھی کہ اتحادی جماعتوں کے مابین نوکریوں کی تقسیم کے مسئلے پر اتفاق نہیں ہوسکتا تھا ، جس کی وجہ سے محکمہ تعلیم کی 14، ہزار اسامیوں پر لوگوں کو تقررنامے جاری نہیں کیے جاسکے تھے حالانکہ عالمی بینک کی ہدایات کے مطابق امیدواروں کے ٹیسٹ اور انٹرویوز بھی منعقد ہوگئے تھے اور میرٹ لسٹیں بھی تیار ہوگئی تھیں ۔

14ہزار کامیاب امیدواروں کو بعدازاں پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت نے اسی میرٹ لسٹ کے مطابق نوکریاں دیں جو گزشتہ حکومت نے تیار کی تھی لیکن گزشتہ حکومت نے دیگر محکموں میں بڑے پیمانے پر بھرتیاں کی تھیں اور آخری دو ماہ میں آخری مالی سال کا 60 فیصد ترقیاتی بجٹ خرچ کیا تھا ۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت پابندی سے قبل چار سال 9 ماہ کے دوران 45 ہزار بیروزگار نوجوانوں کو نوکریاں دے چکی تھی جبکہ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا تھا کہ ایک لاکھ سے زائد نوکریاں سندھ کے عوام کو میرٹ کی بنیاد پر فراہم کرچکے ہیں جبکہ 60 ہزار سے زائد نوجوانوں کو بے نظیر یوتھ ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت مختلف شعبوں میں تربیت دی ۔

پانچ سالوں کے دوران ترقیاتی بجٹ پر 400 ارب روپے سے زیادہ خرچ کیے ، عام خیال تھا کہ اگر الیکشن کمیشن نے اپنے احکامات پر عمل درآمد کرانے کے لیے بہت زیادہ زور دیا توسندھ حکومت آخری حکومت ہوگی ، ان احکامات پر عملدرآمد کرے گی ۔ چیف سیکریٹری کی طرف سے پابندی کے اچانک نوٹیفکیشن نے تو اسے پہل کرنے والی حکومت بنا دیا اور اس کی تقلید کسی اور حکومت نے نہیں کی ۔ سندھ کے ہزاروں بیروزگار نوجوانوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے جنہوں نے ٹیسٹ اور انٹرویوز دیئے ۔ حکومت نے بھی اشتہارات کی اشاعت ، ٹیسٹ اور انٹرویوز کے انعقاد پر کروڑوں روپے خرچ کیے ۔ ترقیاتی منصوبے بھی درمیان میں رک گئے ہیں ، جس سے سندھ کے اربوں روپے ضایع ہونے کے خطرات پیدا ہوگئے ہیں ۔ بڑی تعداد میں منصوبے تکمیل کے مراحل میں تھے جو اب شاید کبھی مکمل نہ ہوسکیں ۔ ایسا آخر کیوں کیا گیا ؟ اس سوال کے جواب کی تلاش میں کئی اہم انکشافات آئندہ دنوں میں ہوسکتے ہیں۔

پابندی کا نوٹی فکیشن جاری ہونے سے پہلے سندھ میں عجیب و غریب واقعات رونما ہوئے ۔ بعض محکموں کے افسروں نے ایک قسم کی بغاوت کا اظہار کردیا ۔ انہوں نے تقرر ناموں پر دستخط کرنے سے انکار کردیا اور یہ جواز اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن نے نئی بھرتیوں پر پابندی عائد کردی ہے ۔ ان کا یہ موقف ایسے ہی تھا ، جیسے سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی سردار محمد اسلم بھوتانی کا تھا ۔ اسلم بھوتانی نے اپنے طور پر یہ فیصلہ دے دیا تھا کہ سپریم کورٹ کے ریمارکس کے مطابق بلوچستان حکومت ناکام ہوگئی ہے لہذا بلوچستان اسمبلی کا اجلاس نہیں بلائیں گے ۔

حالانکہ سپریم کورٹ نے کبھی بھی بلوچستان اسمبلی کا اجلاس نہ بلانے کا حکم نہیں دیا تھا ۔ سندھ کے افسروں کا استدلال بھی یہی ہے کہ الیکشن کمیشن نے نئی بھرتیوں اور فنڈز کے استعمال پر پابندی عائد کردی ہے حالانکہ الیکشن کمیشن نے وفاقی حکومت اور دیگر تین صوبوں کو یہ پابندی عائد کرنے پر کوئی نوٹس اب تک نہیں دیا بھیجا ہے اور نہ ہی وفاق اور دیگر تین صوبوں کی بیوروکریسی نے ایسی کوئی بغاوت کی ہے ، جیسے سندھ کے کچھ افسروں نے کی ہے ۔ یہ تو وقت آنے پر راز کھلے گا کہ اصل معاملہ کیا تھا ؟ کیا یہ پیپلز پارٹی کے خلاف کسی بڑی سازش کا حصہ تھا یا غلط فہمی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔